فکر اقبال میں وجود زن اور حقو ق نسواں کی جدید تحریکیں


دور حاضر میں تصور نسواں کی تحریکوں کا پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں ظہور خاندانی نظام کو بر ی طر ح مضمحل کر رہا ہے۔ خاندانی نظام جس تیزی سے انفرادیت پسند ہو تا جارہا ہے اس کے نتائج پاکستان جیسے روایتی معاشرے کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔ حقو ق نسواں کی تنظیموں کا پہلا مطالبہ یہی ہے کہ ہم کسی لحاظ سے مر د کی بالادستی خاندان اور معاشرے میں قبول نہیں کرتے ہیں۔ اس عمل کو تقویت پہنچانے کے لیے سول سو سائٹی ان کے ہم راہ ہو تی ہے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حقو ق نسواں کی تحریک بنیا دی طور پر سول سو سائٹی کا ایک مستقبل باب ہے۔

سول سو سائٹی کا بنیا دی منشور یہ ہے کہ وہ تمام مذہبی، روا یتی، تا ریخی، خاندانی، نسلی اور گروہی حیثیوں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور ایک ایسی اجتماعیت تشکیل دینا چاہتے ہیں جو صرف مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یہ سوسائٹی فرد کے مفادات کو اہمیت دیتی ہے اور خاندانی نظام کے کسی جزو کو تسلیم کرنے کی روادار نہیں ہے۔ ان کایہ کہنا ہے کہ فرد رشتوں کی زنجیر سے کٹ کر انفرادیت پسند ی کے فلسفے کے تحت ایک آزاداور تنہا وجود ہے لیکن فطری طور پر ایسا ممکن نہیں، کیوں کہ انسان اجتماعیت کے بغیر اپنی شناخت نہیں رکھتا۔ لہذا حقیقی اجتماعی حیثیت کے ختم ہونے کے بعد اس کا متبادل ہو نا ضروری ہے۔ اس متبادل کو این جی او ’Sکی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ مصنو عی اجتماعیت جیسے ڈاکٹر، اساتذہ، طلبہ، خواتین اور مزدور وغیرہ کی لاکھوں انجمنوں کی صورت میں روایتی ڈھانچوں کے انہدام کا سبب بن رہی ہیں۔

یہ این جی او ’Sہر فرد کے Statusکے مطابق اس کی شناخت بن جاتی ہیں۔ وزیٹنگ کارڈبھی اسی شناخت کی علامت ہے۔ سول سو سائٹی میں جب لوگ ملتے ہیں تو پہلا سوال یہی ہو تا ہے کہ آپ کیا کر تے ہیں یعنی آپ کے کام اور آپ کے پیشے سے سماجی حیثیت کا تعین ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خواتین جو گھروں میں رہتی ہیں انھوں نے اپنی سماجی حیثیت کو اس معاشرے میں House Wifeکی صورت میں پیش کر نا بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور ان گھر یلو خواتین کی دیکھ بھال کے لیے بھی کئی انجمنیں، تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔

سول سو سائٹی کو چلانے والے دانش وروں کا کہنا یہ ہے کہ معاشرے کے اقداری نظام کو تو ڑنے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ آپ خاندان کی مرکزی حیثیت کو ختم کر دیں اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم رشتوں کو ناپنے اور جانچنے کا پیمانہ سر مایہ دارانہ رخ کی جانب مو ڑ دیں۔ لہذ ا وہ خاندان جہاں پر سول سو سائٹی کی اس نظر یاتی فکر کو تسلیم کر لیا گیا ہے اس کے بو ڑھے اور جوان دونوں ایک گھر میں اجنبیت محسوس کر تے ہیں اور اس کی مر کزی حیثیت جس خاتون کو ایک ماں کی حیثیت سے اس گھر میں حاصل ہوتی ہے وہ بھی انفرادیت پسند ی کے بلا میں گھِر کر اپنے لیے باہر کی دنیا میں جائے پناہ تلا ش کر رہی ہے۔ ان انجمنوں اور تنظیموں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد بوڑھوں اورجوانوں کے مابین فاصلہ بڑ ہادیا ہے جو کسی بھی روایتی معاشرے کے لیے کسی مقتل گاہ سے کم نہیں۔

اقبال اور تصور نسواں پر آنے سے قبل ان سطور کی زحمت آپ صاحبان کو اس لیے بھی دی تاکہ آپ ان انجمنوں کے حقیقی کردار کا تعارف ضرور حاصل کر لیں۔ تاکہ اقبال نے جس تصور نسواں کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے اس کی مزاحمت کی نظریاتی جہتیں آپ کے سامنے آسکیں۔

اقبال کے نزدیک عورت کی آزادی، مساوات اور حقو ق نسواں کیا معنی رکھتے ہیں اور عہد حاضر میں اقبال عورت کی اجتماعی حیثیت کو کس صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے کلام اور ان کی تحریروں کا بہ غور مطا لعہ کیا جائے تاکہ اس کا ئنات کے ایک ایسے لازم جزو کی جو کئی معنوں میں حاصل کا ئنات بھی ہے پر دہ کشائی کی جاسکے۔ اقبال عظمت نسواں کے قائل تھے انھوں 1929 ء میں انجمن خواتین اسلام مدراس کے ایک استقبالیے میں خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ”کسی قوم کی بہترین روایات کا تحفط بہت حد تک ایک عورت ہی کر سکتی ہے۔ “ ان کا یہ کہنا تھا کہ اسلام میں مردو زن میں جان ومال اور عزت و اعتبار کی حیثیت سے کو ئی فرق نہیں ہے۔ تاہم کچھ فرائض اور مناصب کی ادائی کے لحاظ سے مرد کو عورت کے مقابلے میں اسلام نے قوام کی حیثیت عطا کی ہے۔

خواتین کے ایک اجتماع میں انھوں نے کہا کہ مسلمان عورتوں کے لیے بہترین اسوہ حضرت فاطمۃ الزہررضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی میں ہے۔ ایک اچھے عورت کے لیے کامل اسوہ انھیں کی زندگی میں پوشیدہ ہے جو عورت مرد کی قوامیت کی منکر ہے اقبال نے اس کی مذمت کی ہے۔ اقبال کے ناپسندیدہ کرداروں میں ایک کردار مریخ کی ایک عورت کا ہے جسے ابلیس نے فرنگ سے اغوا کیا اور دعوٰی نبوت کا سبق پڑھا کر مر یخ پر پہنچادیا۔ وہ اس سیارے میں آزاد ئی نسواں کی علم بردار بن کر مردوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہا ر کرتی ہے اور عورتوں کو مر دوں کی قوامیت کے خلاف بھڑکا تی ہے۔ ان کی رہبری میں چلنے سے منع کر تی ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ:

میں ہزراروں عمارتوں اور مختلف علاقوں سے گزر کر ایک وسیع میدان میں پہنچا جو اس شہر کے کنارے واقع تھا۔ میدان عورتوں اور مردوں سے بھرا ہو ا تھا اوران کے مابین ایک اونچی قد والی عورت کھڑی تھی اس کا چہرہ روشن تھا مگر روح کی حقیقی لذت سے محروم تھا۔ اس کے حرف بے جان اور اس کی آنکھیں دل بری کے ساز سے محروم تھیں۔ وہ عشق کے ان رموز وآداب سے محروم تھی جو جوانی کے جوش وجذبے سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ ایک کبوتر کی مانند تھی جسے شاہینوں نے رد کر دیا تھا۔

لوگوں نے اقبال کو بتا یا کہ یہ ایک نہا یت سادہ عورت تھی لیکن ابلیس نے اسے پیغمبرانہ طور طریقے سکھا دیے ہیں۔ اب یہ عورت مرد کی قوامیت پر سوالات اٹھاتی ہے اور بدن کے راز کھو ل کر بیا ن کر تی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہی تھی کہ ”اے عورتو! تم کب تک محض ایک محبوبہ کی طرح زندگی گزاروگی؟ مرد سے دوستی نے تمھاری زندگی کو الم سے دوچار کر دیا ہے۔ اس سے ملنا اور اس کا شر یک حیات بننا تمھارے لیے موت ہے اس سے دور رہنا تمھیں خوشی دیتا ہے۔ مرد چال باز ہے اس سے دور رہو اور اس کے زہر سے خود کوآلودہ مت کر و۔ ایک عورت جب تخلیق کا درد سہتی ہے تو اس کا چہرہ زرد ہو جاتا ہے تم اس درد سے نجات حاصل کرو اور جسم کے ایک بے معنی تعلق سے خود کو آزاد کر دو“۔

اقبال کہتے ہیں کہ رومی نے جب یہ تقریر سنی تو مجھ سے کہا کہ لا دین تہذیب کا نتیجہ دیکھ لو۔ عشق ہی ابدی آئینِ زندگی ہے تہذیب کی بنیا د مذہب ہے اور مذہب کی بنیا د عشق ہے، عشق بہ ظاہر زندگی کو سوزو تڑپ سے ہم کنار کرتا ہے مگر یہ خدا کے نور سے دل کو منور کر دیتا ہے۔ عشق کی اسی آگ سے تخلیق کا سامان بہم ہو تا ہے اور نئی شا خیں پھلتی پھولتی ہیں اسی لیے زندگی کی اس راہ میں ایک عورت کا حامل عشق رہ کر خود کو پابند رکھنا، فطر تِ کا ئنات ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزاد ئی نسواں کے نعروں میں مسحور ہو تی ہو ئی عورتیں خود کو ایک ایسی راہ کامسافر بنا رہی ہیں جو انھیں اندھے کنوئیں میں گرادے گی۔

اقبال وہ پہلے دانش ور تھے جنھوں نے عورتوں اور مردوں کی علاحدہ یو نی ورسٹی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ارمغانِ حجاز میں ”دختران ملت“ میں انھوں نے مثالی عورت کی تشریح و توضیح یو ں کی ہے۔

جہاں راہ محکمی از امہات است

نہادِ شاں امینِ ممکنات است

اگر ایں نکتہ را قومے نداند

نظام کاروباش بے ثبات است

دنیا ماؤں کے وجود سے مستحکم ہو تی ہے ان کا وجود ہی آنے والی نسلوں کے امکانات کا امین ہو تا ہے، جو قوم اس حقیقت کو سمجھ نہ پائے اس کے نظام زندگی کا چلنا محال ہے۔

پھر انھوں نے ایک مقام پر کہا کہ مد ر سہ و مکتب کسی وجود کے اند ر روشنی پیدا نہیں کرتے بلکہ ماں کی با طن نگا ہیں ہی نو جوانوں کو ہو ش مند جنوں سے ہم کنار کر تی ہیں

مرا داد ایں خرد پرور جنونے

نگاہِ مادرِ پاک اندرونے

ز مکتب چشم و دل نتواں گر فتن

کہ مکتب نیست جز سحر و فسونے

نیک سیرت ماں کی نگاہِ پاک نے مجھے جنوں عطا کیا ہے۔ عہد حاضر کے مدرسوں سے حق آشنا نگاہ دل کی مراد حاصل نہیں کرسکتا کیوں کہ مدرسہ صرف سحرو فسوں کے سوا آپ کو کچھ نہیں دیتا۔

جب کہ اقبال کے اردو کلام میں ”عورت“ کے عنوان سے جو نظم موجود ہے اس میں انھوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جب عورت خود کو لذت تخلیق سے ہم کنار کرتی ہے تو اسرار حیات کے معنی وا ہو تے ہیں اور اسے عمل سے بو دو نبود (ہو نے اور نہ ہو نے ) کا معرکہ بر پا ہو تا ہے۔

جو ہر مرد عیاں ہو تا ہے بے منت غیر

غیر کے ہا تھ میں ہے جو ہر عورت کی نمود!

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی شوق

آتشیں لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

کھلتے جا تے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معر کۂ بودو نبود

میں بھی مظلو میِ نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشود

مسلم خواتین کے لیے اقبال نے تاریخ اسلام سے ایک خاتون شر ف النسا بیگم کی مثال پیش کی ہے جو مغلیہ دور میں پنجاب کے صوبے دارعبد الصمد خاں کی بیٹی تھیں۔ اقبال ”جاوید نامہ“ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

آسمانوں کی سیر کے دوران جنت الفردوس میں قصر ِشر ف النسا سے متعارف ہوا میں دیکھتا ہوں لال موتی سے گھرا ہوا ایک گھر ہے۔ جو سورج کی کرنوں سے اپنا خراج لیتا ہے میں نے رومی سے یہ سوال پوچھا کہ یہ قصر کس کا ہے۔ تو یوں رومی کی زبان میں اس عورت سے متعارف ہوا انھوں نے بتایا کہ یہ شرف النسا ٹھکا نہ ہے جس کے بام کے پر ندے بھی فر شتوں کے ہم نوا ہیں یہ ہمارے بحر کا ایسا مو تی ہے جو لاہور کی خاک سے اٹھی ہے :

تاز قرآں پاک می سوزد وجود

از تلاوت یک نفس فارغ نبود

در کمر تیغِ دو رو قر آں بد ست

تن بدن ہو ش وحواس اللہ مست

یہ پاک باز عورت قر آن کی تلاوت سے لمحہ بھر غافل نہ ہوتی تھی تاکہ اس کا وجود اس سے منور ہو جائے۔ اس کی کمر پر تیز دھار تلوار بند ہی ہو تی تاکہ اس کابدن ہو ش وحواس اور ذاتِ باری تعالیٰ میں مگن رہے۔

جب شر ف النسا کا آخری وقت آپہنچا تو اس نے اپنی ماں سے کہا کہ:

گفت اگر از راز من داری خبر

سوے ایں شمشیر و ایں قرآں نگر

ایں دو قوت حافظ یک دیگر اند

کائنات زندگی را محو اند!

اندریں عالم کہ میر دہر نفس

دخترت را ایں دو محرم بو دو بس

وقت رخصت باتو دارم ایں سخن

تیغ وقر آن را جد از من مسکن

دل باک حرفے کہ می گو یم بنہ

قبر من بے گنبد و قندیل بہ

مو منا را تیغ با قرآں بس است

تر بت مارا ہمیں ساماں بس است

وہ کہتی ہے کہ کہ اے ماں اگر تو مجھے جا نتی ہے توقرآن اور تلوار کو دیکھ۔ یہ دونوں قو تیں ایک دوسرے کی حفاظت کرتی ہیں اور زندگی کی کائنات کا محور ہیں اس دنیا میں ہر کسی کو فنا ہونا ہے اور تیری بیٹی کہ بس یہی دو محرم ہیں میں تجھ سے یہ درخواست کر تی ہوں کہ مجھ کو ان دو چیزوں سے جدا مت کرنا۔ میری بات تو جہ سے سنو میری قبر کو عالی شان گنبد اور شمعوں سے آراستہ مت کرنا اس کے بجائے قرآن اور تلوار اس پر مزین کر دینا اس لیے کہ مومنوں کا سر مایہ یہی ہے اور یہی سازو سامان مجھے درکا رہے۔

حقو ق نسواں کے ذیل میں اقبال نے عورتوں کی شادی، طلاق اور وراثت سے متعلق بڑی بحث کی ہے۔ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو دیے ہیں ان کے نہ ملنے پر صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ عورتوں کو حقوق نہ ملنے کی وجہ خود عورتیں ہیں۔ انھوں نے اپنے وجود کو ایسے نعروں میں گم کرلیا ہے جو شریعت کو اپنا مد مقابل سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہترین حقوق جو اس کی زندگی کو بہت حد تک انحصاری عطا کر تا ہے اس سے کھو گیا ہے۔

اقبال نے مرد اور عورت نے ان تصورات کو جس طرح ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس سے یہ سوال نہایت اہمیت اختیا ر کر جاتا ہے کہ ہم حقو ق نسواں کی ان تنظیموں کی ان تنظیموں کی اس بنیادی مطالبات رد کیے بغیر ان کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتے جو حقیقتاً مرد کی قوامیت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتیں۔ خصو صاًپاکستان میں تحریک نسواں کے علم برداروں کے جا رحانہ رویوں سے ہمارے ارباب اختیار کافی ڈرے اور سہمے ہو ئے دکھا ئی دیتے ہیں۔ ہم میں اتنی جر أت بھی نہیں ہم یہ کہہ سکیں کہ تحریک نسواں کے علم برداروں کا اسلام کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اپنی متعین کر دہ اصولوں پر ہی اپنی زندگی کی تہذیبی بنیادیں استوار کر یں گے۔

یہ تنظیمیں عورتوں کی مظلومیت کو دور نہیں کر نا چاہتی ہیں بلکہ اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے عورت کو پہلا اور واحد سبق یہی پڑھاناچاہتی ہیں کہ تم عورتیں مرد کی قوامیت سے باہر نکل آؤ اس کے بعد تمھیں ایک ایسی زندگی مل جائے گی جو حقیقتاً خود انحصاری پر مبنی ہو گی۔ اس آزادی کے نتیجے میں بچوں کا بوجھ تمھیں اٹھانے کی ضرورت نہیں اس کی ذمے داری ریاست اور اس کے اداروں کی ہو گی۔ پدر سری سے نجات کے نتیجے میں تمھاری انفرادیت تمھیں آزادی کی اس منزل سے ہم کنار کر ے گی جس کی لذت سے ابھی تم خود بھی آشنا نہیں ہو۔ اقبال جیسے دانش ور نے عورتوں کی معاشی کفالت کو شدید ضرورت کے بغیر رد کر دیا ہے۔ انھیں ایسے تمام مغربی نظر یات گوارا نہیں تھے جو عورت کو خود انحصاری کی صورت عطا کریں۔ اقبال ضرب کلیم میں دور حاضر کے اس نظریے کی مخالفت یوں کر تے ہیں۔

تہذیب فرنگی ہے اگر مر گ امومت

ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت

جس علم کی تا ثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت

بے گانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن

ہے عشق ومحبت کے لیے علم و ہنر موت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments