مستقبل کے آمر کا قوم سے خطاب


میرے عزیز ہم وطنو!

وقفے کے بعد مجھے آپ سے ایک دفعہ پھر مخاطب ہونے کا موقع ملا ہے۔ امید ہے آپ خریت سے نہیں ہیں تب ہی تو میں یہاں ہوں ورنہ تو مجھے بھی پنشن لے کر گھر ہو نا تھا۔ میری غیر موجودگی میں آپ نے باغ جمہور کے پھل تو مزے سے کھائے ہونگے جو دیکھنے میں انتہائی خوشنما لگتے ہیں لیکن ذائقہ اتنا لذیذ نہیں کم از کم میرے لئے۔ جمہور کی بدمزگی سے آپ کے منہ کے ذائقہ کا بدلنے کے لئے ایک دفعہ پھر حاضر خدمت ہے ہمارا دس سالہ پروگرام ”وسیع تر قومی مفاد میں“۔ اس بار اپنے پروگرام کو ہم نے لاءشل مار کہا ہے جس کی تشریح وقت کے ساتھ آپ کو سمجھادی دیجائے گی۔ فی الحال بس اتنا ہی سمجھ لیں کہ آسان باش اور آرام باش کا وقت ختم اب کوئیک مارچ شروع ہو چکا لفٹ رائٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

مجھے پرانی تقریریں دہرانے کا شوق نہیں نہ اتنا وقت ہے بس اتنا یاد رکھیں وسیع ترقومی مفاد کی گاڑی ابھی تک تاریخ کے اسی نازک موڑ میں ہی پھنسی ہوئی ہے جس میں 1958 میں تھی ۔ جو کوششیں اس کے بعد 1977 میں اسلام کے گیئر سے اور 1999 مین روشن خیالی کے گیئر میں ڈال کر نکالنے کی ہوئیں وہ بھی اس کے بعد آنے والی جمہوریت نام کی پٹڑی کے اکھڑنے کی وجہ سے بارآور نہ ہو سکیں۔ اس بار قومی مفاد کی گاڑی یہاں سے سی پیک والے گیئر سے نکالی جائے گی جس کے لئے انجنئیرز اور سازو سامان ہمارے ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی والے عظیم ہمسائے عوامی جمہوریہ چین سے پہلے ہی آچکا ہے۔

اس بار بھی مسلم لیگ نام کی بیوہ کے دوپٹے کا ایک اور ٹکڑا پھر کام آئے گا جس کو ہم اے قائد اعظم تیرا احسان ہے کے نغموں اور ترانوں کے ساتھ نئی شیروانیوں اور اچکنوں کی سلامیاں پیش کریں گے۔ چونکہ گجراتی چوہدریوں کی باتیں ہمیں ہی مشکل سے سمجھ آنے لگی ہیں تو ہمارے چینی دوستوں کو کیسے سمجھ آئیں گی لہٰذا ہم نے اس بار چکری سے چوہدریوں کی نئی کھیپ کا بھی بندوبست کیا ہے۔ آپ فکر مند نہ ہوں یہ بھی خاندانی طور پر آزمودہ مال ہے اگلے پانچ سال کی گارنٹی کے ساتھ ۔

اس بار آئین نام کی چڑیا کو پھڑپھڑانے کی پوری آزادی ہوگی بس زیادہ چوں چوں نہ کرے ورنہ پر کاٹ کر معطلی نام کے پنجرے میں بند کر دیا جائے گا۔ اعلیٰ عدالت نام کے اصطبل میں باندھے گھوڑوں کی باگیں ہی بدل دی جائیں گی اور جو گھوڑا باگ بدلنے سے انکاری ہوگا وہ نیا گھوڑے کے آنے تک اپنے گھر میں ہی رہے گا۔ چونکہ قومی مفاد کی گاڑی اس وقت نازک حالت میں ہے جس کی وجہ سےانسانی حقوق نام کے تمام شوخیاں ختم کی گئی ہیں اس لئے زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیں ہیں ۔

عزیز ہم وطنو!

ملک میں کرپشن کی گندگی میں لتھڑے جمہوریوں کی دھلائی احتساب کی ایک نئی مشین میں ہوگی۔ اس دھلائی کے لئے سلطانی گواہوں کے ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور معافی کے صابن کی کی ڈلیوری جلدی متوقع ہے جس کے بعد اگلے پانچ سالوں تک احتساب سے دھلے جمہورے چار سو نظر آئیں گے ۔ احتساب کی یہ واشنگ مشین بہت جلد اپنا کام شروع کرنے والی ہے۔

حسب روایت حقیقی جمہوریت کے لئے اختیارات کو چاس بار بھی پاتال کی گہرائی تک پہنچا نے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے جہاں سے حقیقی قیادت ابھرے گی جو ملک کو ستاروں سے آگے کی جہاں تک لے کر جائے گی ۔ جب تک نئی سیماب صفت قیادت نہیں آتی آپ ایک ریفرنڈمی جمہوریت پر گزارا کریں جس میں آپ کو مجھ دبنگ کو ہی ووٹ دینے کا موقع ملے گا۔ چونکہ ریفرینڈم ایک ایسا نسخہ ہے جس میں اعلیٰ و ارفع قیادت کی جیت ہی یقنی ہوتی ہے اس لئے اسی ضیائی تعویذ کو پھر کتابوں کے پرانی صندوق سے ڈھونڈ نکالا گیا ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو !

اب ذرا بات بین الاقوامی تعلقات اور دوسرے ممالک سے روابط پر ہماری مستقبل کی پالیسی پر ہو جائے۔ ہم ابھی ابھی چینی ڈرم میں ڈوب کر نکلے ہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں کی گزشہ ستر سالوں سے ہمارے سروں پر سوار رہنے والی انکل سام کی بلی کدھر ہے ذرا سامنے آئے تو دیکھیں۔ ہم اس بلی کو بتائے دیتے ہیں کہ اس کا قرضہ ہم چوگنے سود سمیت واپس کر دیں گے بس ذرا ہماری سی پیک کی فصل کو اترنے دو۔ جب تک ہماری فصل نہیں اترتی ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم مشرق وسطیٰ میں محنت مزدوری کرکے اپنا خرچہ چلائیں گے۔

مشرقی سمت کے ہمسایوں کے ساتھ جو تعلقات جمہوریوں نے خراب کر دئیے تھے اب بالکل صحیح ہو جائیں گے ۔ پچھلی بار تاج محل کی ادھوری رہنے والے سیر اب پوری کی جائے گی اور موہالی میں کرکٹ کی سفارت بھی جاری رہے گی۔ ہمارے پیارے دوست شتروگھن سہنا کی سوہنی بیٹی بھی مہمان بنے گی لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ عوام کو دو نمبر سی ڈیز کے علاوہ بھی تفریح میسر ہوگی۔

میرے عزیز ہم وطنو !

ملک میں ابھی تک آزاد گھومنے والے بلوں ، ہاتھیوں ، شیروں اور چیتوں کے لئے اٹک اور لاہور کے تاریخی قلعوں کے پر فضا مقامات پر حسب روایت پنجروں کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔ جب تک وہ خود اپنی ذات بدل کر اعلیٰ نسل کے وفادار نہیں بن جاتے، واپس نہیں لائے جائیں گے۔ ہاں اگر اردغان صاحب یا پرانے والے شیخ جی کی تجوری پھرسے کھل جائے تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔
میڈیا چینلز کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کی سانسیں بھی ہوا کے دوش اشتہارات کی آکسیجن سے ہی چلتی ہیں جو ہم نے حب الوطنی کے سلینڈر میں محفوظ کر رکھی ہے۔ اس آکسیجن کو مہیا کرنے کے لئے ڈاکٹروں کی ایک پوری جماعت بطور اینگر پرسن دستیاب ہے جس کی خدمات پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اگلے سال جمہوریوں کے منہ پر کالک ملتے ڈراموں ، کالموں، اداریوں اور مضامین کو قومی ایوارڈ بھی دیئے جایئنگے۔

اللہ اور امریکہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments