ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی


فروری کی نیم سرد شام تھی۔ میں جی سی یونیورسٹی کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ہال میں بیٹھا سائنسی آلہ کی تصحیح کے حوالے سے ایک پروفیسر کا انتظار کر رہا تھا کہ سامنے کی دیوار پر آویزاں ایک تصویر نے میری نظروں کو اپنی طرف کھینچا۔ اس تصویر نے ماضی کے دریچوں کو یوں کھولا کہ میرے تمام تر خیالات اُس دور کے سنہری اور تاریک یادوں میں تحلیل ہو گئے۔

وہ ہنس مکھ چہرہ جس کو آج دنیا ہر گوبِند کھورانہ کے نام سے پہچانتی ہے۔ جنوری 1922 میں ملتان کے ایک نواحی گاؤں رائے پور کے غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان کے دیا نند آریا ہائی سکول سے حاصل کی جو اب مسلم ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا۔ بیچلر اور ماسٹر کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلٰی تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے۔

ہر گوبند نے سائنس کے میدان میں ایسے جوہر دکھائے کہ 1968 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ لگ بھگ اُسی دور کے ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام جو کہ 1946 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہے۔ ریاضی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں کالج میں پڑھاتے بھی رہے۔ دنیائے فزکس میں اپنا لوہا منوایا اور 1979 میں نوبل انعام سے نوازے گئے۔

یقیناً اس دور کا شمار گورنمنٹ کالج کے سنہری ادوار میں ہوتا ہے جس نے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ان گنت مایہ ناز علم دوست انسان پیدا کیے۔ اس روشنی کے ساتھ ساتھ اندھیرے نے بھی اپنی جگہ بنائی لیکن سورج کو بھلا کون قید کر سکتا ہے؟ آفتاب کو بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اُس کے راستے میں دیوار ہے یا میدان، اس کا مذہب تو شش جہت روشنی پھیلانا ہوتا ہے۔ تاریک تو اُن کا مقدر رہتا ہے جو اس روشنی سے مستفید نہیں ہوتے بلکہ اپنے تاریک مقدر پر ہی تسکین محسوس کرتے ہیں اور اُن کو سوچ کی آزادی سے کیا غرض کہ جنہیں غلامی کی زنجیروں سے ہی اُلفت ہو۔

ہمارے ملک پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا المیہ رہا کہ ہمارے ممتاز سائنسدانوں کو یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور 1973 کے آئین میں دوسری ترمیم نافذ ہونے اور اس کے بعد ضیا دور کے قوانین کے نتیجے میں ان کا ادھر رہنا مشکل ہو گیا اور انہوں نے پاکستان چھوڑنے میں ہی اپنی خیر و عافیت سمجھی۔

جہاں پہلے سے ہی اعلٰی سائنسی ذہنوں کا فقدان ہو وہاں بھلا اس خلاء کو کیسے مکمل کیا جا سکتا ہے؟ اگر آج کے پاکستان کا ماضی کے پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم آگے جانے کے بجائے خود کو ایک قدم پیچھے دھکیل چکے ہیں۔ بس سال بدل رہے پر میرے پاکستان میں آج بھی کچھ خاص نہیں بدلا اور اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں عامر اقبال جن کا شمار دنیا کے چند اعلٰی سطح کے ریاضی دانوں میں ہوتا ہے کو بھی کرپشن کے خلاف رپورٹ بنانے کے جرم میں پاکستان چھوڑنا پڑا جو سائنسی فقدان زدہ معاشرے میں ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اور ترقی یافتہ ممالک سائنس و ٹیکنالوجی میں اوّل صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آج ہم جس نہج پر کھڑے ہیں کہ ہمیں ان اندھیروں میں ہی اپنی تسکین اور کامیابی محسوس کر رہے ہیں۔ ہم روشنی چاہتے ہوئے بھی روشنی سے ڈرتے ہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ متوسط ذہن کو ہمیشہ اعلٰی ذہن سے ڈر رہا ہے جس کی مثال ہمیں جنید حفیظ کیس میں ملتی ہے۔ امریکہ جیسے سامراج میں بہترین درجے کے تعلیمی ادارے ہیں جہاں سے تمام دنیا کے طالب علم بلا کسی مذہب، رنگ و نسل کے ان اداروں سے مستفید ہوتے ہیں اور ادھر ہم اپنے اعلٰی ذہنوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔

ایسے ملک میں سائنس کی ترویج بھلا کیسے ہو سکتی ہے جہاں دفاع کا بجٹ تو کثیر پر تعلیمی بجٹ خفیف مقدار میں ہو جس سے تعلیمی اخراجات کا مکمل ہونا مشکل ہو۔ اُس ملک میں سائنس کو فروغ بھلا کیسے مل سکتا ہے جہاں سائنس کے نام پر کروڑوں روپے کے پروجیکٹس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایک سائنسی آلہ کی تصحیح میں ایک عرصہ درکار ہو اور سائنسی مشینوں کے مہیا ہونے پر ہی اپنی ریسرچ کا احاطہ کرنا پڑے۔ ان مسائل پر تو مجھے منشی پریم چند کا افسانہ ”جامن کا پیڑ“ یاد آ رہا ہے کہ ایک کام کو مکمل ہونے میں اک عمر لگ جاتی ہے۔

جس تاریک راستے پر آج ہم کھڑے ہیں تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آج کے عہد میں سائنس کا کتنا اہم کردار ہے اور قوموں کی ترقی اس میں کیسے پنہاں ہے؟ اعلٰی قوموں میں قوتِ برداشت اور دوسروں کے بہترین کاموں کو سراہنے کا خمیر پایا جاتا ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔ اس بات کا اندازہ ہم یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ فقط مذہبی بنیاد پر ایک یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ کا نام تبدیل کر دیا جاتا ہے جو عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سائنس اور مذہب دو الگ میدان ہیں۔ اٹلی کے گلیلیو کو بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایسا تاریک دور تھا کہ سائنس پر بات کرنا جرم تسلیم کیا جاتا تھا اور مذہب کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ اسی دور میں انکویزیشن تحریک کی طرف سے ولیم برونو سمیت دس ہزار لوگوں کو جلایا گیا اور وہ باہمت گلیلیو ہی تھا جس نے قرونِ وسطیٰ کی عمارت کو گرایا اور ایک روشن عہد کا آغاز ہوا جس کو آج نشاطِ ثانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مغربی دنیا میں تو ترقی کے عہد کا آغاز کم و بیش چار سو سال پہلے ہو چکا مگر افسوس کہ جیسے ہم آج بھی عہدِ قرونِ وسطیٰ میں جی رہے ہیں۔ نا امید نہیں کہ ہر رات کے بعد نئی صبح کا آغاز ہوتا ہے اور امید ہے کہ وہ صبح قریب تر ہے۔ بقول فیض احمد فیض :

ابھی گرانئی شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments