مردوں کو عورت مارچ سے خوفزدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں


وہ دن لد گئے جب دنیا میں مرد سرتاج اور مجازی خدا ہوا کرتے تھے، آج کل ہر طرف ”میری مرضی“ کا غُلغُلہ بلند ہے۔ خواتین ہوتی ہی نہایت بھولی بھالی ہیں اس لئے انہیں یہ جاننے میں صدیاں لگ گئیں کہ وہ جس مخلوق کو عالم پناہ سمجھتی رہیں اصل میں وہ انتہائی چالاک، ظالم اور خود غرض قسم کا جانور ہے جس سے عالم پناہ مانگتا ہے۔ اس لئے آزادی ضروری ہے۔

عورتوں کی آزادی کی تحریک کا آغاز کب ہوا اور مردوں نے عورتوں پر کیسے حکمرانی کی، اس بارے مؤرخین سخت خاموش اور خوفزدہ ہیں۔

ہم دوستوں میں سے فراز وہ واحد شخص ہے جسے تاریخ سے دلچسپی ہے اوراس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اسے اپنے خاندان کے تمام بچوں کی پیدائش کی تاریخیں زبانی یاد ہیں۔ کل ہم نے اسے زحمت دی کی تھوڑا وقت نکال کر ہمیں بتاؤ کہ مردوں کی فسطائیت کی تاریخ کیا ہے اور اب عورتوں کی آزادی کے بعد مرد راج کا کیامستقبل ہے؟ فراز نے اپنی گفتگو کا آغاز حضرت آدم کا حوّا کی بات مان کر جنت بدر ہونے سے کیا۔ شو مئی قسمت، مزید کچھ بتانے سے پہلے ہی اسے اپنی بیگم کی کال آگئی کہ فوراً گھر پہنچو اور یوں فراز کو واپس جانا پڑا۔ فراز گزشتہ ایک سال سے اپنی بیگم سے ڈرنا شروع ہوگیا ہے۔ ویسے اس کی شادی کو بھی ابھی بارہ مہینے ہی ہوئے ہیں۔

ہمارے محلے کی تاریخ میں خلیل شگفتہ وہ پہلا مرد ہے جس نے عورت کی حکمرانی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ خلیل کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی عورتوں کی آزادی کا سخت حامی تھا۔ جب وہ چھوٹا ہوا کرتا تھا تو اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو وہ فخر سے جواب دیتا کہ زن مرید بنوں گا۔ یوں وہ ہمارے محلے کا دوسرا شخص ہے جو زندگی میں جو بننا چاہتا تھا وہ بن گیا۔ (پہلا شیرو ڈاکو تھا جو پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا) اس نے شادی کے پہلے دن ہی شگفتہ بھابھی کو کہا کہ تم نے اپنا نام تبدیل کرکے شگفتہ خلیل نہیں کرنا، میں آج سے اپنا نام خلیل شگفتہ کر رہا ہوں۔

وہ دن اور آج کا دن، وہ لوگ جو بھابھی سے نہیں ملے ہوئے اسے خلیل شگفتہ جب کہ جو بھابھی کو اچھی طرح جانتے ہیں اسے خلیل شگوفہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ شگوفے نے ساری زندگی خواتین کی خدمت کرتے گزاری۔ اس نے جوانی میں خواتین کے جوتے، کپڑے، گوٹہ کناری، دوپٹہ رنگائی، گول گپے، دہی بھلے، چنا چاٹ، جوئیں مارنے والا تیل اور املی بیچنے جیسے مختلف کاروبار کئیے جب کہ آج کل وہ عورت مارچ کے پمفلٹ اور بینر بناتا ہے۔ شگوفے کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر وثوق سے کہ سکتا ہے کہ کم از کم پاکستان کے معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کا حل عورتوں کی آزادی اور حکمرانی میں پوشیدہ ہے۔

شگوفہ اپنے نظریے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ چونکہ عورتیں بھاؤ تاؤ کرنے کی ماہر ہوتی ہیں اس لئے وہ آسانی سے ملک کے لئے کم شرح سود پر قرض حاصل کر سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف کو کہہ سکتی ہیں کہ اڑھائی فیصد نہیں، پونے دو فیصد سے ایک آنہ اوپر سود نہیں دوں گی۔ اس کو یہ کہ کر بھی ڈرا سکتی ہیں کہ پچھلے چوک میں دو فیصد پرقرض مل رہا تھا لیکن اسے چھوڑ کر تمہارے پاس آئی ہوں کیونکہ ایک عرصے سے ہم تمہارے پکے گاہک ہیں۔

اسی طرح چونکہ خواتین گھر گر ہستی میں دلچسپی رکھتی ہیں اس لیے وہ مردوں کی سگریٹ، پان، گٹکا، سپاری جیسی اشیاء پر دُگناٹیکس وصول کرکے بجلی، گیس، آٹا، چینی، ٹماٹر پر سبسڈی دے کر انہیں ہمیشہ سستا رکھ سکتی ہیں۔ یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی ہمارے وزیراعظم بھی ٹیکس دُگنا کرکے چیزیں سستی کرنا چاہتے ہیں لیکن مافیاز نہیں کرنے دے رہے اور یہ مافیاز عورتوں کی حکومت میں بھی ایسے ہی کام کریں گے۔

میرے خیال میں آج کل کے حالات میں عورتوں کی آزادی مردوں کے اپنے فائدے میں ہے اس لئے انہیں عورت مارچ سے خوفزدہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ مردوں کو بودی دلیلیں بھی پیش نہیں کرنی چاہئیں کہ وہ بحیثیت بیٹے، بھائی، شوہر اور باپ کے پہلے ہی انسانی زندگی نہیں گزار رہے یا یہ کہ قومی اسمبلی میں خواتین کی ساٹھ مخصوص نشستیں، سول سروس میں دو فیصد خواتین کا کوٹہ، فرسٹ ویمین بینک، فاطمہ جناح میڈیکل کالج، فاطمہ جناح یونیورسٹی، لیڈیز پارکس اور عورتوں کے لئے مخصوص دوسری اور جگہیں اس بات کی گواہ ہیں کہ مرد خواتین کی آزادی اور ترقی کے لئے ہمیشہ سے کوشاں ہیں۔

مردوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عورتیں آزاد ہوں گی تو ان پر سے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا یہ اور بات ہے اس کے بعد انہیں بچوں کے ڈائیپرز تبدیل کرنے پڑ سکتے ہیں اور ان پر برتن دھونے کے علاوہ گھر کی صفائی کی اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوسکتی ہے لیکن آج کل کے مہنگائی کے دور میں یہ پیسے کمانے سے زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ میں بے شمار ایسے مردوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی بیگمات کی ڈرائیونگ سیکھنے میں حوصلہ افزائی کی اور آج وہ گاڑی میں ساتھ بیٹھے آرام سے کینڈی کرش کھیل رہے ہوتے ہیں۔

اس لئے یا تو تمام مردخواتین کی آزادی کے لئے خود اٹھ کھڑے ہوں، ان کی مرضی کو مقدم جانیں، ان سے فضول بحث کرنا چھوڑیں، بلا حیل و حجت ان کا ہر حکم بجا لائیں یا پھر انہیں بیٹھ کر پیار سے سمجھا دیں کہ عورتوں کی آزادی تو دور کی بات اس ملک میں ابھی تک پچانوے فیصد مرد آزاد نہیں ہیں اور وہ جسے مَردوں کا معاشرہ سمجھ رہی ہیں حقیقت میں مُردوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔ یہاں زبان کھولنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ مُردوں کو نعروں، جلسوں، جلوسوں، موسیقی، خبروں اور تجزیوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments