عورت اور پاکستانی معاشرہ


عورت کو ازل سے مرد استحصال کا شکار بنا رہا ہے۔ اس تاریخ پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو کہیں مرد عورت پر حاوی دکھائی دیتا ہے تو کہیں عورت مرد پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل وجہ طاقت اور کمزوری ہے اور اس آفاقی حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ طاقتور کمزور پر ہمیشہ سبقت رکھتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں عورتیں ہر سطح پر خود کو مردوں سے برتر ثابت کر چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ کی سابق سیکریٹری خارجہ کونڈو لیزا رائس، سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی سیکریٹر ی مونیکا لیونسکی، جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکر طاقتور خواتین کی چند نمایاں مثالیں ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور جراتوں سے خود کو منوا کر ثابت کیا ہے کہ وہ مردوں سے کم نہیں ہیں۔

نیشنل جیو گرافک چینل پر چلنے والی ڈاکیومینٹریز بھی ثبوت ہیں کہ عورت سمندر وں، غاروں کی اتھاہ گہرائیوں، گھنے، پُر خطر جنگلات، لق و دق صحراؤں، میدانوں، آسمان کی بلندیوں، تعلیم، تربیت، ادب، صحت، کھیل، انسانی خدمت، فن، اداکاری، درس و تدریس، تحقیق، تسخیرِخلا، جنگ غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر خود کو مرد سے برتر ثابت کر چکی ہے اور کامیابیوں کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ تمام صورتحال ترقی یافتہ ممالک کی ہیں اور ایسا اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ وہاں کی ریاستوں نے عورت کو انسان سمجھا اور مرد و عورت میں کوئی امتیاز نہ کرتے ہوئے خواتین کو اُن کے حقوق بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل فراہم کیے جس کی وجہ سے اُن معاشروں میں عورت با اختیار ہوئی اور وہ ترقی یافتہ ممالک بن گئے۔ اس کے برعکس جن معاشروں نے مرد و عورت کی تفریق رکھتے ہوئے عورتوں کو اُن کے حقوق سے محروم رکھاوہاں عورت کمزور رہی اور وہ معاشرے ترقی پذیر ہیں جس کی ایک چشم کشا مثال پاکستانی معاشرہ ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2020 ء کے مطابق عورتوں کو حقوق دینے کے حوالے سے دنیا کے 153 ممالک میں پاکستان 151 ویں نمبر پر ہے جو انتہائی افسوس کا مقام اور لمحہ فکریہ ہے۔

ایک انسان کی حیثیت سے ہر مرد غیر جانبدار ہو کر اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالے تووہ مندرجہ بالا رپورٹ کے درست ہونے کاقائل ہو جائے گا کیوں کہ اُسے معاشرے میں عورتوں کی اکثریت کسی وڈیرے یا جاگیردار کی نجی قید، کسی جج کے چیمبر، کسی جلسے میں شرکت کے دوران یا پھراُس جلسے میں کوریج کرتے ہوئے ظلم و زیادتی کا شکار دکھائی دے گی، کہیں تعلیم، صحت، انصاف اور اظہارِ رائے کی آزادی سے محروم تو کہیں کاروکاری، زنا بالجبر، جبری مشقت، تیزاب گردی، گھروں میں مجبوراً بارہ بچے پیدا کرتے، وراثت کے جائز حق سے محروم ہوتے، شوہر کے ہاتھوں حکم عدولی کی پاداش میں سفاکی سے مار کھاتے، طلاق ملتے، حلالہ کا غلط استعمال کرنے والوں کے ہاتھوں مسلتے، مجبوراً خلع حاصل کرتے، ذہنی تشدد کا نشانہ بنتے، اسکول، کالج، یونی ورسٹی، دفتروں، گھروں میں مردوں کی ہوس ناک نگاہوں اور غیر اخلاقی حرکات کا نشانہ بنتے، اغوا کاروں کے ہاتھوں ریپ اور اس کے بعد مجبوراً جسم فروشی کرتے، بھیک مانگتے اور دیگر بھیانک مظالم کی بھینٹ چڑھتی نظر آئے گی جو درحقیقت اُن شیطانی عناصر کی سوچ و عمل کا تسلسل ہے جو 1400 سال قبل بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔

آٹھ مارچ عالمی یومِ خوا تین سے قبل ایک نعرے پر جو غُلغُلہ چند عناصر نے میڈیا اور سوشل میڈیاپر مچاکر پھیلایا کیا انہوں نے کبھی اس حوالے سے بھی واویلا مچایا کہ ”وہ لڑکیاں جو طوائفوں کے گھروں میں جنم لیتی ہیں اور غیر اخلاقی فعل میں ملوث نہیں ہونا چاہتیں اس دلدل سے نکال کر باعزت زندگی گزارنے جو اُن کا بھی حق ہے اُنہیں کیسے دی جاسکتی ہے؟ ، ایسی عورتیں جنہیں اغوا کر کے فروخت کیا جاتا ہے اور پھر جبراً جسم فروشی اور بھیک مانگنے پر مجبور کیاجاتا ہے اُنہیں اس عذاب سے نجات دلا کر آزادی اور عزت کی زندگی دوبارہ کس طرح دی جاسکتی ہے؟

، ملک میں سُرعت سے پھیلتی کورونا وائرس سے بھی خطرناک مصنوعی بے مُہار مہنگائی کی وجہ سے جو عورتیں اپنا گھر چلانے کے لئے مجبوراً سڑکوں پر آرہی ہیں اُن کی عزت دار زندگیاں کیسے محفوظ رکھی جاسکتی ہے؟ عورتوں کو درپیش تمام خراب صورتِ حال کے ذمہ داران کون ہیں؟ نہیں۔ یہ چند استحصالی افراد کبھی بھی اس طرح کے سوالات نہیں اُٹھا ئیں گے۔ ان کی اصلیت تو یہ ہے کہ یہ کسی بھی بات کو لے کر اس قدر بھرپور لغو اور غلیظ

پروپیگنڈہ بالخصوص میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلا کر شعور حاصل کرنے کی ان جگہوں کو نقار خانے میں تبدیل کر کے عوام کا ذہن اصل بات سے ہٹا کر بھٹکا دیتے ہیں تاکہ لوگ اصل بات سمجھ نہ سکیں اور یہ مرد و عورت کو تقسیم رکھ کر اپنی دُکانیں چمکاتے رہیں۔

جہالت سے اٹے ہمارے معاشرے میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بے نظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، خدیجہ مستور، ہاجرہ مستور، الطاف فاطمہ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض و دیگر باشعور، باہمت، ذہین اور جرات مند خواتین نے اپنی صلاحیتوں اور کردار سے نہ صرف خود کو مردوں سے برتر ثابت کیا ہے بل کہ عورتوں کو حقوق دلانے کے لئے ظلم کے اس سماج میں قربانیوں کی وہ عظیم داستانیں رقم کی ہیں جو آج کی عورت کے لئے قابلِ تقلید ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی۔

دنیا میں عورت کو پہلی مرتبہ کوٹھے پر بٹھانے کا ذمہ داربھی مرد ہی ہے، جسم فروشی کو دنیا کا قدیم پیشہ کہا جاتا ہے اس کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہے، عورتوں کو بازار میں بے لباس کر کے نیلام کیا جاتا تھا اس کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہے، درس گا ہوں، مقدس مقامات، عدالتوں اور اسپتالوں میں معلم، منصف اور مسیحا کے روپ میں عورت کی عزت تار تار کرنے کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہے، عورت کو محبت اور وفا کے فریب میں پھنسا کر اُس کی زندگی تباہ کرنے کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہے، ایک مرد سو سو عورتوں سے شادیاں کرتا ہے لیکن اگر عورت کہے میرا جسم میری مرضی تو اُس پر تہلکہ مچ جاتا ہے۔

”میرا جسم۔ میری مرضی“ نعرہ ہمارے زوال پذیرمعاشرے میں ایڈوانس ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا ہے کہ مردکی طرح عورت کی زندگی پر عورت ہی کا اپنا اختیار ہونا چاہیے۔ عورت مارچ کے مطالبات خواتین کا حق ہیں اگر کسی کو ان پر اعتراض ہے تو مکالمے کے صحت مند عمل کے ذریعے انہیں قائل کیا جانا چاہیے نہ کہ کسی بھی عورت کی تذلیل کر کے کیوں کہ اس طرح معاملات سُلجھنے کے بجائے مزید اُلجھتے چلے جاتے ہیں اور معاشرہ انتشار کا شکار ہو کر زوال کی جانب گامزن رہتا ہے۔

یاد رہے صرف عالمی یومِ خواتین بھر پور طریقے سے منا نے سے خواتین کو اُن کے حقوق نہیں مل سکتے یہ ایک جہدِ مسلسل ہے جو انہیں اس دن کی طرح بھرپور طریقے سے اپنے اذہان بیدار رکھ کر مسلسل کرتے رہنا ہوگی اور اس امر کا خصوصی دھیان رکھنا ہوگا کہ کہیں اُن کی مشترکہ جدوجہد کو چند شخصیات اپنے ذاتی مفادات کے لیے تو استعمال نہیں کر رہی ہیں تب کہیں جا کر ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments