بنگالی بابا، خاندانی حکیم اور انصافی حکومت


یہ عامل بابا بنگالی ہیں جنہوں نے کوہ ہمالیہ کے برف پوشوں میں ننگے بدن چلے کاٹے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے ان کے پاس آپ کی تمام مشکلات کا حل ہے۔ ان کے عمل سے سنگدل محبوب آپ کے قدموں میں ہو گا۔ شوہر آپ کا وفادار ہو جائے گا اور تمام کمائی صرف آپ کے ہاتھوں پہ رکھا کرے گا۔ ان کی دعاؤں کی بدولت آپ کا انعامی بانڈ نکل آئے گا۔ دولت چھپر پھاڑ کے برسے گی۔ قسمت کی دیوی آپ پہ مہربان ہو جائے گی۔ مٹی کو ہاتھ لگائیں گے تو سونا بن جائے گا۔

پلک جھپکنے میں امریکہ کا ویزہ لگ جائے گا۔ آپ کا سونا آنگن اولاد جیسی نعمت سے جگمگا اٹھے گا۔ عدالتی کیس جو پچھلے بیس سالوں سے التوا کا شکار ہے، فی الفور اس کا فیصلہ آپ کے حق میں آ جائے گا۔ یہ سب اور اس طرح کے دوسرے بہت سے کام جو کہ ناممکن نظر آتے ہیں، بابا جی کے کیے گئے ایک عمل سے پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔

یہ خاندانی حکیم ہیں جو کہ پانچ پشتوں سے طب کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ حکمت کے لئے انہوں نے در در کی خاک چھانی ہے یونان کہ جس میں سر فہرست ہے۔ ان کا دعوىٰ ہے کہ ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا علاج ممکن نہیں۔ جن بیماریوں کا علاج جدید میڈیکل سائنس میں ابھی دریافت نہیں ہوسکا ان کا علاج یہ قدیم یونانی نسخوں سے کرنے میں ماہر ہیں۔ دائمی نزلہ، پرانی قبض، بواسیر کا علاج تو صرف ان کے ایک نسخہ کی مار ہے۔ اس کے علاوہ مردانہ اور زنانہ امراض مخصوصہ کے اسپیشلسٹ ہیں۔ آپ کو جوڑوں کا درد ہو یا پرانہ دمہ، سب امراض سے نجات مل جائے گی۔ اور شوگر کے مریض ان سے علاج کے بعد ایک دفعہ پھر سے بھرپور ازدواجی زندگی گزارنے لگیں گے۔ یہ اور اس جیسے دوسرے بہت سے لاعلاج امراض کا شافی علاج حکیم صاحب دیسی جڑی بوٹیوں اور خالص اجزاء سے کرتے ہیں۔

قارئین! آئیے پہلے عامل بابا کے در پہ حاضری دیتے ہیں۔ پہلی ملاقات میں ایک آدھ پھونک کے عوض صرف چند سو یا ہزار روپے لئے جائیں گے اور چاند کی پہلی جمعرات کو دوبارہ سے آنے کا کہا جائے گا۔ آنے والے دنوں پہلے گائے کی کلیجی اور بکرے کی سری منگوائی جائے گی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلے گا بات اصیل مرغ، سالم کالے بکرے، دیسی گھی کے ٹینوں اور نقد رقم پہ بھی نہ رکے گی۔ اس دوران قدرت کو منظور ہوا تو مادی اسباب اور دنیاوی حقائق ہم آہنگ ہونے سے آپ کا پھنسا ہوا کام نکل آئے گا یعنی بگڑی تقدیر سنور جائے گی۔

عامل بابا کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور آپ کی وساطت سے کئی نئے معتقدین بھی مل جائیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں بھی عامل بابا کے وارے نیارے تو ہوں گے ہی کہ گزشتہ حاضریوں میں ہی انہوں نے آپ سے اتنا کچھ اینٹھ لیا ہو گا کہ مزید انہیں آپ کی ضرورت نہ رہے گی۔ لیکن آپ کسی دوسرے بابے کا در ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں گے۔

آئیے اب حکیم صاحب کے دواخانہ پر چلتے ہیں۔ پہلی فرصت میں حکیم صاحب جو نسخہ دیں گے اس کا فائدہ تو ہوگا لیکن اتنا کارگر نہ ہوگا۔ چنانچہ اگلی دفعہ ساتھ کوئی دو چار کالے پیلے شربت بھی عنایت کیے جائیں گے جس کو بنانے کا نسخہ صرف ان کے آباء کے پاس ہو گا اور اس کے عوض آپ سے اچھی خاصی رقم بٹوری جائے گی۔ اور اس سے اگلی دفعہ ان کے دیے گئے سٹیرائیڈز سے جو سائیڈ افیکٹس سامنے آئیں گے تو ان کو دور کرنے کے لئے مزید کچھ معجونیں دی جائیں گی جو کہ یونان سے منگوائی ہوں گی اور ظاہری بات ہے ایسی قیمتی اور نایاب معجونوں کی آپ کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

دوران علاج اگر قدرت کو منظور ہوا تو آپ صحت یاب ہو جائیں گے اور حکیم صاحب کا دواخانہ بھی چل نکلے گا۔ ورنہ دوسری صورت میں بھی ان کا فائدہ ہوگا کہ وہ پہلے ہی آپ سے کافی کچھ سمیٹ چکے ہوں گے اور انہیں اب اپنے نئے آنے والے (قسط وار ) مریض پہ توجہ دینا ہوگی۔ اور آپ کسی نئے معالج کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔

قارئین! شاید آپ سمجھ رہے ہیں یہ میری ذہنی اختراع ہے ورنہ حقیقت ایسی نہیں تو آئیے آپ کو ہڈ بیتی سناتا ہوں۔ تھوڑا عرصہ قبل ایک ملٹی نیشنل برانڈ کی کاسمیٹکس خریدنے کا اتفاق ہوا۔ استعمال کے دوران جب ہدایات پڑھیں تو لکھا تھا اگر آپ دور رس نتائج چاہتے ہیں تو اس میں ہماری فلاں پراڈکٹ بھی شامل کر لیں۔ مرتا کیا نا کرتا، اپنے بجٹ کو لات مارتے ہوئے وہ بھی خرید لایا۔ لیکن جب کچھ خاص نتائج برامد نہ ہوئے کہ جن کا دعویٰ کیا گیا تھا تو کمپنی کی ہلیپ لائن پہ رابطہ کیا۔ نمائندے کا کہنا تھا یقیناً آپ نے اس دوسری کاسمیٹکس کے ساتھ ہماری فلاں جیل استعمال نہیں کی ہو گی لہذا آپ اسے بھی استعمال کریں ہمارا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد آپ کی شکایت دور ہو جائے گی۔ میں نے وہ جیل کیا خریدنا تھی باقی کی دونوں پراڈکٹس بھی بغیر استعمال کیے ڈریسنگ ٹیبل پہ سجا دیں۔

قارئین! کبھی سوچتا ہوں دو سال ہونے کو آئے ہیں تحریک انصاف کی حکومت کو۔ ان کا حال بھی بنگالی بابا اور خاندانی حکیم سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ پہلے پہل تو یہ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ سابقہ حکومت پہ ڈال دیتے تھے۔ لیکن اب سلسلہ کار بڑھانے کو اور اگلے تین سال مکمل کرنے کو نئی اختراع گڑھ لائے ہیں جیسا کہ آج ہی وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب فرما رہے تھے دراصل حکومت کے مخالفین ہمیں حکومت کرنے نہیں دے رہے اس لئے ہم بیڈ گورننس کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

پتا نہیں وہ کون سے عوامل ہیں جو ان کی راہ میں مزاحم ہیں؟ ورنہ ایمپائر تو ان کے ساتھ کھڑا ہے اور جمہوری حکومت کا سب سے بڑا ناقد قائد حزب اختلاف سرے سے ہی اس ملک میں موجود نہیں۔ باقی اپوزیشن بھی یا تو اندر ہے یا پھر ضمانتوں کے بعد منظر سے غائب ہو چکی ہے۔ کبھی کبھار کسی سیاسی لیڈر کے پھس پھسے سے بیانات سامنے آ جاتے ہیں اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ اپنی ہی صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اور میڈیا پہ جب بھی دیکھیں فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری، شیخ رشید یا پھر خود آنجناب عمران خان ہی جلوہ افروز ہوتے ہیں اور مخالفین کے لتے لے رہے ہوتے ہیں جیسے یہ حکومت میں نہیں بلکہ ابھی تک ڈی چوک میں کھڑے ہیں۔

اور جب یار لوگوں سے حکومت کے نعرہ تبدیلی بارے پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سال تو پورے کرنے دو پھر دیکھنا تبدیلی۔

قارئین! واضح رہے یہ وہی دوست احباب ہیں جو پہلے کبھی تحریک انصاف کو حکومت کا موقع ملنے پر ہی تبدیلی کا راگ الاپتے نظر آتے تھے۔ پھر جب یہ مرحلہ طے ہو چکا تو پہلے سو دن کا شوشہ چھوڑا گیا۔ جو بعد میں ایک سال، پھر کبھی مارچ اور کبھی دسمبر اور آخر میں وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے الفاظ میں 2020 ء تک جا پہنچا ہے۔ اور اب نئے سال کے دو ماہ بھی گزر چکے ہیں منتظر ہوں کہ کب جناب شیخ رشید اسکرین پہ جلوہ افروز ہوں اور مارچ کے بعد کی نوید سنائیں۔

ویسے حکومتی وزراء کے بیانات سے لگتا ہے کہ پانچ سال بعد بھی اپنی حکومت کے آخری دن، یہ لوگ یہی کہہ رہے ہوں گے پانچ سال تو ہمارے رستے میں مخالفین روڑے اٹکاتے رہے ہیں اور ہم صرف سابقہ حکومت کی غلطیوں کو ہی درست کرتے رہے ہیں۔ لہذا دوبارہ بھی ہمیں ہی ووٹ دیا جائے تاکہ ہم حقیقی تبدیلی لا سکیں کیونکہ گزرے پانچ سال تو ہم نے گند کی صفائی کی ہے آئندہ پانچ سالوں میں ہم ملک کو ترقی کی راہوں پہ ڈالیں گے۔

ویسے میرا نہیں خیال، وہ ووٹرز جن کے ووٹ سے موجودہ حکومت منتخب ہوئی ہے آئندہ بھی انہیں منتخب کریں کہ وہ جیالوں، متوالوں اور چند ایک انصافیوں کی طرح لکیر کے فقیر نہیں ہیں۔

لہذا امید کی جاتی ہے آنے والے وقتوں عمران خان اینڈ کمپنی کہا کرے گی کہ اگر ہمیں مزید پانچ سال موقع مل جاتا تو ہم نے واقعی تیر مار لینا تھا اور پاکستان کو ایک عالمی اور معاشی طاقت بنا کے ہی چھوڑنا تھا۔ اور ہمیں موقع نہیں مل سکا سو تبدیلی بھی نہیں آ سکی۔ بالکل جس طرح میں نے اس ملٹی نیشنل کمپنی کی پراڈکٹس کو استعمال کرنے کے لئے اس کے لوازامات پورے نہیں کیے اور وہ ابھی تک ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑی میرا منہ چڑا رہی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments