میرا جسم، میری مرضی


ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق دو ہزار پندرہ سے دو ہزار انیس کے دوران میں پاکستان میں قریبا پانچ ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، پانچ ہزار کے قریب خواتین کو ریپ کیا گیا، ایک ہزار خواتین کے ساتھ گھروں میں مار پیٹ کی گئی اور دو سو بہتر خواتین کے جسم پر تیزاب پھینکا گیا۔ یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہو گئی ہے۔ یہ وہ مظلوم خواتین ہیں جن کی خبریں اخبارات میں لگ گئی ہیں یا پھر ان کی رسائی تھانوں تک ہو گئی ہے۔

ظلم کا شکار گمنام خواتین کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ ان خواتین کے جسموں کے ساتھ جب چیر پھاڑ کی گئی ہو گئی تو انہوں نے سوچا ضرور ہو گا کہ ”میرا جسم، میری مرضی“ ہونی چاہیے۔ لیکن یہ سلوگن نہ تیزاب پھینکنے والوں نے سنا، نہ ریپ کرنے والوں نے سمجھا، نہ گھروں میں مار پیٹ کرنے والے مرد اس راز کو پاسکے۔

ظلم کرنے والوں کا نعرہ یہی رہا کہ اے عورت جسم تو تیرا ہے لیکن اس پر تیری مرضی کیسے چل سکتی ہے؟ اس پر تو ہماری غلیظ نظروں کا حق ہے۔ اس پر تو ہوسناک نگاہوں کو حق ہے، اس پر تو مارنے والے کا حق ہے۔ اس پر تو تیزاب پھینک کرساری عمر کے لئے نشان عبرت بنا دینے والوں کا حق ہے۔ تو کون ہوتی ہے اپنا حق مانگنے والی؟ تو کون ہوتی ہے اپنے جسم کی حفاظت کرنے والی؟ تو کون ہوتی ہے اپنی مرضی کرنے والی؟ یہاں مرضی کا اختیار صرف ظلم کرنے والوں کو ہے۔ یہاں مرضی کا اختیار صرف زندہ جلا دینے والوں کو ہے۔ یہاں مرضی کا اختیار صرف لوٹ لینے والوں کو ہے۔ لٹنے والے کیسے اپنی مرضی کر سکتے ہیں؟

آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کے مطالبات آپ نے پڑھے ہیں؟ ان مطالبات میں نہ تو عورتیں بے حیائی کی اجازت مانگ رہی ہیں نہ جسم فروشی کا حق طلب کر رہی ہیں، نہ لباس سے آزاد ہونا چاہتی ہیں نہ کئی کئی مردوں کے ساتھ سونا چاہتی ہیں۔ نہ بے شرمی کا تقاضا کر رہی ہیں نہ عریانی کو شعار بنا رہی ہیں۔ ان مطالبات کو غور سے پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں کہہ رہیں کہ ہماری عزت کرو۔ ان کے تمام مطالبات کا واحد مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ہماری بے عزتی کم کرو۔ ہماری بے حرمتی کم کرو۔ ہمارے چہروں پر کم تیزاب پھینکو، ہمیں غیرت کے نام پر قتل کم کرو۔ ہمیں برابری کا حق بے شک مت دو مگر ہم سے زندہ رہنے، کام کاج کرنے اور سانس لینے کا حق مت چھین لو۔

آپ کو بھلے ماروی سرمد سے اختلاف ہو۔ آپ بے شک ان کے نظریات سے اتفاق نہ کرتے ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر آپ نے ان سے اختلاف کرنا ہے تو منطقی سطح پر کرنا ہے۔ دلیل سے بات کرنی ہے۔ اگر آپ کسی ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر کسی عورت کے جسم میں عیب نکال کر ٹھٹھے لگائیں گے، اپنے سینے پر کسی عورت پر تھوک نہ پھینکنے کا تمغہ سجائیں گے، تو آپ انسان نہیں جانور کہلائیں گے۔

مجھے اس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ اگر آپ اس ڈرامہ نگار کی سوچ سے اتفاق کرتے ہیں جو عورت کو دو ٹکے کا ثابت کرنے پرتلا ہوا ہے۔ آپ کو اپنی پسند نا پسند کا حق ہے۔ بس اسی بات کو سمجھ لیجیے کہ معاشرے میں توازن کے لئے سب کی بات کو احترام دینا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنے لئے کون سا لائحہ عمل چنتے ہیں۔ کس نظریے پر چلتے ہیں۔ کون سا رستہ اختیار کرتے ہیں اور یقین مانیے اس سماج کی عورتیں بھی بس اسی بات کا تقاضا کر رہی ہیں کہ ہمیں بھی اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ہمیں بھی انسان سمجھنا چاہیے۔

عورتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہم نے اجتماعی طور پر اس حد تک قبول کر لیا ہے کہ ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ آپ اپنے ذہن میں کسی بھی غلیظ سے غلیظ گالی کو تصور میں لائیں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہمارے معاشرے میں دی جانی والی سب گالیوں کا مقصد کسی نہ کسی طرح عورت کی تضحیک کرنا اور تمسخر اڑانا ہے۔ اسی طرح لطیفوں اور کثیفوں کی طرف دھیان کریں تو سب کا منبع کسی نہ کسی طرح عورت ہی ہے۔ شستہ محفلوں تک میں مذاق بیوی، میک اپ، عورتوں کی شاپنگ اور ساس بہو کے جھگڑے سے آگے نہیں نکلتا۔

جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم تو اپنی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی بہت عزت کرتے ہیں ان سے درخواست یہ ہے کہ احترام کے اس رشتے میں بیوی کا رشتہ بھی شامل کر لیں۔ اس کا بھی احترام کریں۔

بہت سے لوگوں کو یہ ادراک نہیں ہے کہ اس معاشرے میں سب لوگ ماں، بیٹی اور بہن کا احترام نہیں کرتے۔ کتنے بد بخت بچے ہیں جو اپنی ماؤں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔ کتنے بہنوں کا ذاتی انا کی خاطر قتل کرنا ثواب سمجھتے ہیں۔ کتنے اب بھی بیٹیوں کی پیدائش پر بیویوں کو طلاق دیتے ہیں۔ عورت کے معاملے میں ہمارا معاشرہ غاروں کے معاشرے کے مقابلے میں زیادہ ترقی نہیں کر سکا۔

میرے والد کی بنیادی پہچان مزاحیہ شاعر کی ہے لیکن ان کی ایک نظم ”امبڑی“ ہے۔ جس کو مشاعرے میں سناتے آج بھی وہ اشک بار ہو جاتے ہیں اور سامعین بھی دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔ پنجابی کی یہ نظم ایک سچا واقعہ ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میرے والد ڈیرہ غازی خان میں ایک سکول میں پڑھاتے تھے۔ واقعہ بس اتنا ہے کہ ایک طالبعلم نے اپنی ماں کو مار مار ”مدھانی“ توڑ دی۔ وہ زخمی ماں اپنے بیٹے کے دوست کے گھر بیٹے کا ناشتہ لے کر پہنچتی ہے۔ اس وقت اس کو کو نہ اپنے زخموں کی پرواہ ہوتی ہے نہ ہاتھوں پر پڑے نیل کی فکر ہوتی ہے۔ بوڑھی ماں کی واحد فکر یہ ہوتی ہے کہ میرا بیٹا جس نے آج مجھے مار مار کر زخمی کردیا ہے آج پھر مجھے سے روٹھ کر ناشتہ کیے بغیر چلا گیا ہے۔ اس کو تو بہت بھوک لگ رہی ہو گی۔ نظم میں وہ دکھیاری ماں بتاتی ہے کہ اس نے خود اپنے لہو ہاتھوں سے اس بچے کے لئے ناشتہ بنایا ہے۔

یہ نظم اگر آپ نے پوری سننی ہے تو میرے والد کے یو ٹیوب چینل ”کلیات انور مسعود“ پر سن سکتے ہیں۔ بس یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ ”میرا جسم۔ میری مرضی“ اس ماں غمزدہ کا بھی نعرہ ہے۔ اس مجروح ماں کی بھی درخواست ہے۔ اس لہولہان ماں کی بھی التماس ہے۔ اس بے چاری ماں کی بھی پکار ہے۔
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments