عمل کو تنقید سے فرصت نہیں


چند روز بیشتر ایک ”فیس بکی“ دوست کو تنقید سے توبہ کرتے دیکھا۔ دکھ تو ضرور ہوا ’یقیناً ایک مثبت جذبے کی یوں موت ہوجانا کسی بھی معاشرے کے لئے اچھا شگون نہیں۔ کہ تنقید اصلاح کو جنم دیتی ہے اور اصلاح سے ہی ارتقاء کا سفر عبارت ہے۔

معلوم نہیں ہمارے ہاں تنقید کو اتنا منفی کیوں لیا جاتا ہے۔ ( ویسے مثبت کس چیز کو لیا جاتا ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے ) اس کی ایک وجہ غالبا یہ ہے کہ ہماری روزمرہ روٹین میں طنز اور تنقید میں فرق روا نہیں رکھا جاتا بلکہ ہم طنز پہلے کرتے ہیں اور تنقید بعد میں۔ جو ظاہر ہے ہضم نہیں ہوتی۔

یوں دیکھا جائے تو کائنات میں تنقید سے مبرا کوئی چیز نہیں۔ تمام الہامی و غیر الہامی لٹریچر تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید پر بھی مشتمل ہے۔ جہاں ابن آدم اور بنت حوا کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ وھاں حضرت انسان کی بشری خامیوں کی طرف نہ صرف اشارہ کیا گیا بلکہ ہمارے افعال و کردار پر زبردست سرزنش بھی کی گئی۔

اگر انسان اور کائنات کے حیاتیاتی ارتقاء کو دیکھا اور سمجھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ تنقید ہی ارتقاء کی ضامن ہے۔ یہ کرہ ارض کبھی جلتا ہوا آگ کا گولہ تھا۔ صدیوں کے ارتقائئی عمل کے بعد یہاں حیات ممکن ہوئی۔ آج باوجود تمام سانحوں کے ہم ایک ایڈوانس حیاتیاتی وجود تو رکھتے ہی ہیں۔ ہماری ہی نسل سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی بہن جن کی فہم و ادراک میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ انہیں ہم مختلف جانوروں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جیسے گدھے کہیں گے یا اللہ میاں کی گائے وغیرہ۔

تنقید ہی اصول فطرت ہے۔ کہ ہمارے جسم میں بننے والی ایک ایک پروٹین اوراس کے بنیادی اجزاء (امینو ایسڈز) کے پیچھے جو ہدایات یا ”کوڈنگ“ دی جاتی ہے۔ وہ بھی تنقید سے مبرا نہیں کہ قدرت نے اس کے لئے ”پروف ریڈنگ“ کا نظام رکھا ہے۔ جو انسانی ”جینوم“ اس تنقید سے بچ جاتا ہے وھاں ”ڈاون سینڈروم“ یا ”سکل سیل انیمیا“ جیسی خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

خود فرد کی ارتقا اور اس کی اصلاح میں تنقید نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

میں اگر راہ پر نہیں آتا

کوئی الزام سر نہیں آتا

پیڑ پودوں کے پتوں اور جانوروں کی کھال سے جسم ڈھانپنے والے حضرت انسان کو کسی نے تو ضرور کہا ہوگا کہ حضور اس طرح آپ اچھے نہیں لگتے۔ تن ڈھانپنے کے لیے کسی مستقل بندوبست کی ضرورت ہے۔ تبھی تو کپڑا ایجاد ہوا اور آج ملیں ریشم کا ڈھیر بنتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ باوجود اس صنعتی ترقی کے آج بھی بہت سے اجسام ننگ دھڑنگ کا شکار ہیں۔ خیر یہ سب تو ہماری نیت کا فتور ہے ورنہ تن ڈھانپنے کو کپٹرا اور دو وقت کی روٹی تو سب کو میسر آسکتی ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی تنقید کی ’ہر سوال جو ہمارے ذہنوں میں اٹھتا ہے وہ خود ایک تنقید ہے۔ ہر جواب ایک تنقید ہوسکتا ہے۔ عقل‘ مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر کسی چیز کو رد یا قبول کرنا تنقید سے مبرا نہیں۔ معاشرتی امور اور ساسیات پر پہلی باقاعدہ کتاب ”ریپبلک“ خود سقراط کی طرف سے معاشرے کے رواجات پر تنقید تھی اور ارسطو نے اس کتاب پر جو بحث کی ہے وہ خود ایک تنقید ہے۔

زمانہ قدیم میں علم سے مراد صرف دو یا تین بنیادی شعبہ جات کی تعلیم تھی۔ مثلا علم طب ’فلسفہ اور علم ریاضی وغیرہ۔ بعد میں جتنے نئے علوم وجود میں آئے وہ سب ان بنیادی علوم کی تنقید سے پیدا ہونے۔ یعنی جدت چاہے وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہو‘ تنقید کی محتاج تھی ’ہے اور رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments