شائی لاک کا قرض: پش اپس یا ڈیڑھ چھٹانک دماغ؟


 \"husnainطے ہو چکا کہ تشدد مسئلے کا حل نہیں ہے، مان لیا کہ مارپیٹ سے کبھی آواز نہیں دبائی جا سکتی، تسلیم کہ ریاستی ظلم و ستم ہمیشہ کلنک کا ٹیکہ ہی ثابت ہوتا ہے، قبول کیا کہ احتجاج عوام کا حق ہے، صد اتفاق کہ جمہوریت کا حسن آزادی اظہار ہے، کوئی دوسری رائے نہیں کہ طاقت کا بے دریغ استعمال ہمیشہ بڑی تباہی کو جنم دیتا ہے، صاد کیا کہ آئین میں پرامن احتجاج کی ضمانت موجود ہے!

لیکن وہی فہم جو تشدد کو مسئلے کا حل قرار نہیں دیتا، وہی سوال کرتا ہے کہ عمران خان نے ووٹ آف نو کانفیڈنس کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ وہی عقل جو کہتی ہے کہ مارپیٹ سے کبھی آواز نہیں دبائی جا سکتی، وہی سوال کرتی ہے کہ آواز اور بد تہذیب للکار میں فرق کون کرے گا؟ وہی دماغ جو ریاستی ظلم و ستم کو تاریخی طور پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوتے دیکھتا ہے، پوچھتا ہے کہ جب ایک راہنما مسلسل دھمکی آمیز لہجوں اور نفرتوں کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہا ہو تو اسے کیسے لگام دی جائے؟ وہ آئینی بصارت جو قبول کرتی ہے کہ پرامن احتجاج عوام کا حق ہے، وہی ڈھونڈتی نظر آتی ہے کہ شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کے دعوے میں امن کہاں ہے؟ وہی جمہوریت جس کا حسن آزادی اظہار ہے، وہی پوچھتی پھرتی ہے کہ وزیر اعظم بننے کی جمہوری شاہ راہ کون سی ہے؟ وہ آنکھ جو طاقت کے بے دریغ استعمال میں بڑی تباہی پنہاں دیکھتی ہے، وہی آنکھ دیکھتی ہے کہ پچھلے دھرنے میں یہ سب نہیں ہوا تو ملک کب تک مفلوج رہا اور کیا معاشی نقصانات ہوئے؟ اور جو شعور صاد کرتا ہے کہ پرامن احتجاج ایک شہری کا آئینی حق ہے، وہی شعور دہائیاں دیتا پھرتا ہے کہ پرامن احتجاج ہو کہاں رہا ہے؟

عمران خان اپنے حالیہ بیان میں خود اپنے کارکنوں کو مجاہد کا خطاب دے چکے، ٹی وی پر پش اپس لگا چکے، اوئے جسٹس شوکت عزیز کی آواز لگا چکے، دونوں \"imran-khan-pushup\"بھائیوں کے منافق ہونے کا فتوی جاری کر چکے، پرویز خٹک صحافیوں تک سے گالم گلوچ کر چکے، تین برس سے ایک مسلسل جنگ کا ماحول گرم ہے، حکومت معاملہ فہمی سے کام لیتی رہی، پرانے دھرنے والوں کی باقاعدہ مہمان نوازی تک کی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی موت آپ ختم ہوا۔ اب سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے کہ نواز حکومت دھاندلی سے نہیں آئی تو نئے سال کا نیا دھرنا پانامہ لیکس کے نام پر ہونا قرار پاتا ہے۔ اگر جرم کا پیمانہ یہ ہے کہ بیرون ملک کمپنیاں گنی جائیں تو اس کے مطابق خود عمران خان اور ان کے ساتھی بھی الزام کی زد میں آتے ہیں اور الزامات ثابت ہوتے ہیں۔ اگر یہ دعوی ہے کہ جو ہم کریں وہ جرم نہیں اور جو آپ کریں وہ جرم کے علاوہ کچھ نہیں تو یہ خود پسندی کی ایک علامت تو ہو سکتا ہے اور اس پر درگزر بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس زعم میں رہتے ہوئے قوم کے بچوں کو سڑک پر لے آنا اور انہیں اس حد تک مشتعل کر دینا کہ وہ ریاستی اداروں سے ٹکرا جائیں، کسی طور قابل معافی نہیں۔

وزیر اعظم بننے کا آئینی طریقہ ہماری قوم کا ہر بچہ ہوش سنبھالنے کے بعد جان لیتا ہے، جو ہماری عمر کے ہیں وہ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم ہٹانے کے غیر آئینی طریقے کون سے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس کس موقع پر کس کس انگلی کے اشارے پر کیا کیا کھیل کھیلے گئے، وہ جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں کیا کیا کچھ نہ ہوا اور پھر کیا ایسا ہوا جو میثاق جمہوریت پر منتج ہوا۔ پیپلز پارٹی کو یہ عقل اپنے تمام بھٹو گنوانے کے بعد آئی، شریف فیملی کسی بڑے نقصان سے بچی رہی لیکن پے در پے حکومتیں تڑوانے اور جلا وطنیوں کے بعد وہ بھی جان گئے کہ سسٹم کو بہتر کرنا صرف سسٹم میں موجود رہ کر ہی ممکن ہو سکتا ہے، کسی اور کو لگامیں تھمائی جائیں گی تو تانگہ وہیں جائے گا جہاں چلانے والے کی نیت ہو گی۔

اس وقت پرویز خٹک، خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی اپنی پارٹی کے تمام نوجوانوں کو لیے اسلام آباد کی سمت رواں دواں ہیں۔ انہیں روکنے کی کوشش کی گئی، شیلنگ ہوئی، ریاستی اداروں کی طرف سے پوری طاقت استعمال کی گئی اور کچھ دیر کے لیے قافلے رک گئے۔ بیان دیتے ہیں کہ پیچھے سے ابھی اور تازہ دم لوگ آ رہے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ایسا کیا اعلی و ارفع مقصد ہے جس کے لیے آپ اسمبلیوں سے باہر اپنے تمام تر سرکاری وسائل بروئے کار لا کر بغاوت پر اترے ہوئے ہیں؟ فرض کیا کہ چار پانچ روز خوب ہنگامہ ہوتا ہے، پورے ملک میں شدید بدامنی ہوتی ہے، خاکم بدہن جانی نقصان بھی ہو جاتا ہے، حکومت پر اخلاقی بوجھ بڑھ جاتا ہے اور اس \"Theکے بعد فوج آ جاتی ہے۔ فوج آ گئی، اب کیا وہ عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیں گے؟ ہرگز نہیں، کیا وہ کچھ عرصے بعد انتخاب کروا دیں گے؟ اگر کروا بھی دئیے تو آپ پھر بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، زمینی حقائق نوشتہ دیوار ہیں۔ فرض کیجیے نواز شریف استعفی دے دیتے ہیں، اگلا وزیر اعظم کہاں سے ہو گا؟ اسی نون لیگ سے، وہ کس کی پالیسی کو آگے بڑھائے گا؟ اسی نواز شریف کی، آپ کا مقصد پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ اگر یہ تصور کر لیں کہ نون لیگ آپ کے اس دھرنے کے بعد ایسی تباہ و برباد ہوتی ہے کہ اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے، آپ کی خواہش کے عین مطابق کوئی خدائی قہر ٹوٹتا ہے اور سب کو الیکشنز کے لیے ڈس کوالیفائی کر دیتا ہے، تب بھی، اے عظیم المرتبت راہنما تب بھی بلاول زرداری اور ان کی پارٹی آپ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کو موجود ہوں گے، پندرہ قسم کی مسلم لیگیں مزید بن جائیں گی جو ایک ایک سیٹ بھی لے جائیں تو آپ کی وزارت عظمٰی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گی۔

اقتدار کی خواہش ہر سیاست دان کا حق ہے لیکن دروں بین سیاست یہ سکھاتی ہے کہ اگر کارکن جو تعداد میں ڈیڑھ سو بھی نہ ہوں اور آپ کے دروازے پر تین دن سے

سردی میں پڑے ہوں تو آپ اپنے تین سو کنال سے زیادہ بڑے مکان کا دروازہ کھول دیں اور انہیں باعزت طور سے اپنے پاس رکھیں۔ یہ نہیں ممکن تو سیاست یہ سکھاتی ہے کہ دن میں تین وقت اپنے چاہنے والوں کو درشن دینے کے بجائے آپ انہیں کے ساتھ رضائی ڈال کر پڑ جائیں اور دھرنے کا آغاز انہیں مظلوموں کے ساتھ کر دیں جو بے یار و مددگار آپ کے چکر میں خوار ہوتے جاتے ہیں۔ سیاست ہرگز ورزش کرنے اور اٹھک بیٹھک لگانے کا نام نہیں ہے۔ آپ میں جسمانی طاقت اپنی عمر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے، آپ کے اعصاب بہت مضبوط ہیں، آپ کا سٹیمنا بہت زیادہ ہے، آپ سو پش اپس لگا سکتے ہیں، آپ پانچ سو کرنچز کرتے ہیں، آپ دو گھنٹے ٹریڈ مل پر دوڑتے ہیں، آپ دس کلومیٹر رننگ کرتے ہیں، آپ جوانوں کی طرح فٹ ہیں، بلکہ جوان ہیں، یہ سب وظیفے آپ کو دوبدو ہونے والا دنگل جتوا سکتے ہیں، سیاست مگر ڈیڑھ چھٹانک کا دماغ مانگتی ہے۔

وہ دماغ جو نفرتوں سے پاک ہو۔ وہ دماغ جو کم از کم ججوں کو اپنا دشمن نہ سمجھتا ہو۔ وہ دماغ جو معاصر سیاست دانوں کی عزت کرنا جانتا ہو۔ وہ دماغ جو غریب کی \"shyl\"اولاد کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھ سکے۔ وہ دماغ جس میں آئین اور جمہور کے سبق موجود ہوں۔ وہ دماغ جو بات بات پر اسمبلیوں سے نکلنے کے بہانے نہ ڈھونڈے۔ وہ دماغ جو شہر بند کرنے کے بجائے سیاسی طور پر راستے بند کرنا جانتا ہو۔ وہ دماغ جو یہ فیصلہ کرنے کی قوت رکھتا ہو کہ کرپشن بڑا مسئلہ ہے یا دہشت گردی اور وہ دماغ جو یہ جانتا ہو کہ وزارت عظمٰی ایک جمہوری اور آئینی راستے پر عمر گلا دینے کے بعد ملتی ہے، سڑکوں پر، پرائے بچوں کے کاندھوں پر رکھ کر چلائی گئی بندوقوں کا نشانہ کبھی ٹھیک نہیں بیٹھتا۔

شیکسپئیر کے ایک ڈرامے کی مختصر ترین کہانی یہ ہے کہ ایک قرض لیا گیا، معاہدہ ہوا کہ قرض واپس نہ کیا گیا تو شائی لاک، قرض دینے والا، ایک پاؤنڈ گوشت کا ٹکڑا قرض لینے والے کے جسم سے کاٹ لے گا۔ وقت آ گیا، پیسے نہ ملے تو شائی لاک عدالت گیا، اتنی دیر میں قرض لینے والا رقم کا بندوبست کر چکا تھا اور لیے گئے قرض سے دگنی رقم دینے کو تیار تھا، لیکن شائی لاک کو اس سے پرانے بدلے بھی چکانے تھے، وہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اسے صرف گوشت، ایک پاؤنڈ گوشت کا ٹکڑا چاہئیے تھا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ تم گوشت کاٹ سکتے ہو، تمہارا قرض خواہ سامنے کھڑا ہے لیکن ۔۔۔ لیکن تم جہاں سے بھی گوشت کاٹو، شرط یہ ہے کہ خون نہ بہے، ایک قطرہ بھی خون کا باہر نہیں آنا چاہئیے، معاہدہ گوشت کا ہوا ہے خون بہانے کا نہیں ہوا۔ شائی لاک ہار گیا۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ چار سو برس پہلے کا ایک کردار تھا۔ ہمارے شائی لاک صرف گوشت ہی نہیں مانگتے، خون بہانے پر بھی مصر ہیں۔ عدالت جو مرضی کہتی رہے، اسے تو ایک اوئے کہہ کر دبکایا جا سکتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments