امریکہ افغان معاہدہ


امریکہ اور طالبان معاہدہ بالاخر ہو گیا جسے فوجی انخلا اور امن سے مشروط کیا گیا۔ معاہدے کی رو سے طالبان اپنی سرزمین کسی بھی دہشت گرد جماعت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونے دیں گے اور مزید دونوں ممالک اس معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ اگر کوئی ملک اس کی خلاف ورزی کرے گا تو دوسرے ملک کے پاس جوابی کارروائی کا حق محفوظ ہوگا۔ 20 دسمبر 2019 ء کو امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زادنے کہا تھا کہ افغان امن عمل اہم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔

اس دوران امریکی ایلچی نے افغان قیادت سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اور اس امن معاہدے کے حوالے سے تفصیلی مکالمہ کیا تھا۔ حالیہ امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق طالبان اپنی سرزمین ہر طرح کی دہشت گرد تنظیموں سے پاک کریں گے۔ دوحہ میں پچاس ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں نائب امیر طالبان ملا برادر اور امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے اور ساتھ ہی ہال اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق امریکہ طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا۔

10 مارچ 2020 ء تک پانچ ہزار طالبان قیدی اور ایک ہزار افغان اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہاکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن ڈیل سے افغانستان میں امن قائم ہوگا۔ یعنی امریکہ کو آخر 19 سالہ جنگ کے بعد اس بات کا احساس ہو ہی گیا کہ افغان میں جنگ بندی ہی بہترین حل ہے کیونکہ ”اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی“ سو پہلے روس اور آج امریکہ کو جس طرح اس ملک میں طالبان کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی وہ بلاشبہ اس بات کا عندیہ ہے کہ کبھی بھی حق کے سامنے غرور نہیں ٹھہر سکا اور غرور چاہے نیٹو فورسز کا ہوا یا کسی سپر پاور کا ’ایک نہ ایک دن اسے منہ کی کھانا ہوتی ہے۔

عمران خان نے اپنی سب سے پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ہم امریکہ افغان مذاکرات میں نمایاں کردار ادا کریں گے مگر کسی صورت میں امریکہ کی غلامی تسلیم نہیں کریں گے سو آج ایسا ہی ہوا۔ پاکستان نے اس امن معاہدے کی تکمیل میں جو کردار ادا کیا وہ عالمی دنیا کے سامنے ہے کیونکہ روس بھی جس متکبر رویے سے افغانستان میں داخل ہوا تھا، امریکہ نے بھی وہی کچھ کیا اور امریکہ کو بھی آخر کار چور دروازے سے بھاگنا پڑا۔

یہ امن معاہدہ چار بنیادی نکات پر مشتمل تھا جس کے مطابق معاہدے کا اطلاق فوری ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی 9 تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔ معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 ء تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا۔

ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریباً 14 ہزار کے قریب امریکی فوجی اور 39 ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے 17 ہزار کے قریب فوجی موجود ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد افغان جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا سو انھوں نے آخر کار یہ وعدہ وفا کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ وعدہ وفا دل سے کیا یہ یہ صرف ایک سمجھوتہ ہے کیونکہ امریکہ جس تکبر سے یہ جنگ جیتنے کے نعرے لگاتا تھا وہ نعرے تو خاک میں مل گئے کیونکہ معاہدے کے فوری بعد جب نعرہ تکبیر بلند ہوا تو مذاکراتی ٹیم کے اہم ترین رہنما عباس استانکزئی نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جنگ جیت گئے اور اسی وجہ سے آج ہم یہاں بیٹھے دستخط کر رہے ہیں۔

میں صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے ایک سینئر دوست نے انتہائی اہم سوال کی جانب اشارہ کیا کہ کیا افغان خانہ جنگی میں ملوث افغان گروہ افغانستان میں کسی وسیع البنیاد عبوری حکومت اور افغانستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں کسی سمجھوتے پر متفق ہو سکیں گے اور جو آئینی حقوق خواتین اور شہریوں کو دیے گئے ہیں، انہیں برقرار رکھا جائے گا یا پھر جیسے افغانستان روس اور افغان مجاہدین کے مابین جنیوا معاہدے کے باوجود خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا تھا۔

یہ واقعی ایک اہم اور بڑا سوال ہے کہ کیا یہ معاہدہ مستقبل میں امن پیدا کرے گا یا کہ پابندیاں ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گی۔ امریکہ 750 ارب ڈالرز خرچ کرنے ’ہزاروں فوجی مروانے اور افغانستان میں 18 سال لڑنے کے باوجود آج شکست کھاگیا اور جن طالبان کو نائن الیون کے بعد امریکہ نے حملے کر کے کابل سے بے دخل کیا تھا وہ 2014 ء میں بیرونی فوجوں کی جانب سے براہِ راست کارروائیوں کے خاتمے کے بعد افغانستان کے بڑے حصے پہ قابض ہوئے اور اس عرصے میں افغان فوج کے 43 ہزار سے زائد فوجی جاں بحق ہوئے۔

قطر معاہدے کے بعد بلاشبہ افغان طالبان ایک کامیاب حربی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کے سامنے امریکہ جیسی سپرپاور بھی نہ ٹھہر سکی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں۔ افغانوں کا افغانوں کے ہاتھوں ہی جتنا خون بہا ہے اتنا بموں سے نہیں بہا سو یہ بات کسی صورت بھی بھلائی نہیں جا سکتی۔ باقی جہاں تک سوال ہے کہ افغانی اپنی سرزمین کسی دہشت گرد جماعت کے ہاتھوں استعمال ہونے دیں گے یا نہیں تو اس کا فیصلہ اب افغانیوں کے کر لینا ہوگا کیونکہ کبھی بھی ملک جنگ سے ترقی نہیں کرتے اور افغانیوں کو آزادی سے سانس لینا کی اجازت ملنی چاہیے۔

دوسری جانب امریکہ بھی یہ بات ذہن نشین کر لے کہ جنگ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، مذاکرات ہی واحد حل ہوتے ہیں اور مذاکرات ہوتے رہنے چاہیں۔ کیونکہ یہ بھی بات واضح رہے کہ اگر اب افغانستان کی حالت بگڑی تو دیگر علاقائی قوتیں بھی اپنے اپنے مفاد کے لیے میدان میں کودیں گی جس سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ مزید امریکی اور نیٹو فوج کے انخلا کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو عبوری دور کے لیے افغانستان میں مامور کیا جانا چاہیے جو جنگ بندی میں اپنی کردار ادا کرے تاکہ یہ امن معاہدہ کامیاب ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments