ایک انتہا سے دوسری انتہا تک


آج کل الیکٹرنک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے یا یوں کہنا چاہیے ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کے حامیوں کے درمیان ایک لفظی جنگ جاری ہے۔ ایک بہت بڑا لبرل طبقہ ماروی سرمد کی حمایت کررہا ہے اور بہت سے لوگ خلیل الرحمان قمر کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کہ اس نے لائیو شو میں ایک آزاد خیال عورت کو گالیاں دے کر اور تذلیل کرکے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیاہے۔ یہ رویے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بحثیت قوم کس قدر افراط و تفریط اور اخلاقی اقدار کے انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ عورت مارچ صحیح ہے یا غلط اس مارچ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ یہ ہونا چاہیے یا نہیں؟ قطع نظر ان نعروں کی شرعی اور اخلاقی حثیت کے جو اس مارچ کی زینت بنے جیسا کہ ”میرا جسم میری مرضی“۔ ”اپنا کھانا خود گرم کرلو“۔ ۔ وغیرہ۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا مذہب، ہماری اخلاقی اقدار اور ہمارا قانون ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم کسی بھی شخص سے اختلاف رائے کی صورت میں دلیل سے جواب دینے کی بجائے گالم گلوچ شروع کردیں؟ اگر ہم اس لیے عورت مارچ کی حمایت نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے معاشرے کو ایسی انتہا کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے جس کا نتیجہ خواتین کی مغربی طرز کی مادر پدر آزادی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ تو پھر ہمیں اس رویے کی حمایت بھی نہیں کرنی چاہیے کہ ہم کسی بھی اختلاف رائے کی صورت میں گالیوں اور بے ہودہ گوئی پر اتر آئیں قطع نظر اس کے کہ مخاطب عورت ہو یا مرد کیونکہ عزت دونوں کی برابر ہوتی ہے۔

یہی وہ انتہا پسندانہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ چاہے وہ ہمارے مذہبی حلقے میں ہوں یا سماجی اور ثقافتی حلقے ہر جگہ ہمیں عدم برداشت نظر آتی ہے۔ انتہا پسندی کا مطلب صرف دہشت گردی یا قتل و غارت گری نہیں بلکہ انتہا پسندی کی ایک قسم عدم برداشت بھی ہے۔ ایک ایسا رویہ بھی ہے جس میں ہم اپنی رائے کو حرف آخر سمجھیں اور اگر کوئی اس سے اختلاف کرے تو ہم اخلاقیات کی تمام حدودکو پار کرتے ہوئے سماجی رویوں پر ہونے والی بحث سے ہٹ کر کسی کی ذاتیات پر رقیق حملے شروع کردیں۔

اور پھر اس کا جواز یہ پیش کریں کہ مجھے اپنے غصے پر قابو نہیں رہتا۔ جب ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد، ادباء، مصنفین، ہمارے منتخب سیاسی نمائندگان اور فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں کا یہ رویہ ہوگا تو پھر اس معاشرے کے عام افراد کی اخلاقی حالت کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ کاش ان لوگوں کو اور ان کے حامیوں کو کوئی یہ سمجھا سکے کہ عالم اور جاہل میں فرق ڈگریوں کا نہیں بلکہ عمل اورکردار کا ہوتا ہے۔ انسان مختلف جذبات کا مرقع ہے۔ مثلاً خوشی، غم، محبت، نفرت اور غصہ وغیرہ ان فطری جذبات کا موقع اور محل کے مطابق مناسب انداز میں اظہار ہی آپ کی تعلیم و تربیت کا پتہ دیتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم تعلیم اور ڈگریاں تو بانٹ دیتے ہیں لیکن تربیت کے پہلو کو یکسر فراموش کردیتے ہیں اسی طرح اعتدال پسندانہ رویہ اور سوچ کو فروغ دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمارا معاشرہ پنڈولم کی طرح لبرل ازم اور قدامت پسندی کی دو انتہاؤں کے درمیان ہچکولے کھا رہا ہے۔ جس کی قیمت کبھی ہم پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں وکلاء کے احتجاج کے دوران چھ جانیں گنوا کر ادا کرتے ہیں تو کبھی ڈاکٹروں کی ہڑتالوں کے دوران کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں اور کبھی علماء کے ملک گیر احتجاج کے دوران اربوں کی املاک کی توڑ پھوڑ کی صورت میں اور کبھی اپنے بچوں کے سامنے ٹی وی پہ اس قسم کی غیر مہذب گفتگو کی صورت میں۔

ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم کچھ دیر ٹھہر کر سوچیں، اپنے رویوں پہ غور کریں اور اپنے لیے اس راستے کا انتخاب کریں جو چودہ سو سال پہلے ہمیں بتایا گیا یعنی میانہ روی اور تحمل و برداشت کا راستہ دوسری صورت میں ہماری چند بچی کچھی معاشرتی اقدار بھی اس مغربی اور مشرقی تہذیبوں کے تصادم اور انتہا پسندانہ نظریات کی نذر ہوجائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments