کس کی مرضی!


پاکستان اور ہندوستان ایک طویل عرصہ تک برصیغر کی شکل میں دنیا کے نقشے پہ یکجا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی خواتین کی ایک بڑی تعداد بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ پاکستانی خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے۔ اس میں کم عمری کی شادی، صنفی امتیاز، غذائی قلت، تیزاب گردی، طبی سہولیات کا فقدان، دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پہ قتل، جنسی ہرا سگی، ریپ اور تنگ نظری شامل ہے۔ شخصی آزادی کا تصور ہمارے معاشرے میں ناپید ہے۔

عورتوں کو زیادہ تر دوسرے درجے کا شہری سمجھا جا تا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جہیز کے نام پہ قتل، تشدد اور خواتین کو زندہ جلانے کے واقعات پاکستان اور ہندو ستان میں سب سے زیادہ ہو تے ہیں۔ پاکستان کی 70 فی صد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ نچلے طبقے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے اور مراعات یافتہ طبقے میں بھی ایسی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ جہاں مرد کے تشدد کا شکار عورت ہے۔ بظاہر ناخواندہ طبقے کی خواتین تشدد کا شکار نظر آتی ہیں۔ لیکن افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے طبقے میں بھی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ جہاں تشدد کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اس ملک ِپاکستان کی آزاد عدلیہ کا یہ حال ہے کہ آج تک غیرت کے نام پہ قتل کے باعث کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔

کسی انسان کو کسی دوسرے انسان جو کہ مسلمان بھی ہے کہ قتل کا اختیار کیسے مل سکتا ہے۔ مرد کو عورت سے بر تر سمجھنے اور عورت پہ مالک ہو نے کی سوچ نے اس معاشرہ کو تنگ نظری اور جہالت کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔

تیزاب گردی عام ہے۔

اور جب تنگ نظری کی مثالیں خواندہ طبقے میں نظر آئیں تو ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔

40 فی صد عورتیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا شکار ہو نے کے باوجود آواز نہیں اٹھاتیں۔ نہ ہی کسی فلاحی یا حکو متی ادارے سے مدد لیتی ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید پہ یہ سب کچھ سہتی رہتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بعض اوقات شوہر کا تشدد عورت کو خود کشی جیسا سنگین راستہ اختیار کر نے پہ مجبور کر دیتا ہے۔

اسکولوں، کالجوں اور دفتروں میں خواتین کو ہراساں کر نا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ہر وہ عورت جو گھر سے باہر قدم نکالتی ہے مرد کے لیے آسان ہدف ہے۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے سب سے پہلے تو اس کو تسلیم کر نا ضروری ہے۔ حکومتی اور سماجی سطح پہ عورتوں کے مسائل کو سمجھنے، قوانین بنانے اور ان پہ قوانین پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے مسائل پہ خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارا نصاب

بھی ایسا ہو نا چاہیے جو مرد اور عورت کے درمیان مساوات پر زور دے۔ خواتین کو برابری کے حقوق صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب وہ معاشی طور پہ اپنے پاؤں پہ کھڑ ی ہوں اس کے لئے تعلیم از حد ضروری ہے خواندگی کی بلند سطح ہی عورت کے مسائل کاحل ہے۔

مرا جسم مری مرضی جیسا نعرہ لگانے والے بھی عورت کے مسائل کا حل ہی ڈھونڈنا چاہتے ہیں یعنی کہ عورت کو خودمختاری حاصل ہو۔ خودمختاری جب مذہب سے متصادم ہوگی تو وہ ایک اسلامی جمہوریہ میں قابل عمل نہیں ہوسکتی۔

مرا جسم مری مرضی ایک ایسا نعرہ ہے جو کہ عقل و دانش سے متصادم ہے۔ انسان جبر اور قدر کے فلسفے کے تحت زندگی گزارتا ہے جتنا اس کو اختیار حاصل اس میں انسان اپنے جسم پر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ انسانی جسم پر کس کی مرضی چلے گی۔

انسانی جسم ایک قالب ہے جو کہ دنیا کی زندگی گزارنے کے لیے ہم انسانوں کو عطا کیا گیا ہے۔ مرا جسم مری مرضی جیسا نعرہ لگانے سے نہ تو عورت کے مسائل کا حل ہوگا نہ اس کو مساوی درجہ ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments