شہید سپاہی کا وسعت اللہ خان صاحب کے خط سے اظہارِ لا تعلقی


\"amara-shah\"قابلِ صد احترام وسعت اللہ خان صاحب!

میری طرف سے آپ کا خط بنامِ ریاست پڑھنے کو ملا جس میں آپ نے بڑی دردمندی سے میرے پسِ مرگ جذبات کو حوالہِ قرطاس کیا۔ شروع سے آخر تک خط کو پڑھا تو آپ کو درد اور جزبات سے مخمور پایا لیکن بہت ساری باتوں کا مدعا ابھی تک میرے لیئے عنقا ہے۔ آپ نے لکھا کہ رات کو کروٹیں بدلتے ہوئے میرے ذہن میں کوئی خدشہ نہیں تھا۔ جب کہ سچ تو یہ ہے میرا ذہن تو سنِ شعور میں قدم رکھنے سے پہلے ہی خدشات میں محصور رہا ہے۔ کسی غریب کی جھونپڑی میں آنکھ کھولنے والے بچے کی زندگی کا کل اثاثہ خدشات کی ایک پوٹلی ہی تو ہوتی ہے جس وہ تمام عمر ٹٹولتے ٹٹولتے گزار دیتا ہے اور مرگِ ناگہانی ہی اس بارِ گراں سے اسے نجات دلاتی ہے۔

دو وقت کا کھانا نہ ملنے کا خدشہ، ابا کی دیہاڑی نہ لگنے کا خدشہ، اماں کی بیماری کا علاج نہ ہونے کا خدشہ، اگلی جماعت میں جانے پر نئی کتابیں نہ ملنے کا خدشہ، کتابیں مل جائیں تو کتابوں سے جھانکتی مفلسی اور سکول چھٹ جانے کا خدشہ، تعلیم میسر آجائے تو بے روزگاری کے بن باس کا خدشہ، روزگار مل جائے تو چھن جانے کا خدشہ، تنخواہ کی رتی کے سامنے اخراجات کے پہاڑ کا خدشہ، خرد اگر جنوں کی وادیوں میں ڈگمگائے تو خانہ آبادی کے اخراجات کا خدشہ، تنخواہ کی چادر میں ماں کی بیماری، باپ کا بڑھاپا، بہن کی شادی اور چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کو پناہ نہ مل سکنے کا خدشہ اور ان تمام خدشات کے باوجود راہِ زیست پہ رینگتے ہوئے مرگِ ناگہانی کا خدشہ۔ آپ نے لکھا کہ مجھے کوئی خدشہ نہیں تھا لیکن میرا دماغ تو اس رات بھی انہی خدشات کے جالوں سے اٹا ہوا تھا۔

اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں

جہاں تک دن کے سورج طلوع ہونے کا تعلق ہے تو جناب وسعت اللہ خان صاحب ہماری زندگی میں دن و رات کا تصور ہی کہاں؟ جہاں تھک ہار کر نیند نے آ لیا سمجھ لیتے ہیں کے رات ہو گئی وگرنہ دن ہے، ہماری درماندگی ہے اور اس درماندگی سے لڑنے کا ٹوٹا پھوٹا حوصلہ۔

ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مجھے باروزگار دیکھ کر میرے والدین کا چہرہ ضرور تمتماتا کہ شاید ان کے بوڑھے ہاتھوں کو کچھ آرام ملتا لیکن آپ کی اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ ریاست نے میرے ساتھ کوئی عہد و پیمان باندھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ تو ریاست نے تربیت گاہ میں آنے سے پہلے کبھی یقین دلایا تھا اور نہ ہی تربیت گاہ میں آنے کے بعد اور نہ میں نے ریاست کے تحفظ کا کوئی وعدہ کیا تھا بلکہ سچ پوچھیں تو میں ریاست کو جانتا ہی نہیں کیونکہ پیدائش سے لے کر موت تک میں نے ریاست نامی چیز کو اپنی زندگی میں کہیں نہیں دیکھا۔ میں تو شاید ان بدنصیب شہریوں میں سے ہوں جن کا نام بھی ریاست کی مردم شماری کے گوشواروں میں نہ ہو۔ ریاست نہ تو ماں کی زچگی میں کہیں سہارا بنی اور نہ میرے بچپن اور لڑکپن میں پالنہار بنی۔ میں تو فقط اپنے کنبے کی کفالت کے لئے تربیت گاہ میں آیا تھا یا پھر شاید ناگہانی موت سے بچنے کیونکہ تربیت گاہ میں نہ بھی ہوتا تو کہیں کسی بم یا ڈرون کا شکار ہو جاتا یا پھر شاید پیٹ کی بھوک مٹانے کسی سردار یا نواب کا کمی ہوتا یا پھر کسی فراری کیمپ کا حصہ۔

جشنِ مرگ کا تو مجھے آج نہیں پتہ۔ ہاں جس بے توقیری سے میرے تابوت کو ویگن کی چھت پر رکھ کر میرے والدین کو پہنچایا گیا اس سے میں نے یہ صاف صاف دیکھ لیا کہ ریاست کو ہماری پیدائش، بچپن، لڑکپن یا جوانی سے تو کیا ہماری موت تک سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم شاید پیدا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ یا تو پچپن کسی ورکشاپ میں گزار دیں اور جوانی کسی بم دھماکے کی نظر کر دیں یا پھر ریاست کا غدار بن کر کسی عقوبت خانے میں ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور اگر یوں نہ ہو تو پھر غیر ریاستی عناصر کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ آپ نے لکھا کہ ایک سنتری ہمارے پہرے پہ تھا۔ نہیں وسعت اللہ خان صاحب وہ ہمارے پہرے پہ نہیں تھا بلکہ وہ غریب تو اپنے روزگار کا پہرہ دے رہا تھا وگرنہ جہاں کلیر کٹ انٹیلیجنس تھی کہ پولیس پر حملہ ہوگا، اس خطرے کا کون بے وقوف متحمل ہو سکتا ہے؟ وہ غریب اگر ڈیوٹی نہ دیتا تو شاید روزگار سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا جیسے ہمیں یہ کہہ کر واپس بلایا گیا تھا کہ اگر واپس نہ آئے تو روزگار نہیں ملے گا۔ روزگار کے تعاقب میں بوجھل قدموں سے واپس آئے تو موت نے پر ہنگام استقبال کیا۔ اگر میں بچ بھی جاتا تو ان پانچ سو سنتریوں میں سے ایک ہوتا جو حکمرانوں کی حفاظت پہ مامور ہیں۔ ہم تو پیدا ہی اہلِ زر کی نگہبانی کے لئے ہوئے ہیں۔

وسعت اللہ خان صاحب یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ ہمارے سانحے سے حکمرانوں کو مصروفیت ملی ہے۔ نہیں جناب انھیں مصروفیت نہیں ملی بلکہ مصروفیت سے تھوڑی فرصت ضرور ملی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کی مصروفیت، محلاتی سازشوں کی مصروفیت، اپنی سیاست اور پارٹی اپنے کسی ہونہار فرزند یا دختر کے حوالے کرنے کی مصروفیت، لوٹی ہوئی دولت کو چھپانے کی مصروفیت، سِرل المیڈا کی خبر سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے بچانے کی مصروفیت، سیاسی دھرنا لگانے اور اس سے بچنے کی مصروفیت، آئی ایم ایف کے پاس ملک کے مزید اثاثے گروی رکھوانے کی مصروفیت، اعلٰی عدلیہ میں پانامہ لیکس کے جواب در جواب داخل کرانے کی مصروفیت، جج صاحبان کی بنیادی انسانی حقوق کے معطل ہونے کے بعد آئین کی حفاظت کی مصروفیت۔ ہم جیسوں کی موت تو صاحبانِ اقتدار، قاضیانِ عدل اور مالکانِ ریاست کو تھوڑا سا توقف اور بیان بازی کی عیاشی کا موقع فراہم کرتی ہے۔

ہم نہ مریں تو میڈیا کیا بکے؟ ہماری لاشیں یا بچے کچھے اعضا، پھٹے پرانے جوتے، ہماری ماؤں کے بین، بہنوں کی آہ وزاریاں اور بوڑھے باپ کی آنکھوں سے رواں آنسو ہی تو ٹی وی چینلز کو زینت ہیں۔ ہم نہ مریں تو دفاعی تجزیہ کاروں کے روزگار کا کیا ہو، کالم نگاروں کے قلم رک جائیں، اینکرز کی زبان کے سوتے خشک ہو جائیں، وکلا کی ہڑتالیں جواز کھو بیٹھیں اور سب سے بڑھ کر دفاعی بجٹ کو مہمیز کہاں سے ملے؟ ان تمام حلقوں کے چمن کی آبیاری ہماری خون ہی سے تو ہوتی ہے۔

آپ نے لکھا اگر کوئی آنکھوں والا ہوتا تو اس کے لئے افغانستان، عراق اور شام کی عبرت بہت ہوتی مگر میں تو کہتا ہوں اگر کوئی اندھا بھی ہوتا تو اسے بلوچستان، فاٹا، سوات اور پشاور اور کراچی کی خانہ ویرانی بصیرت سے لبریز کر دیتی۔ اگر کوئی دردِ دل رکھتا تو اس کے حلق میں پٹھان باپ کا یہ نوحہ ترازو ہو جاتا کہ جب اس کی بیٹی روتے ہوئے اپنے آنچل میں جوان بھائی کا سر لاتی ہے تو باپ پوچھتا ہے کہ کیا ہوا تو وہ چیختے ہوئےاپنے آنچل سے بھائی کا کٹا ہوا سر دکھاتی ہے تو باپ بغیر کسی آہ و زاری کے اسے ڈانٹ کر کہتا ہے کہ رو کیوں رہی ہو اور جیب سے دس روپے نکال کر دیتا ہے کہ جاؤ اس سے غریب کے دس سر مل جائیں گے۔

وسعت اللہ خان صاحب آپ بھی سدا کے سادے ہیں کہ آپ نے حکمرانوں کی اخلاقی جرات پہ تنقید کی کہ وہ یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ یہ ملک ان کا ہے یا ہم بیس کروڑ درماندگان کا؟

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لیکن میں اتنا سادہ نہیں ہوں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اخلاقی جرات ہم میں نہیں ہے کہ ہم اس بات کا اقرار کر سکیں کہ یہ ملک، یہ ادارے سب کچھ ان ہی کا تو ہے۔ انھوں نے تو بارہا ببانگِ دہل بتایا کہ یہ ملک ان ہی کا ہے۔ ویگنوں کی چھتوں پہ رکھے ہمارے تابوتوں نے کیا چیخ چیخ کر اعلان نہیں کیا کہ یہ ملک اس پانچ ہزار اشرافیہ کا ہے کہ اگر ان کا کوئی مر جائے تو اسے ریاست پہ حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ میڈیا مہینوں نوحہ خوانی کرتا ہے، پارلیمان میں مشترکہ اجلاس طلب کیا جاتا ہے اور رضا ربانی جیسے جمہوریت پسند دکھ بھرے آنسو بہا کر کہتے ہیں کہ وہ خود کو مرنے والوں کا مجرم سمجھتا ہے۔ وزیرِ داخلہ NAP مرتب کرتے ہیں، وزیرِ خزانہ تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے سربراہان پسماندگان کے آنسو پونچھتے ہیں۔ ریاست وفاقی دارالحکومت کے تمام سکول ان کے نام سے موسوم کر دیتی ہے۔ عدلیہ ان کے دشمن کے تعاقب کے لئے بنیادی انسانی حقوق معطل کرنے میں معاون ہو جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر مزید وہ اخلاقی جرات کہاں سے لائیں اور ہمیں کیسے بتائیں کہ یہ ملک ان ہی کی ملکیت ہے۔ مجھ جیسے خاک افتادگان کو یا تو آئین کا کتابچہ تھما دیا جاتا ہے کہ یہ تمہارے تمام آئینی حقوق کی ضمانت ہے یا پھر اعتزاز احسن کی نظم سنائی جاتی ہے

ریاست ہو گی ماں کے جیسی

آئین کا وہ حصہ جو ہم سے متعلق ہے وہ تو روزِ اول سے معطل ہے۔ صرف وہ حصہ آپریٹو ہے جو اشرافیہ سے متعلق ہے۔ جہاں تک ریاست کے ماں ہونے کا تعلق ہے تو ہمیں غریبی نے اپنی سگی ماں کی ممتا سے بھی محروم رکھا۔ ریاست کی ممتا نہ دیکھی نہ سنی۔ جن کی ماں ہو گی ان ہی کو ممتا کا پیار دیتی ہو گی۔ میں ریاست سے ماں کا پیار تو نہیں مانگتا ہاں صرف یہ گزارش ہے کہ اگر میرے خون کی کوئی قیمت لگی اور صوبائی یا وفاقی حکومت نے میری جان کا عوضانہ مقرر کیا تو میرے ماں باپ کو کچہریوں اور دفتروں حاضریوں کی ذلت سے محفوظ رکھنا کہ ان کا بیٹا تو چلا گیا اس کے خون بہا کے حصول میں عزتِ نفس سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ تمام غم و اندوہ کے باوجود اس بات سے دل کو کچھ قرار ہے کہ میری موت پہ شاید میرے والدین کو کچھ رقم مل جائے گی۔ اگر یوں ہی زندگی کی گاڑی کھینچتا رہتا تو شاید سروس کے اختتام پہ کچھ پینشن مل جاتی تو چلو یوں مرگِ ناگہانی کی بدولت میرے والدین کو کچھ رقم وقت سے پہلے مل جائے۔

میں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا

ورنہ سفر حیات کا خاصا طویل تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments