عورت کے حقوق میڈیا ریٹنگ کی نذر


گزشتہ دنوں عورت مارچ کو لے کر نیو ٹی وی کے ایک شو میں خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کے مابین ہونے والی تلخ کلامی نے کن حدوں کو پار کیا وہ معاملہ سب پر عیاں ہے۔ میں بطور لکھاری اس بحث کا حصہ نہیں بننا چاہتا کہ کس کا نعرہ برحق ہے اور کون سچ کا علم بلند کیے کھڑا ہے جبکہ یہ دونوں شخصیات اپنی سوچ کے حامل لوگوں میں مقبول ہیں لیکن بطور مرد و عورت یہ ہمارے معاشرے کی حقیقی معنوں میں ترجمانی ہرگز نہیں کر رہے۔ میرا موضوع بحث الیکٹرانک میڈیا اور اس کی ریٹنگ کے بھینٹ چڑھتے وہ دیرینہ مسائل ہیں جن کو زیر بحث لاکر اتنا متنازع بنا دیا جاتا ہے کہ ان پر اظہار رائے کرنے سے ہر ذی شعور کتراتا ہے۔

اس موضوع کو پر اگر ایجنڈا سیٹنگ تھیوری اور اس کے بنیادی جزو فریمنگ اور پرائمنگ کا اطلاق کیا جائے تو باآسانی الیکٹرانک میڈیا کا کردار واضح ہوتا ہے۔ ایجنڈا سیٹنگ سے مراد نیوز میڈیا کی وہ صلاحیت ہے جو عوامی ایجنڈے کی ترجیحات پر اثرانداز ہوتی ہے اور نسبتاً غیر ترجیحی موضوعات کو عوامی ایجنڈا بنانے کے لئے کسی خاص موضوع کو پیش کرنے کا طریقہ کار فریمنگ کہلاتا ہے اور اسی خاص موضوع پر مسلسل رپورٹنگ یا مواد کی تشہیر پریمنگ کہلاتا ہے۔ جس کے باعث عوامی ایجنڈے میں حقیقی مسائل نظرانداز ہو جاتے ہیں۔

اس تھیوری کو مذکورہ موضوع کے ساتھ منسلک کیا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا، میڈیا اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے لو ریٹڈ شوز اس نوعیت کے انتہائی سنجیدہ موضوعات پر دو مخالف سوچ کے حامل شدت پسندوں کو مدعو کرکے ان کو لفظی گولہ باری کا خوب موقع فراہم کرتے ہیں جس کا نتیجہ پروگرام دیکھنے والے قارئین کے مابین ایک ناں ختم ہونے والی بحث کی شکل میں سامنے آتا ہے جو بسا اوقات سوشل میڈیا پر چھڑنے والی بحث کا موجب بھی بنتا ہے جو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح پر معاشرتی تقسیم میں بھی بدل جاتا ہے جو کسی نا کسی صورت تصادم کو بھی جنم دیتا ہے۔

عورت مارچ کے موضوع پر ہونے والے شو پر نظر دوڑائی جائے تو نا تو یہ کوئی عمومی حیثیت کا حامل موضوع ہے کہ جس میں اس طرح کے غیر سنجیدہ اور متنازع لوگوں کو دانشور گردانتے ہوئے اتنے وسیع موضوع کو 20 سے 40 منٹ کے دورانیے میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد حالات حاضرہ پر بحث کرتے وقت ریٹنگ کو برقرار رکھنا ہے۔

جبکہ ایسے موضوعات پر کیے جانے والے مباحثے کے میزبان سے لے کر مہمانوں کا وسیع مطالعہ و تحقیق درکار ہوتی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا پر مدعو کیے جانے والے پینلسٹ کے لئے عوامی سطح پر مقبول ہونا اور شتر بے مہار بولنا ہی معیار تصور کیا جاتا ہے اور اینکر پرسن کے لئے اچھی شکل و صورت ہونا ہی کافی ہے جس کے باعث مذکورہ ٹاک شو کی اینکر موضوع پر دسترس نا ہونے کے باعث دونوں مہمانوں کو روکنے میں ناکام رہیں۔

عورت مارچ سے چلنے والی بحث کا جائزہ لیں تو حقیقی مسائل میں اولین ترجیح خواتین کی قومی شناخت ہے، جس سے خواتین کو صرف اس لئے محروم رکھا جاتا ہے کہ کل کلاں جائیداد دینا پڑے گی یا شاید ان کا شناختی کارڈ اور تعلیم کی فراہمی آج بھی اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہے، اسی طرح دوسرا مسئلہ خواتین زندگی کے اہم فیصلے و مسائل میں ان کی مرضی کے خلاف اپنی ناک گھسیڑنا لازم تصور کیا جاتا ہے۔ تیسرا مسئلہ خواتین کو مردوں کے برابر کام کے مواقع اور ان کی مساوی اجرت ہے جبکہ چوتھا مسئلہ ان کو جنسی ہراسانی جیسے درپیش مسائل پر انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرنا ہے اور جبری شادی کے بعد طلاق یافتہ ہونے کو بدکرداری کی نشانی گردانتے ہوئے انہیں ظلم سہنے اور زندہ درگور کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

کیا اس طرح کے شوز کے میں ان مسائل پر کبھی بحث ہوئی، یہاں پر میڈیا صرف ان شدت پسندوں کو لڑواتا ہے اور اپنی ریٹنگ بڑھاتا ہے اور کسی معتدل پینل کی قسط وار بحث اور نتیجے پر پہنچنے کی بجائے ان شدت پسندوں کے سکوپ کو اٹھا کر آنے والے چند ماہ اپنے کئی ماہ کی روزی کھری کرتا ہے۔ نتیجتاً ایسے دانشور معاشرتی و قومی تشخص پر ایسی کاری ضرب لگاتے ہیں جو اس معاشرے کو دو مختلف سوچ کے حامیوں میں تقسیم کرتی ہے جہاں پر حقیقی مسائل قابل عمل حل کے انتظار میں انفرادی دلائل کی جنگی انا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا کو اس حوالے سے ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں انہی‌ معیاری مواد تو شاید زندہ رکھ سکے ورنہ ایسی حرکتیں اس شعبے کی موت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments