عوام پر کم بوجھ ڈالنے کا اعلان حکومتی ناکامی کا اعتراف ہے


وزیر اعظم عمران خان نے سرکاری اداروں کی کارکردگی اور اصلاح کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی ادارے بدعنوان نظام کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ان کی اصلاح کے لئے مؤثر اقدامات کررہی ہے ۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں عام آدمی پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے گا۔

اس اجلاس میں متعدد سرکاری املاک اور اداروں کی فروخت کو جلد از جلد یقینی بنانے کے علاوہ وزارتوں کی اصلاح کے لئے غیر سرکاری ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ سارے ہتھکنڈے ماضی میں بھی اسی ’ناکامی‘ سے آزمائے جاتے رہے ہیں جو اب بھی ایسے فیصلوں کا مقدر بننے والی ہے۔ نہ جانے وزیر اعظم کو کیوں یہ یقین ہے کہ کثیر مشاہروں پر ماہرین کی فوج جمع کرنے سے وزارتیں کام کرنا شروع کردیں گی، نظام کی اصلاح ہوجائے گی اور لوگوں کی تکلیفوں میں کمی آنا شروع ہوجائے گی۔ دراصل جب بھی کوئی حکومت یا سیاسی لیڈر مبہم اور غیر واضح اہداف کا ذکر کرکے، لوگوں کو خوش کرنے کا اہتمام کرتا ہےتو اس کا ایک ہی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کسی بھی شعبہ میں واضح لائحہ عمل بنانے کی اہل نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے آج عام لوگوں کی تکلیفیں کم کرنے کی بات ضرور کی ہے لیکن عوام کے معاشی مسائل کو دور کرنے کے لئے کسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا۔

نظام کی خرابی، بدعنوانی ، سابقہ حکومتوں کے لالچ اور نااہلی کے تذکرے اب اس قدر فرسودہ ہوچکے ہیں کہ تحریک انصاف کے گرم جوش حامی بھی ان پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اگر عمران خان کا ووٹ بنک کسی حد تک موجود ہے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ان کے مدمقابل لیڈروں کے قول و فعل کا تضاد بھی عوام کے سامنے آچکا ہے۔ عمران خان کو کسی صاحب بصیرت لیڈر کے طور پر قبول نہیں کیا جارہا جو ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتا ہے بلکہ انہیں ’کم برائی‘ کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والے کسی لیڈر کے لئے یہ کوئی خوش آئیند صورت حال نہیں ہے۔

تحریک انصاف کا بنیادی ووٹر پارٹی کے دکھائے گئے خوابوں کا محل ٹوٹنے کے بعد اب اس امید پر خاموش ہے یا بدستور پارٹی اور اس کی قیادت کی حمایت کررہا ہے کہ شاید وقت کے ساتھ کچھ تبدیلی رونما ہوجائے۔ تاہم ابھی تک یہ تبدیلی نت نئے دعوؤں اور وعدوں کی صورت میں ہی سامنے آئی ہے۔ اب عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ عوام کو حکومت کے کارناموں سے آگاہ کرنے کی مہم چلائی جائے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ میڈیا میں اشتہاروں یا پروپیگنڈا کے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو باور کروانے کا اہتمام کیا جائے کہ ان کی تکلیفوں کا باعث حکومت نہیں ہے بلکہ نظام ہے۔ یہ حکومت تو اس نظام کو درست کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

جہاں تک تبدیلی اور اصلاحات کی صورت میں عام شہریوں کو کم سے کم متاثر کرنے کے دعوے کا تعلق ہے تو اس کےحقیقی معنی بھی ان الفاظ سے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ کے دوران ایک بھی ایسا اقدام سامنے نہیں آیا جس سے قومی خزانے کی آمدنی میں امیر طبقہ کا حصہ بڑھ سکے اور غریبوں پر اس کا بوجھ کم ہوسکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ معاشی یا انتظامی اقدامات سے عام لوگوں کو کم سے کم متاثر ہونا چاہئے تو اس کا مقصد صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ عوام پر بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ کو یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی جائے کہ عوام پر تو کم بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ حالانکہ جس نظام کے تحت عمران خان حکمرانی کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں ، اس میں عوام پر پڑنے والا وہی ’کم بوجھ‘ ہی دراصل ریاست کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔

حکومت ملک میں آمدنی کو کنٹرول راڈار میں لانے اور آمدنی کے مطابق ٹیکس وصول کرنے کے منصوبے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ جب کسی ملک میں نجی آمدنی پر ٹیکس عائد نہیں ہوسکے گا تو بالواسطہ محاصل کے ذریعے یہ بوجھ عام لوگوں کو منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہو یا بجلی و گیس کے ٹیرف میں، اس کا بوجھ ان لوگوں کو ہی قبول کرنا پڑتا ہے جن کی آمدنی تو اتنی نہیں ہوتی کہ وہ انکم ٹیکس دینے والوں میں شامل ہوجائیں لیکن انہیں اس کے باوجود قومی خزانہ بھرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ دلیل بھی ناقص ہے کہ بجلی کے کم یونٹ استعمال کرنے والوں کو سبسڈی کی صورت میں رعایت دی جارہی ہے اور صرف زیادہ بجلی یا گیس استعمال کرنے والے ہی زیادہ محصول ادا کرتے ہیں۔

سادہ سی بات ہے کہ جب بھی کسی امیر شخص کے کاروبار یا ذاتی اخراجات میں اضافہ ہوگا تو وہ اسے پورا کرنے کے لئے اپنی خدمات یا مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردے گا۔ اس طرح کسی بل کی ادائیگی خواہ کوئی ارب پتی ہی کررہا ہو لیکن یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ان وسائل کی فراہمی کے لئے ملک کے غریب لوگوں پر ہی بوجھ ڈالا گیا ہوگا۔ اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی جادو کی چھڑی نہ ماضی کی کسی حکومت کے ہاتھ میں تھی اور نہ ہی عمران خان کی حکومت کوئی ایسا اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے قومی اخراجات کا بوجھ مساوی طریقے سے شہریوں پر تقسیم ہوسکے۔

عوام پر کم بوجھ ڈالنے کا سلوگن تہ دار سیاسی و انتظامی بدنیتی سے بھرپور ہے۔ جب ملک میں کنٹرول اور تخمینہ کا کوئی متوازن نظام موجود نہیں ہوگا تو جس مد میں جو بھی اضافہ کیا جائے گا ، اسے عام باشندوں کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال میں عوام کو نہ صرف حکومت کی بے عملی اور کمزوری کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے بلکہ سرمایہ دار طبقے کی بدنیتی اور لالچ کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ چند ہفتے پہلے ملک میں اجناس کی اچانک قلت اور پھر ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کی صورت میں دیکھا جا چکا ہے۔ عمران خان تمام وعدوں کے باوجود ابھی تک اس کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کرسکے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم بنا کر اس کی رپورٹ پرعمل تو کجا، اسے عام کرنے سے بھی گریز کیا گیا۔ جب یہ معلومات سامنے آنے لگیں کہ اس بحران میں وزیر اعظم کے قریبی ساتھی ملوث تھے تو ان کی تردید کے سوا کوئی ایسا طریقہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ جس سے اصل حقیقت آشکار ہوسکتی۔

آسان سی بات ہے کہ اگر سرکاری گودام بھرے ہوئے تھے اور اجناس کے بحران کا کوئی جواز نہیں تھا تو اچانک گندم ، آٹے اور شکر کی قیمتوں میں کیوں اضافہ ہوگیا۔ پھر وزیر اعظم نے دو چار اجلاس منعقد کئے اور ’پکڑ لو، جانے نہ پائے‘ قسم کے دوچار پرجوش نعرے لگائے اور قیمتیں کچھ کم ہوگئیں۔ یعنی سو روپے کی چیز پہلے ڈیڑھ سو پر پہنچا دی گئی اور سرکاری پھرتیوں کے بعد اسے کم کرکے سوا سو روپے کردیا گیا۔ یوں عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کا اہتمام کیا گیا۔ کوئی یہ سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اس بحران سے عام آدمی کی قوت خرید کو بیس سے پچیس فیصد کم کردیا گیا۔ لیکن بحران اور اس کے حل سے حکومت بھی خوش ہے اور سیٹھ کی جبین پر بھی شکن نہیں آتی۔

حکومت نے پچاس فیصد اضافہ کو پچیس فیصد کروانے کا سہرا اپنے سر باندھ لیا اور سیٹھوں کی تجوریاں پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بھرنے لگیں اور آمدنی کا یہ ذریعہ مستقل ہوگیا۔ وزیر اعظم کابینہ کو ایک ماہ میں افراط زر کی شرح میں دو فیصد کمی کرنے کا کریڈٹ دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ اعتراف کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ جنوری میں قیمتوں میں اضافہ ساڑھے چودہ فیصد پر پہنچا کر اس میں دو فیصد کمی کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ فروری میں بتائی گئی ساڑھے بارہ فیصد افراط زر کی شرح بھی گزشتہ سال اسی ماہ میں قیمتوں میں اضافہ کی حدسے چھ فیصد زیادہ ہے۔

وزیر اعظم کی نیک نیتی پر شبہ کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی معاشی ناکامیوں کو بڑی کامیابی کے طور پر قبول کرلیا جائے۔ عمران خان سیاسی اقتدار پر سودے بازی نہیں کرنا چاہتے یعنی وہ کسی قیمت پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس کی وجہ سے کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو کہ ان کے سیاسی حلیف اورساتھی ان کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں یا کوئی ایسا بحران پیدا ہوجائے کہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود ان کے لئے وزیر اعظم رہنا مشکل ہوجائے۔ ایسی کوئی صورت سیاسی دباؤ کی غیرمعمولی کیفیت پیدا کرتی ہے اور کسی بھی حکومت کے لئے اس سے سلامت نکلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ملکی تاریخ میں اس کی تازہ ترین مثال 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک ہے جس کے نتیجے میں فوجی حکمران پرویز مشرف کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔

عمران خان ایسا کوئی رسک نہیں لیں گے۔ اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہوکر فیصلے کرنے اور ان پر عمل کروانے کی صلاحیت سے محروم کوئی بھی لیڈر اپنی سیاست کو تو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن عوام کو راحت دینے کا سبب نہیں بنتا۔ یہ کھاتہ دعوؤں، وعدوں اور کارکردگی کا پروپیگنڈا کرکے بھرا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments