اپنی خاک پہ نازاں۔ خاکی جویو


قلمکار، قوموں کے انقلابوں کے نقیب ہوا کرتے ہیں، مگر ان میں سے کچھ ایسے میر ہائے کاروانِ قلم بھی ہوا کرتے ہیں، جو علم کے ساتھ ساتھ، عمل کے میدان میں بھی جدوجہد کے ساتھ شعُور کی وہ شمعیں روشن کیا کرتے ہیں، جن کے اُجالے آنے والے زمانوں تک، آنے والی نسلوں تک کی رہنمائی کے لیے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ فکری طرح سے تاریک نسلیں پیدا کرنے کی کوشش ہر دور میں ہوتی رہتی ہے، مگر پھر بھی ہر دور میں اُس ظلمت میں ضَو بن کر جگمگانے والے پروانے بھی تواتر سے پیدا ہوتے رہتے ہیں، جو اذہان کی صُراحیاں، شعُور کے جام سے بھرنے کے لیے ہی بھیجے جاتے ہیں اور بلا خواہشِ ستائش شعُور بانٹ جاتے ہیں۔

اِس خاک سے پیدا ہونے والے ایسے پروانوں میں سے ”خاکی جویو“ سرِ فہرست ہیں، جن کا نام تو ”خمیسو خان جویو“ تھا، مگر خاک سے ان کی محبّت اور نسبت نے نہ صرف انہیں نام سے ”خاکی“ بنا دیا، بلکہ وہ اِس مٹی کی محبّت میں اسمِ با مُسمّع بنے رہے اور بنے ہوئے ہیں۔ دھرتی کے ایک اور امر شاعر اور ان کے دوست، مقصُود گل انہیں ”تُرّابی“ کہہ کر پکارتے تھے، جس کا مفہوم بھی ”خاکی“ ہی ہے۔ وہ دن کہ جس کو آج کل دنیا ”عالمی یومِ خواتین“ کے طور پر مناتی ہے، اسی روز آج سے 78 برس قبل 1942 ء میں پیدا ہوئے۔

برطانوی ہندوستان کے سندھ کے ضلع دادُو میں خیرپُور ناتھن شاہ کے قریب ”کاٹھیا“ نامی گاؤں میں۔ پاکستان سے عمر میں پانچ برس بڑے تھے۔ ادبی پہچان ایک قومی و انقلابی شاعر، نقاد، نثر نویس، دانشور، صحافی اور مُدیر کی حیثیت سے بنی۔ ادبی و سیاسی دنیا میں ”خاکی جویو“ کے نام سے پہچان پانے والے نے قلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد، کچھ عرصے کے لیے ’خیام‘ کے تخلّص سے بھی شعر کہا تھا۔

خاکی کے والد کا نام تھا ”حاجی جویو“۔ جو پیشے کے لحاظ سے ایک کسان تھے۔ اور کسان بھی بڑے خوددار اور محنتی تھے، جو زمینداروں اور ان کے ملازموں کی ناجائز فرمائشوں کے ردِّ عمل میں مزاحمت کی آواز بنے رہتے تھے، اور ان سے اصولی اختلافات کی وجہ سے ہر کچھ دنوں بعد ہجرت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کُوچ کرنا اس خاندان کا مقدر بنا رہا۔ خاکی کے خاندان کا آبائی گاؤں، ”لکی شاہ صدر“ (قصبے) سے چند میل جنُوب کی طرف، دریائے سندھ کے کنارے ’آباد‘ کے نام سے آباد تھا، جو اب تک کئی مرتبہ دریا بُرد ہو چکنے کے باوجُود بھی آج بھی اسی نام سے وہیں موجود ہے، جو سندھ کے عظیم دانشور محمّد ابراہیم جویو کی جائے پیدائش بھی ہے۔

خاکی کے پیدائش کے وقت 1942 ء میں ایک بڑے سیلاب کی تباہی کے باعث ان کے والدین کُوچ کر کے موجُودھ ضلع جامشورو اور سابقہ ضلع دادُو کے تاریخی قصبے ”سن“ کے جنوب میں ”جُمّن شاھ“ کے گاؤں ”کاری واہ“ میں آن بسے۔ جہاں سے پھر کچھ عرصے بعد ہجرت کر کے دریائے سندھ کی بائیں جانب ”قاضی احمد“ نامی قصبے کے قریب ”پیر کولاچی“ میں انہوں نے آکر ڈیرا ڈالا۔ یہ تقریباً 1947 ء کا زمانہ تھا اور تقسیمِ ہند ہو چکی تھی۔ خاکی کو غُربت کے باعث بچپن ہی سے بھیڑ بکریاں چرانے کے کام پر لگا دیا گیا، مگر انہیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

انہوں نے دیکھا کہ ان کے گاؤں کے کچھ لڑکے دو میل پیدل چل کر قاضی احمد (شہر) پڑھنے کے لیے جاتے ہیں، تو خاکی نے بھی ان کے ساتھ اسکول جانے کی ٹھانی اور اپنے والدین کو بغیر بتائے، جنگل میں اپنے مویشی اور مال دیگر چرواہوں کے حوالے کر کے، اپنے گاؤں کے اُن اسکول میں پڑھنے والے لڑکوں کے ساتھ قاضی احمد کے اسکول میں پڑھنے کے لیے جانا شروع کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے اپنی مادری زبان سندھی کی ابجد پڑھ کر سیکھ لی۔ انہی دنوں ایک مرتبہ خاکی کے مویشی ان کی غیر موجُودگی میں غیر متعلقہ زمینوں میں جا نکلے۔ جس کی شکایت خاکی کے والد تک پہنچی، تو اس کوتاہی پر خاکی کی اپنے والد کے ہاتھوں زبردست پٹائی ہوئی اور ان کی پڑھائی بند ہوگئی۔

خاکی نے تمام عُمر ایک محنت اور کش کسان کی غربت سڀ بھرپُور زندگی بسر کی۔ انہوں نے کھیتی باڑی کی۔ ہل چلائے۔ کھیت چُگنے والی چڑیوں کو سارا سارا دن اُڑانے کا کام کیا۔ اُونٹ چرائے۔ دِہاڑیاں لگائیں۔ مزدوریاں کیں۔ ”سن“ شہر میں ایک بیوپاری کی دکان پر جھاڑو پونچھا تک کیا۔ جُوتوں کی دکان پر بھی کام کیا۔ ”سن“ اور ”قاضی احمد“ میں خانساماں کا کام تک کیا۔

خاکی اس امر پر یقین رکھتے تھے کہ علم کی ضو جب بھی، جہاں سے بھی ملے، حاصل کر لینی چاہیے۔ اسی وجہ سے ”سن“ شہر میں اپنے چھوٹے بھائی اور سندھی کے ایک اور مشہور شاعر اور دانشور، تاج جویو کو جب گھر میں پڑھتا دیکھا تو، ان کے ساتھ خود بھی پڑھنا شروع کیا اور پہلی کلاس کی ”بِگنر کتاب“ اور ”پہلی کتاب“ 1961 ء تک پڑھ لی۔ انہوں نے اپنی چھوٹی عمر میں ہی ناظرہ قرآن پاک مُکمّل کیا۔ جس کے بعد کچھ عرصہ ”سن“ شہر کے ایک نجی ہسپتال میں ڈسپنسر کے طور پر کام کرنے کے دوران، ڈاکٹر کے بیٹے سے انگریزی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

خاکی جب 20 برس کے ہوئے تو، 1962 ء میں ایک بار پھر ان کے والدین، اپنی خانابدوشی کے تحت دوبارہ اسی گاؤں ”پیر کولاچی“ کی طرف کُوچ کر کے آ گئے۔ اس دوران خاکی نے قاضی احمد اور سَن میں اپنی ایک چھوٹی سی دکان بھی چلائی، جس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے انہوں نے نہ صرف اپنے چھوٹے بھائی تاج جویو کو پڑھایا، بلکہ خود بھی تعلقہ مورو کے ”نواں جتوئی“ شہر کے مصطفیٰ اوریئنٹل کالج سے ”ادیب سندھی“ اور ”ادیب عالم“ کے امتحانات پاس کیے۔

خاکی جویو، سندھ کے صفِ اوّل کے مزاحمتی شاعرتو تھے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک عُمدھ نثر نویس بھی تھے۔ ایک ادیب اور ادبی طور پر سرگرم کارکن کے ساتھ ساتھ وہ ایک متحرک سیاسی کارکن بھی رہے۔ بنیادی طرح وہ جی۔ ایم۔ سیّد کے مکتبِ فکر سے وابستہ رہے۔ خاکی، قومی سیاست میں ترقی پسند خیالات کی حامی تھے، لہذا ان کے نظریاتی سفر کا آغاز ”پروگریسو جیئے سندھ پارٹی“، ”وطن دوست انقلابی پارٹی“ اور ”جیئے سندھ ترقی پسند پارٹی“ سے ہوا، مگر وہاں ان کی ترقی پسند قومی سوچ اور فکر کی تشفّی نہیں ہوئی، اسی وجہ سے جی۔ایم۔ سیّد کی وفات کے بعد بننے والے ’جیئے سندھ قومی محاذ‘ میں نہ صرف شرکت کی، بلکہ اس کے تمام دھڑوں کو یکجا کر کے ”جسقم“ کی داگ بیل ڈالنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، بعد ازاں جب جیئے سندھ قومی محاذ دو حصّوں میں تقسیم ہوا، تو خاکی نے قومی تحریک سے اپنی رسمی اور علامتی وابستگی تو برقرار رکھی، لیکن عملی طرح اس کے کسی بھی گروپ کی رُکنیت اختیار نہیں کی۔

خاکی جویو نے، قومی فکر کے پھیلاؤ کی غرض سے تقریباً 25 برس تک مسلسل ’سانجاہ‘ کے نام سے سندھی میں ایک معیاری ماہنامہ رسالہ شایع کیا۔ ’سانجاہ‘ کے معٰنی ”شعُور“ کے ہیں، اور اس جریدے نے شعُور کے وہ اجالے بانٹے، جن سے مُستفید ہونے والے اذہان، اپنے افکار و عمل کے ذریعے برسوں تک خُوشبُوئیں بانٹتے رہیں گے۔ ’سانجاہ‘ رسالے نے مقصدیت سے بھرپُور لکھنے والوں کی ایک پوری نسل تیّار کی۔ اس دور کے کم و بیش ہر قلمکار نے ’سانجاہ‘ میں لکھا اور نوجوانوں نے لکھنا سیکھا۔

فالج میں مبتلا ہونے اور مختلف بیماریوں میں کا شکار ہونے کے باعث خاکی جویو کی طبیعت نے ان کی عمر کی آخری چند برس انہیں قلمی کارنامے انجام دینے کے قابل نہ رکھا، مگر اس کے باوجُود وہ اسی بیماری کے دوران ”جن پڑھایو پانڑ“ (جس نے خود کو خود پڑھایا) کے عنوان سے 500 صفحات سے زیادھ پر مشتمل اپنی خُودنوشت نہ صرف تحریر کی، بلکہ خود کمپوز کر کے اسے شایع بھی کرایا۔ جس کو پڑھ کر ان کی زندگی، ادب اور نظریے سے وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔

خاکی کی شاعری کے شایع شُدھ مجمُوعوں کی تعداد چار ہے، جن سمیت ان کی طبع شُدھ کتب کی کل تعداد 30 ہے، جن میں (1) ”آزاد گھرجے وطن“ (طویل نظم۔ شایع: مارچ 1973 ء، جس کے تین ایڈیشنز شایع ہو چکے ہیں۔) ، (2) ”ایءُ خاکیءَ جو خیال“ (مجمُوعہء کلام۔ اشاعتِ اوّل: جولائی 1982 ء۔ اشاعتِ دوم: مئی 2018 ء) ، (3) ”کیڈارو“ (مزاحمتی ابیات۔ شایع: 1984 ء) ، (4) ”آسَن جن اریج“ (ایم۔ آر۔ڈی تحریک سے متعلق طویل نظم۔ اشاعت اوّل: مارچ 1985 ء، اشاعتِ دوم 2008 ء) ، (5) ”قومی سوال جو نظریاتی جائزو“ (شایع: مارچ 1986 ء) ، (6) ”ترقی پسند ادب جا معیار“ (اشاعتِ اوّل: اپریل 1986 ء، اشاعتِ دوم: 2008 ء) ، (7) ”کھابی دُھر جی موقع پرستی“ (شایع: 1986 ء) ، (8) ”پنجابی دانشور ائیں مظلوم قومُوں“ (شایع: جنوری 1988 ء) ، (9) ”قومی علیحدگیءَ جو سوشلسٹ جمہوری حق“ (شایع: جنوری 1987 ء) ، (10) ”قومی سوال جو تنقیدی جائزو“ (لینن کی نگارش کا ترجمہ۔شایع: 1988 ء) ، (11) ”بیٹھکیت چھا آہے؟ “ (شایع: 1988 ء) ، (12) ”ق۔ ومی کارکنن لائے تدریسی کورس“ (طبع: 1988 ء) ، (13) ”انقلاب جی واٹ“ (شایع: 1988 ء) ، (14) ”پِھریا پسی پھینڑ“ (سیاسی تنقید) ، (15) ”عشق، حب الوطنی ائیں انسانیت“ (شایع: جنوری 2001 ء) ، (16) ”سندھ میں اردو آبادیءَ جو مستقبل“ (شایع: اکتُوبر 2001 ء) ، (17) ”آزادیءَ جو حق۔ حصّہ اوّل“ (جی۔ایم۔ سیّد کے انٹرویُوز۔ ترتیب۔ شایع: جنوری 2003 ء) ، (18) ”سُورہ بادشاہ جو سندھ جی آزادیءَ جو خواب“ (طبع: 2003 ء) ، (19) ”تاریخ میں فرد جو کردار“ (گارگی پلیخانوف کی کتاب کا ترجمہ۔ شایع: فروری 2006 ء) ، (20) ”سُونہاں بھائیں، سُدھ نہ ڈیں“ (سیاسی تنقید۔ طبع: جنوری 2007 ء) ، (21) ، ”جدید قومی ائیں بین الاقوامی نظام“ (شایع: مارچ 2007 ء) ، (22) ”سندھی میں اردو آبادیءَ جی تاریخی ضرورت“ (طبع: اپریل 2007 ء) ، (23) ”ادب جو قومی کردار“ (شایع: اپریل 2008 ء) ، (24) ”تنظیم کاریءَ جا اصُول“ (طبع: اپریل 2008 ء) ، (25) ”اردُو آبادی، سائیں جی۔ایم۔ سیّد جی نظر میں ” (26) “ سوشل شاونزم ائیں مظلوم قوموں ” (شایع: اگست 2008 ء) ، (27) “ وطن ائیں قوم جی سیاست ” (28) “ تاریخی عمل جی روحانی زندگی ” (ترجمہ۔ طبع: اپریل 2009 ء) ، (29) “ آزادیءَ جو حق۔ حصّہ اوّل ” (جی۔ ایم۔ سیّد کے انٹرویُوز۔ ترتیب۔ شایع: جنوری 2010 ء) ، (30) “ جن پڑھایو پانڑ ” (خُودنوشت۔ طبع: 2010 ء) شامل ہیں۔

دھرتی کے یہ عظیم شاعر، نقّاد اور دانشور، خاکی جویو، تقریباً تین برس قبل 2 مئی 2017 ء کو حیدرآباد میں، طویل علالت کے بعد، اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ وہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے، ”سن“ (قصبے) کے تاریخی شہرِ خموشاں میں ابدی آرامی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments