کیا لاہور قلندرز کبھی جیت سکتے ہیں؟


پاکستان میں اس وقت ’پاکستان سپر لیگ‘ کا پانچواں ایڈیشن چل رہا ہے۔ اور اس بار پورا ایڈیشن پہلی بار پاکستان میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے ہونے والے چار ایڈیشنز متحدہ عرب امارات میں ہوئے ہیں۔ جن میں اسلام آ باد یونائیٹڈ دو جبکہ کوئٹہ گلیڈییٹرز اور پشاور زلمی ایک ایک بار ٹرافی اپنے نام کر چکے ہیں۔ اس بار بھی ٹرافی کے حصول کے لیے چھے ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔

پاکستان سپر لیگ کی ہر دلعزیز ٹیم لاہور قلندرز پہلے چار ایڈیشنز میں مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے ہر بار آخری نمبر پر آتی رہے ہے۔ لیکن لاہور قلندرز کے سپورٹرز نے ہمت اور دل نہیں چھوڑے اور میری طرح ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لاہور قلندرز کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ جبکہ اس بار بھی صورتحال پہلے سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ابھی تک تین میچز کھیلنے کے بعد کوئی میچ نہیں جیت سکے اور پوائنٹ ٹیبلز پر آخری نمبر پر ہیں۔

لاہور قلندرز کی گزشتہ چار ایڈیشنز سے مسلسل ناکامیوں کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن میری نظر میں جو سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر لاہور قلندرز پچھلے چار سال سے ایک جیسے ہی نتائج دے رہے ہیں۔ تو مینجمنٹ میں تبدیلیاں تو بنتی تھیں اس لیے میرے خیال میں سب بڑے قصور وار لاہور قلندرز کے مالک ہیں جو شاید اب اتنا ہار چکے ہیں کہ اب ان کا جیتنے کو دل ہی نہیں کرتا، مطلب اگر آپ کو جیتنے میں دلچسپی ہوتی تو ابھی تک مینجمنٹ اور کوچنگ سٹاف میں تبدیلیاں کر چکے ہوتے۔

ایک وجہ تو ٹیم کے مالک ہیں جبکہ دوسری وجہ ٹیم کی مینجمنٹ اور کوچنگ سٹاف ہے وہ اس طرح کہ اگر آپ کو ٹیم کے مالک پانچویں بار بھی موقع دے رہے ہیں۔ تو کیا آپ پچھلے چار سال سے سمجھ ہی نہیں سکے کہ ہمارے مسائل کہاں پر ہیں اور ہم کیوں ہارتے رہے ہیں ہمیں اس بار کیا تبدیلیاں کرنی چاہیے وغیرہ۔ ہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر کے نام سے منسوب ٹیم کو جتوا نہیں سکتے تو خود ہی عہدہ چھوڑ دیں۔

باقی کھلاڑی بھی بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں مگر میرے خیال سے کھلاڑیوں کو اس لیے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ کہ آخر ٹیم مینجمنٹ اور کوچنگ سٹاف میں کوئی تو خرابی ہو گی۔ کہ کرس گیل، میکولم، جیسن روئے، اے بی ڈویلیرز، اور کرس لین جیسے کھلاڑی بھی اس ٹیم میں آ کر اپنی کرگردگی نہیں دکھا پاتے۔ شاید مینجمنٹ کو کھلاڑیوں کو کھلانا نہیں آتا۔

اس بار کی ٹیم کی بات کر لیں تو ایسے لگتا ہے کوچنگ سٹاف نے بغیر کسی سوچ بچار کے ٹیم منتخب کر لی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی کوالٹی سپنر نہیں ڈالا اور نا ہی کوئی سمجھ بوجھ والا کھلاڑی مڈل آرڈر میں نظر آتا ہے۔ سلیکشن کے علاوہ سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ محمد حفیظ جیسے آل راونڈر کی موجودگی میں پاکستان کے سب سے بڑے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں ایک لوکل سے کھلاڑی کو کپتان بنا دیا ہے جس کا کسی نے پاکستان سپر لیگ سے پہلے نام تک نہیں سنا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ کو بھی اس طرف توجہ دینی ہو گی۔ کہ پہلے ہی صرف چھے ٹیمیں شرکت کر رہی ہوتی ہیں۔ اور لاہور قلندرز کے آخر میں آنے سے پانچ بچ جاتی ہیں جن کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ مطلب صرف پانچ میں سے چار نے آگے آنا ہوتا ہے تو ڈائریکٹ ہی سیمی فائنلز کھلا دیا کریں کیونکہ سب کو پتا ہوتا کہ لاہور تو آخر میں ہی ہے۔

لہذٰا پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ انتظامیہ کو چاہیے کہ اگر کوئی ٹیم مسلسل تین سال تک چھٹے یعنی آخری نمبر پر آئے۔ تو اس ٹیم کی بولی لگائی جائے اور پرانے ٹیم مالکان کو فارغ کیا جائے۔ تاکہ پاکستان سپر لیگ جو پاکستان کا سب سے بڑا کرکٹ کا برینڈ بن چکا ہے وہ ہر بار پہلے سے بہتر اور دلچسپ نظر آئے نا کے لاہور قلندرز کی کارکردگی کی طرح ہمیشہ ایک جیسا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments