بلاول کے صدقے


\"zulfiqar-ali\" کوئی عجیب لمحہ تھا۔ کرب سے چھلکتا ھوا، درد سے لبریز اور ھجر کی مسافتوں میں کالی راتوں اور طوفانوں کا امین۔ بلاول جب رویا تو ایسے لگا جیسے کربل کا درد میرے وجود کی نس نس میں اتر کر مجھے چیر پھاڑ رہا ھو۔ میری روح لرزاں و خونچکاں، بیاباں، زرد صحرا میں ماتم کناں ھو کر اپنے آپ کو لہولہان کر رہی ھو۔ میری بوڑھی ماں نے جب بلاول کو یوں روتے دیکھا تو بے اختیار بھرائی ھوئی آواز سے کہا \”تیڈے صدقے تھیواں \” اس کے بعد اس میں یہ ہمت نہیں تھی کہ آگے کچھ بول سکے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا وہ بے اختیار بلک بلک کے رو رہی تھی۔ گھر میں سناٹا چھا گیا۔ سب لوگ بے سدھ ھو کر اپنے اپنے غم میں ایسے گم ھو ئے جیسے آس پاس کچھ بھی نہ ھو۔ صرف اپنی اپنی ذات کی تنہائی اور آنکھوں میں آنسووں کے نیر۔میں سوچنے لگا یہ سب کیا ھے آخر بلاول کے رونے سے ھم سب اس طرح کیوں غمزدہ ھو گئے۔

 کافی دیر سوچتے سوچتے میں ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔ میں نے دیکھا یزید تخت پے براجمان ھے اور اہل بیت پیاس سے نڈھال سچ کو پیت پریت کا پانی پلا رہےہیں۔ میں نے دیکھا یونان کے بادشاہ سقراط کو زہر کا پیالا پلا رہے ہیں اور سقراط مسکرا کے آئیں اور قانون کی بالا دستی کیلئےموت کو گلے سے لگا رہا ہے ۔ میں نے دیکھا جرمنی کی روزا لکسمبرگ جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف بولتے ھوئے پھانسی پے چڑھ رہی ھے مگر اسے اپنی جان کی پرواہ نہیں، میں نے دیکھا سوفی سکال نازی ازم کے خلاف بولتے ھوئے تختہ دار پر مسکرا رہی ھے ، میں نے دیکھا موہن داس گاندھی عام لوگوں کی قتل و غارت کو روکنے کیلئے نبرد آزما ھے اور اپنے ہی لوگوں کے بہیمانہ اقدام سے تڑپ تڑپ کے جان دے رہا ھے، میں نے دیکھا جمال عبدالناصر سید قطب کو اس لئے قتل کر رہا ھے کہ اس نے اسلام کو عام لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی، میں نے مارٹن لوتھر کنگ کو سماجی حقوق کی تحریک کو دوام بخشنے کے جرم میں موت کو گلے لگاتے دیکھا، میں نے بھگت سنگھ کو جیل کی اذیتیں سہتا اور مسکراتے ھوئے پھانسی پے چڑھتے دیکھا، میں نے 12 سال کے بچے اقبال مسیح کو بچوں سے جبری مشقت کرائے جانے کے خلاف لڑتے ھوئے موت کو گلے سے لگاتے دیکھا اور میں نے محترمہ بی بی کو ھنستے مسکراتے امام ضامن کے ساتھ موت کی آغوش میں جاتے دیکھا ایسے کتنے لوگ تھے جو بے دردی سے مار دئیے گیے مگر کیوں؟

 اس کیوں کا جواب ڈھونڈنے کیلئے اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک چیز جو ان قتال کے پیچھے مشترک ھے وہ ہے کسی خطے کے اصل حکمرانوں کا اپنے اپنے ظالمانہ \"bilawal-tears\"اور غیر منصفانہ اقتدار کو دوام بخشنا۔ مرنے والے درد اور نظریات کی جو میراث چھوڑ کے گئے وہ میراث ہر اس شخص کے روح میں رچی ہے جن کا ضمیر مرا نہیں۔ جو آج بھی انسانیت کو سمجھتے ہیں جو اپنوں کی قربانی سے واقف ہیں جو ان عظیم لوگوں کا احترام کرتے ہیں جن کے حقوق کے لئے ان بے شمار لوگوں نے قربانیاں دیں۔

پھر ایک اور سوال میرے ذہن میں ابھرا کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔ یوں ہی اس کرہ ارض پر بسنے والے عوام جبر، بربریت، بھوک اور آزادی سے محروم رہیں گے۔ یوں ہی ہم مقتدر قوتوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے۔ یوں ہی ہماری مائیں اپنے پیاروں کی لاشوں پے ماتم کناں اور بین کرتی رہیں گی۔ یوں ہی جعلی لیڈر ہماری نسلوں کے جذبات سے کھیل کر اپنے آقاوں کو خوش رکھنے کیلئے کبھی انصاف کے نام پر تو کبھی کرپشن کے نام پر لڑواتے اور مرواتے رہیں گے اور اقتدار میں آ کر قلابازی کھاتے رہیں گے اور پھر ھم کسی اور مسیحا کی تلاش میں قتل ھونے کیلئے بطور نرسری استعمال ھونگے۔

 یہ سوچتے ھوئے میری نگاہ میرے بچوں پر پڑی جو میرے ساتھ بیٹھے پریشان نظر آ رہے تھے تو میں نے آنکھوں میں دیکھا تو مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ بچے بہت معصوم ہیں اور یہی معصومیت انہیں لے ڈوبے گی۔ میں نے نظریں نیچی کر لیں تو میرے کانوں میں ٹی وی کی آواز آئی جس پر ایک صاحب پریس والوں سے خطاب کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے پرویز رشید اتنا بھولا تو نہیں ہے اس کے پیچھے شاہی خاندان کی سازش ہے۔ میں نے دیکھا میرے بچے اس کی باتوں کو دھیان سے سن رہے ہیں اور بلاول کے آنسو کہیں گم ہو کے رہ گئے ہیں۔

 اب میں اس صورتحال سے نمٹنے کی ترکیب سوجھ رہا تھا تو میں نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا تو مجھے ںصاب کی کتابیں نظر آئیں، مجھے بھانت بھانت کے ٹی وی \"bilawal\"اینکر نظر آئے۔ مجھے نام نہاد دانشور نظر آئے، مجھے بڑے بڑے پیٹ والے ملا نظر آئے مجھے فوجی نظر آئے جو سویلین سے حساب مانگ رہے تھے، مجھے کھلاڑی نظر آئے جو سلیوٹ کر رہے تھے اور پش اپس لگا کے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کر ریے تھے۔ مجھے سکول کے ٹیچر نظر آئے جو مقامی زبان کو پسماندگی کا استعارہ سمجھ کر بچوں کو ماں بولی میں بات کرنے سے منع کر رہے تھے، مجھے مذہبی جنونی اپنے اپنے شہدا کو اسلام آباد میں خراج یاد کرتےنظر آئے، مجھے بنی گالا بھی دکھائی دے رہا تھا مجھے رایئونڈ بھی نظر آ رہا تھا اور پنڈی کے ایوان بھی میرا منہ چڑا رہے تھے۔ دماغ میں یہ سب منظر گھوم رہے تھے اور میں چکرا کے گرنے والا تھا کہ میری سب سے چھوٹی بیٹی نے کہا بابا گڑھی خدا بخش کہاں ہے۔ میں نے اسے سینے سے لگایا اور کہا بیٹا میرے دل کی دھڑکن سن رہی ہو اس نے کہا آپ کے دل میں ہے بابا ۔۔ میں اس کی بات جواب دئیے بغیر اٹھ کر باہر چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments