میرا جسم میری مرضی: اس میں غلط کیا ہے؟


ایک عام سے نعرے نے پچھلے سال سے بڑا ہنگامہ مچا رکھا ہے، جو کہ تھمائے نہیں تھمتا۔ پچھلے سال خواتین کی عالمی دن یعنی آٹھ مارچ کو کچھ خواتین نے مختلف شہروں میں منعقد کی گئی ریلیوں میں پلی کارڈ اٹھا رکھے تھے، جس میں لکھا تھا میرا جسم میری مرضی۔ جوں ہی مرد حضرات کی ان الفاظ پر نظر پڑی تو شور مچادیا گیا کہ، یہ خواتین فحاشی پھیلا کر ایک اسلامی ریاست کو بدنام کر رہی ہیں، اور پھر جتنی تھے منہ، اتنی تھی زبانیں!

کیا کیا الفاظ نا استعمال ہوئے اس ایک نعرے کو لے کر، توبہ توبہ۔ اور اب جب رواں سال کو عورت آزادی مارچ کی تیاریاں سکر سے لے کر لاہور تک بڑے زور شور سے دیکھنے کو آئیں، تو وہی گزشتہ سال والا ڈرامہ شروع ہوگیا۔ کچھ لوگ تو اسے رکوانے کہ لیے لاہور ہاِئی کورٹ تک پہنچ گئے، لیکن معزز جج اطہر من اللہ صاحب نے کسی کی بھی اظھار کی آزادی پہ پابندی لگانے کو جائز قرار نہیں دیا۔ انہوں نہ یہ کہہ کر پٹیشن خارج کر دی کہ، خواتین صرف وہی حقوق مانگ رہی ہیں، جو مذہب اسلام نے ان کو دے رکھے ہیں۔

ادھر ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے سماجی کارکن ماروی سرمد کو لائیو پروگرام میں گالیاں دے ڈالی، جس پروگرام کا موضوع بھی عورت آزادی مارچ تھا۔ جمعیت العلماء فنکشنل سندھ کہ رہنماؤں نے سکھر میں طے پانے والے عورت مارچ کی سخت مخالفت کی، پھر بعد میں جب تنقید کی زد میں آئے تو پیچھے ہٹ گئے۔ ان کا الزام تھا کہ یہ عورت مارچ بھی کسی مغربی سازش کا حصہ ہے، اور اس کی مالی معاونت بیرون ممالک سے ہو رہی ہے۔

ان سب کا یہی اعتراض ہے کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والی خواتین معاشرے میں گندگی پھیلا کر دوسری خواتین کو گمراھہ کر رہی ہیں، اور وہ یہ نعرہ لگا کر مغربی کلچر کو متعارف کروا رہی ہیں، جہاں پردہ، حیا سب بے معنی ہے۔ کچھ حضرات کا موقف تو یہ بھی ہے کہ خواتین کو اور کتنی آزادی چاہیے، ان کو ان کی اوقات سے زیادہ آزادی میسر ہے پھر بھی یہ رونا کیوں رو رہی ہیں؟ سب لوگوں کی اختلاف رائے اپنی جگہ، پر جو نعرہ لگایا جا رہا ہے، اس کو غلط سمجھ کر اس کی تشہیر کرنے کا حق کسی کو نہیں۔

پہلے نعرہ لگانے والوں سے ایک دفعہ پوچھ تو لیا جائے، کہ اس نعرے کہ پیچھے کیا معنٰی اور مقاصد ہیں، اور یہ خواتین کس قسم کی مرضی چاہتی ہیں؟ اگر اس نعرے کہ بدلے یہ نعرہ لگادیا جائے، میرا جسم آپ کی مرضی، تو کیا قابل قبول ہوگا؟ یقیناً کوئی بھی مرد اسے قبول نہیں کر پائے گا۔ کپڑوں جوتوں سے لے کر، داڑھی موچھوں تک، ایک مرد وہی کرتا ہے جو اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔

اب بحث یہ چھڑ گئی ہے کہ میرا جسم میری مرضی ایک غلیظ نعرہ ہے، جس سے کیے غلط باتیں منسوب کی جا رہی ہیں، تو آپ ہی سوچیں کہ کیا یہ نعرہ درست ہوگا کہ میرا جسم آپ کی مرضی، یا میرا جسم محلے والوں کی مرضی۔

ایک انسان کا اپنے پورے وجود پر مکمل حق ہے، اگر وہ کسی غلط عمل میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا ذمے دار بھی وہ خود ہی ہوگا۔ صرف اس بات کی انگلی پکڑ کہ میرا جسم میری مرضی کا مطلب ایک وقت میں مختلف لوگوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا ہے تو، یہ بات قطئی طور پہ بے بنیاد اور من گھڑت سمجھی جائے۔

میرا جسم میری مرضی کے نعرے تلے ہر خاص و عام عورت کا یہی مطالبہ ہے کہ اس سے جنسی تعلقات زبردستی قائم نہ کیے جائیں، اس کا ریپ نہ کیا جائے۔ بیٹے کی خواہش میں اس ہر دفعہ حمل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، اسے پسند کی شادی، مکمل تعلیم حاصل کرنے، اور خاندانی ملکیت میں سے حق دینے کو تسلیم کیا جائے۔ ایک بچی ہو، جواں سال لڑکی ہو یا بوڑھی خاتون، وہ میرا جسم میری مرضی کہ تحت اپنے جائز حقوق کی مانگ کر رہی ہے، جسے غلط رنگ دے کر کچھ عورت دشمن عناصر معاشرے میں عورت کو بدنام کر رہے ہیں۔

ایک عورت کہ محض انکار کرنے پر اس کہ منہ پہ تیزاب چھڑک دینا، اس کا ریپ کرنا، جسمانی تشدد کرنا، غیرت کہ نام پہ قتل کرنا، ان سب مظالم سے تحفظ کا نعرہ ہے میرا جسم میری مرضی۔ ایک عورت اپنے جسم پہ کسی کی زبردستی، کسی کا روندنا، کسی کا ہوس نکالنا نہیں چاہتی، تبھی وہ کہتی ہے میرے ساتھ یا میرے جسم کے ساتھ میری مرضی کہ مطابق پیش آؤ۔ جب ایک شوہر باولہ ہوکر اپنے ہوس نکالنے کے لیے حد سے زیادہ ایک عورت کو استعمال کرتا ہے، جب وہ اپنی مردانگی ایک کمزور عورت پہ نکالتا ہے، تب ہی ایک عورت کی چیخ و پکار نکلتی ہے کہ، یہ کیسا انصاف ہے کہ جسم میرا اور مرضی تمہاری، جیسے چاہو جتنی چاہو تکلیف پہنچاؤ، پھر بھلے وہ قابل برداشت ہو یا نہ ہو۔

کھانا ٹھنڈا ہونے پر مجھہ پہ تشدد کرو، غیرت کہ نام پہ میرا گلا کلھاڑی سے کاٹ ڈالو، میرے مرضی پوچھے بغیر کسی بوڑھے شخص سے میرا نکاح کروادو، کسی جرگہ میں مقتلوں کے عیوض میرا رشتہ دشمنوں میں کردو، مجھے پڑھنے لکھنے کی عمر میں گھر سے رخصت کردو، صرف اسی لیے کہ جسم اور وجود میرا ہو، اور مرضی چلے مرد حضرات کی۔ یہ نعرہ اور یہ عورت مارچ ان سب مظالم کے خلاف ایک احتجاج ہے، جس کو دبوچنے کہ لیے عورت دشمن عناصر بڑے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم عورت کو جنس کی نظر سے تو دیکھتے ہیں، پر انسان نہیں سمجھتے۔ اور نتیجے میں صنفی تفریق نے نہ صرف ہم لوگوں کو پر ہمارے ملک کو بھی ترقی کی راہہ میں کہیں پیچھے چھوڑدیا ہے۔
تو لہذا اس نعرے کا غلط معنی و مفہوم نکالنے کے بجائے اس کو پہلے سمجھا جائے، پھر تنقید کہ تیر پھینکے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments