مطلقہ عورت کا نفقہ


\"malike-ashter\"مسلمانوں میں تقریباََ تمام مکاتب فکر جن فقہی معاملات پر متفق ہیں ان میں ایک مسئلہ مسلمان مطلقہ خاتون کے نفقہ کا ہے۔ اس سلسلہ میں تمام مسالک ایک رائے ہیں کہ مسلمان عورت کو طلاق کے بعد عدت کے دوران ہی نفقہ ملے گا۔ مسلمانوں کا قانون کہتا ہے کہ مسلم عورت کا عدت کی مدت گذر جانے کے بعد اپنے شوہر سے چونکہ کوئی لینا دینا نہیں رہ جاتا اس لئے اس کے نان نفقے کا ذمہ اس کے شوہر پر کیوں ہو؟ ادھر عدت کے بعد بھی نفقے کی حمایت کرنے والوں کی دلیل ہے کہ اگر اس طرح عورت کو طلاق دے کر عدت کے بعد بے سر و سامانی کی حالت میں چھوڑ دیا جائے گا تو اس کے سماجی مستقبل پر انتہائی بڑے سوالیہ نشانات لگ جائیں گے۔

مسلمانوں میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ عورت کو طلاق دینے کے لئے مرد کو کوئی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ شوہر جب چاہے اور جس لئے چاہے کھڑے کھڑے بیوی کو اپنی قید زوجیت سے آزاد کرکے اس کے گھر والوں یا سماج کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں شوہر اپنی اس بیوی کو جس کی تمام تر ذمہ داریاں اس پر تھیں اسے محض عدت کے دوران نفقہ دے کر زندگی بھر کے لئے یہ بار سر سے اتار کرپھینک سکتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے وہ شرعی، سماجی غرض ہر طریقے سے حق بجانب ہوگا۔ اس مرحلے پر کئی سوالات کا جنم ہوتا ہے جن کے جوابات جاننے کو جی چاہتا ہے۔ پہلا سوال تو یہی کہ یہ بات درست صحیح کہ اسلام میں شادی ایک کنٹریکٹ کی طرح ہے جو باہمی رضامندی سے سماج کی شہادت میں طے پاتی ہے اور طرفین کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جب نباہ ممکن نہ ہو اس کنٹریکٹ سے الگ ہو جائیں۔ اسی لئے مسلمانوں میں طلاق کا نظریہ ہے جو یقیناََ ایک زبردستی کے تعلق کو علیحدگی سے بدلنے کا متبادل فراہم کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک ایسی صورت فرض کریں جس میں ایک خاتون کا اس کے شوہر کے سوا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ماں باپ مر چکے ہیں، رشتے دار اپنے کاروبار حیات میں الجھے ہیں اور نوکری وہ خاتون کر نہیں سکتی ایسے میں اگر اس کا شوہر اس کو طلاق دے دے تو عدت کے بعد اس عورت کے روٹی پانی اور سر پر چھت کا کیا ہوگا؟ کیا محض اس حسن زن پر اس خاتون کو چھوڑ دیا جائے کہ اس کی عدت کا وقت ختم ہونے کے اگلے ہی دن کوئی معقول لڑکا اسے بیاہ کر لے جائے گا؟ یا اگر ایسا لڑکا نہ ملا تو سماج کے مخیر حضرات اس کے خرچے پانی اور تحفظ کا اہتمام کریں گے؟ میرے خیال میں ہمارے سماج میں دونوں ہی امکانات حقیقت سے بہت دور ہیں اس لئے سوال پیدا ہوا کہ اس خاتون کے مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟یہاں پر ایک بات یہ بھی عرض کر دوں کہ میں جس صورت کو فرض کر رہا ہوں وہ کوئی انوکھی کیفیت ہرگز نہیں ہے بلکہ سماج میں ایسے کیس عام طور پر سامنے آتے ہیں۔ میرا اس بات پر ہر ممکن حد تک پختہ یقین ہے کہ ہمارے علما اس شرعی مسئلے سے ضرور واقف ہوں گے جو اس خاتون کے مستقبل کی ضمانت دیتا ہو، ہمارے علما کو اس سلسلہ میں موقف کی وضاحت کرنی چاہئے۔

پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے ایک نئی عادت یہ دیکھی ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارے اندر برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے وہیں اپنے موقف پر بری طرح ڈٹ جانا بھی ہماری روش بنتا جا رہا ہے۔ اس سب پر یہ اور ستم کہ ہم نے بعض چیزوں کو ایسا بنا دیا ہے اور اس بارے میں ہم کچھ بھی کہنے سننے کے روادار نہیں۔ فقہ اسلامی کے بارے میں میری لاکھ لاعلمی کے باوجود میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا ممکن نہیں کہ شریعت نے ہماری فرض کی ہوئی خاتون کو سماج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو، ظاہر ہے اگر ایسا ہے تو ہمارے علما کیوں خاموش ہیں انہیں بتانا چاہئے کہ ہمارے پرسنل لا میں اس سلسلے میں پہلے ہی اہتمام کیا جا چکا ہے۔ اسلام کے بارے میں ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس میں ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا گیا ہے، ظاہر ہے ایسے میں اگر کچھ سوال تشنہ ہیں تو اس میں سوال انہیں پر کھڑا ہوگا جو خود کو اسلامی قوانین کی تفہیم کرنے والا کہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے وہاں ہم اسلامی قوانین کی دہائی دینے لگتے ہیں لیکن جہاں یہی اسلامی قوانین ہم پر ذمہ داریاں ڈالتے ہیں تو ہم ان کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اگر اتنا ہی اسلامی شریعت سے پیار ہے تو کیا اسلام نے خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم نہیں دیا ہے؟ اگر ہاں تو سماج میں کتنی عورتوں کو ماں باپ کی جائداد میں جائز حصہ ملتا ہے؟ اس وقت اسلامی قوانین کہاں چلے جاتے ہیں؟ کیا یہ اس سماج کی حقیقت نہیں کہ بیویوں کو ان کے اسلامی حقوق نہ ہونے کے دیئے جاتے ہیں؟ کیا اسلام نے یہ نہیں بتایا کہ بیوی کو مہر کی نقد ادائیگی کی جائے؟ کیا اسلام میں جہیز کی کہیں گنجائش ہے؟ کیا اسلام نے یہ نہیں کہا کہ عورت کے تیار غذا، سلے سلائے کپڑے، رہنے کو مکان اور اگر وہ مطالبہ کرے تو بچوں کی دودھ پلائی تک کی اجرت اسے دینا فرض ہے؟ اگر ہاں تو ہم میں سے کتنوں نے اسے مانا؟ اگر نہیں مانا تو کس منہ سے اسلامی قانون کی آڑ لے کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم عدت کے بعد نفقہ نہیں دیں گے کیوں کہ اسلام میں ایسا قانون نہیں ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments