پریم کانت: دلّی کے اندھیرے میں روشنی کی کرن


گنگا جمنی تہذیب کا نمائندہ شہر دلی ایک بار پھر فسادات کی زد میں ہے۔ تاریخی اور تہذیبی ورثے کی عظیم نشانی پھر نوحہ کناں ہے۔ میر نے دلی کے جن کوچوں کو اوراق مصور اور خو بصورت شکلوں کو تصویریں قرار دیا تھا، آج وہ کوچے انسانی خون سے لہو رنگ ہیں۔ سڑکیں سنسان، گلیاں سہمی ہوئی، مکان خاموش، مکیں خوفزدہ، لوگ ہراساں، انسانیت برہنہ اور جگہ جگہ مظلوموں کی سسکیاں، چیخیں اور آہ و بکا۔

گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ

دلی اب کے ایسی اجڑی گھرگھر پھیلا سوگ

مودی کے دوست ٹرمپ کے دورہٕ بھارت کے موقعے پر متنازعہ شہریت کے قانون کی وجہ سے سلگتا ہوا ملک اچانک بھڑک اٹھا۔ وہ مسئلہ جو ڈھائی تین ماہ قبل پورے بھارت کی سیکڑوں کمیونیٹیز کا مسئلہ تھا۔ جس کے خلاف تمام شہری بلا تخصیص مذہب، ملت، مسلک، طبقہ ہر ہندوستانی کا مسئلہ تھا اور جس کے خلاف ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھ، پارسی غرض تمام مذاہب کے پیروکار مربوط و منظم جدوجہد کر رہے تھے۔ مگر بھلا ہو ہمارے امت مسلمہ کے سرفروشوں کا جنہوں نے بڑی محنت اور کمال مہارت سے آخر کار اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ بنا دیا جس کے نتیجے میں آج وہاں مسلمان بستیاں انتہا پسند و جنونی ہندوٶں کی زد میں ہیں۔ دلی کے مدارس، مسجدیں اور آبادیاں لہولہان ہیں۔ چالیس سے زائد مسلمان قتل، سیکڑوں لاپتہ اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ دلی کا الہدٰی مدرسہ فاروقیہ اور وہاں موجود قرآن پاک کے نسخے، قیمتی کتابیں اور بچوں کے بستے خاکستر ہو چکے ہیں۔ ۔

یہ سب کچھ نہایت دکھ دے، افسوسناک اور دلگداز ہے۔ یہ کھلی بر بریت کسی بھی لحاظ سے قابل برداشت نہیں مگر مجھے حیرت اپنے ان دردمندوں پر ہو رہی ہے جو اسلام کے قلعے میں مسجد اور مدرسے میں معصوم بچیوں کو محصور کر کے بھسم کر دیتے ہیں اور دلی میں مسجد کی بے حرمتی پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ ان سفاک اور شقی القلب فدئیوں پر ہوتی ہے جو مخالف مسلک کی عبادت گاہوں میں جسموں سے بم باندھ کر خونی کھیل کھیلتے ہیں اور سیکڑوں بے گناہوں کو پل بھر میں لقمہٕ اجل بنا دیتے ہیں۔

ان درندہ صفت اور جنونی قاتلوں پر ہوتی ہے جو دلی کے مسلم کش فسادات پر تو ماتم کرتے ہیں مگر درسگاہ کو قتل گاہ بنا کر مشال پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے ڈنڈوں، پتھروں، نیزوں اور بھالوں سے مار دیتے ہیں۔ حیرت ہے کہ آج وہ بھی دلی کے واقعات پر مذہبی سیاست چمکارہے ہیں جنہوں نے مسیحی جوڑے پر جھوٹا الزام لگا کر زندہ اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر وکٹری کے نشان بنائے تھے۔ جنہوں نے آسیہ مسیحی پر صرف اس لیے توہین مذہب کا الزام لگا کر حوالہٕ زنداں کیا تھا کہ اس نے ہمارے برتن میں پانی کیوں پی لیا تھا؟ وہ لوگ بھی آج دلی کے حالات پر ملول و مغموم ہیں جنہوں نے گورنر اور پروفیسر کے قاتلوں کو اپنا ہیرو بنا رکھا ہے۔ یہ فہرست جس قدر طویل ہے اسی قدر تکلیف دہ بھی ہے۔

دکھ دہ بات یہ بھی ہے کہ دلی کے افسوسناک سانحات میں ہم وہاں کے مثبت اور قابل ستائش واقعات کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہندو نوجوان پریم کانت دلی کی انہیں گلیوں میں سے ایک گھر کا باسی ہے جس نے ان فسادات میں ایک مسلم گھرانے کے آٹھ افراد کی زندگیاں بچائیں۔ شر پسندوں نے گھر کو آگ لگادی تو پریم کانت نے اندر پھنسے ہوئے تمام مسلمانوں کو باہر نکالا۔ گھر کی ضعیف خاتون کو بچاتے بچاتے وہ خود بھی ستر فیصد جل کر ہسپتال پہنچ گیا۔ اس کے بچنے کے امکانات کم ہیں مگر وہ آٹھ زندگیاں بچانے پر خوش ہے۔ دلی کے انسانیت سوز سانحات میں پریم کانت جیسے نوجوان گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں جن کی قربانی پر شرف آدمیت کو فخر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments