کورونا وائرس:  قہر الہیٰ یا اللہ کی  ’بے بسی‘ کا ثبوت


پاکستان میں ایک دن میں کورونا وائرس کا شکار لوگوں کی تعداد دو گنا ہوگئی ہے۔ حکومتی اطلاعات کے مطابق اس وقت 53 افراد اس وبائی مرض کا شکار ہیں۔ آنے والے دنوں میں صورت حال خراب ہوسکتی ہے۔  سندھ حکومت نے فی الوقت اس وبا کی روک تھام کے لئے اپنے وسائل کے اعتبار سے قابل قدر  اقدامات کئے ہیں لیکن اگر یہ وبا پھیلتی ہے اور بڑی تعداد میں لوگ   کووڈ۔19 نام کے اس وائرس کا شکار ہوتے ہیں تو سندھ ہی نہیں باقی صوبوں کی حکومتوں کو بھی ناقابل  یقین مشکل صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس وقت یورپ اس وبا کا مرکز ہے۔ یورپی ممالک نے خود بھی  اور دیگر ممالک نے بھی   یورپی ملکوں سے آمد و رفت پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں اور حکومتیں اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے کثیر وسائل فراہم کررہی ہیں۔  ناروے کی حکومت نے کورونا  کے طبی اور معاشی پہلوؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے دس ارب ڈالر سے زائد  رقم  مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پچاس لاکھ آبادی کے اس چھوٹے سے ملک میں اس مرض کا شکار لوگوں کی تعداد اس وقت ساڑھے بارہ سو کے لگ بھگ ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہا  ہے۔  اس چھوٹے ملک میں حکومت کے   عملی اور مالی اقدامات کی نوعیت  سے  اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے  دنیا کو کس قدر سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔  چھوٹی آبادیوں اور کثیر وسائل والے یورپی ممالک یا امریکہ کے لئے  وسائل فراہم کرنے کی حد تک   اس چیلنج سے نمٹنا مشکل نہیں ہوگا۔  اسی طرح تیل و گیس کی دولت سے مالامال عرب ممالک کو بھی  وسائل اور انتظامی اقدامات کے حوالے سے کسی بڑی دقت کا سامنا نہیں ہے ۔ تاہم  پاکستان سمیت  متعدد ایشیائی ممالک کے لئے  اس   وائرس  کے پھیلاؤ   کے علاوہ  اس کے علاج اور اس بحران سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔  اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے  غور و فکر کے علاوہ فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ نقصان ہونے سے پہلے  وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور  عوام کو خود حفاظتی کے نقطہ نظر سے  تیار کیاجاسکے۔

پاکستان  کی وفاقی حکومت اس بحران میں قوم کی قیادت کرنے اور   سیاسی جماعتوں، میڈیا اور عوام کو ہر سطح پر ساتھ ملا کر  درپیش خطرہ سے نمٹنے کے کام کا آغاز کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی۔  اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستانی حکام اس مسئلہ کو ابھی تک ’دوسروں‘ کا  مسئلہ سمجھ کر یہ قیاس کررہے ہیں کہ پاکستان اس آفت سے بڑی حد تک محفوظ رہے گا۔  یہ  گمان  ان معلومات کی بنیاد پر استوار ہوسکتا ہے کہ  دنیا میں اگرچہ اس کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور مرنے والوں کی تعداد  6  ہزارسے تجاوز کرگئی ہے  لیکن پاکستان میں ابھی تک اس کے صرف 53 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں بھی نصف سے زائد صوبہ سندھ میں پائے گئے ہیں۔   سرکاری حلقوں میں یہ سوچ موجود ہوسکتی ہے کہ اس تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوگا۔ شاید اسی وجہ سے معاملہ پر   کسی بڑی پریشانی کا اظہار بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

یہ امید  کی جاسکتی ہے کہ  حکمرانوں کا یہ قیاس درست ہو اور پاکستان کورونا وائرس کی شدت سے محفوظ رہے۔ لیکن ایک ذمہ دار حکومت اور قوم کے طور پر  پاکستان  کو  بہترین  کی امید کرتے ہوئے بدترین کی تیاری کرنی چاہئے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کثیر وسائل فراہم کرکے اپنے شہریوں کو سہولت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان بوجوہ وائرس سے نمٹنے کے لئے بہت زیادہ  مالی  وسائل فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لئے  پیش بندی کے لئے ابھی سے تیاری  اور ایسے اقدامات کرنا اہم ہے جن پر بہت زیادہ وسائل بھی صرف نہ ہوں اور اس وائرس کے پھیلاؤ کو بھی روکا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو  خود توصیفی  اور اپنی عقل  پر اندھا اعتماد کرنے کی بجائے، اجتماعی دانش کو بروئے کار  لانے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہوسکتا ہے  جہاں ایسے بحران میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکالمہ  کے ذریعے بہتر راستہ تلاش کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے یہ راستہ مسدود کیا جاچکا ہے۔ قومی اسمبلی یا سینیٹ کا اجلاس ایک دوسرے پر الزام تراشی اور عدم اعتماد کے اظہار کا پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ذاتی انا   کا اسیر  رہنے کی بجائے قومی لیڈر  ہونے کا ثبوت دیں۔ انہیں فوری طور پر اپوزیشن کے تمام  پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات کرکے یہ واضح کرنا چاہئے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران میں پوری قوم اور اس کی قیادت ہم قدم ہے۔ اور تمام فیصلے باہمی مشاورت اور سوچ سمجھ کر کئے جارہے ہیں۔     بحران   جس تیزی سے بڑھ رہا ہے ،  حکومت کی طرف سے ویسی مستعدی دکھائی نہیں دیتی۔ اسے اب بھی یہی لگتا ہے کہ یہ طوفان  ٹل جائے گا۔ بعض اقات تو یوں بھی محسوس ہونے لگتا ہے  کہ  تحریک انصاف کی حکومت اسی پر ’مطمئن‘ ہے کہ کورونا  وائرس کی وجہ سے  میڈیا اور عوام کی توجہ  اس بیماری اور اس کے  اثرات   پر مبذول  ہو گئی ہے اور حکومت کی ناقص  کارکردگی اور طرز  حکمرانی پر زیاددہ بات نہیں ہوتی۔ تاہم یہ طریقہ طوفان سامنے دیکھ کر آنکھیں بند  کرلینے جیسا ہوگا۔ مسائل کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر نہ دیکھنے سے  کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح  حکومت  کو  ’شاندار کامیابی اور گھبرانا نہیں ہے ‘  جیسے نعروں کے سحر سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔  کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اب تک  اگر  پاکستان کی کارکردگی  شاندار رہی ہے تو اس کا کریڈٹ سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو دینا چاہئے۔  اس کے برعکس وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے  سارک سربراہوں کی ویڈیو کانفرنس میں  عالمی ادارہ صحت کے نمائیندے کی توصیف کا حوالہ دیتے ہوئے  یہ دعویٰ کرنا ضروری سمجھا کہ پاکستان مؤثر اقدامات کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست  مان بھی  لیا جائے تو  بھی اس حقیقت سے  انکار ممکن نہیں کہ پاکستان  میں ابھی تک اس وائرس  کا پھیلاؤ شروع نہیں ہؤا اور محض چند سو لوگوں کو ہی آئسولیشن میں رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چین اور  یورپ میں اس وائرس  کی رفتار  کو  پیش نظر رکھا جائے تو یہ اندیشہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ پاکستان میں حالات بہت خراب ہوسکتے ہیں۔

سارک ممالک کے  لیڈروں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر ویڈیو کانفرنس میں  وائرس کی روک تھام کے لئے مشاورت کا فیصلہ کیا تھا۔ گزشتہ روز پاکستان نے بھی اس دعوت کو قبول کرلیا تھا لیکن بھارت کے ساتھ  دشمنی کی صورت حال میں  وزیر اعظم عمران خان  نے خود اس  ویڈیو کانفرنس میں شریک ہونے کی بجائے اپنے معاون خصوصی کو بات کرنے پر مامور کیا۔  باقی ماندہ سارک ملکوں کے وزرائے اعظم یا صدور نے  ویڈیو کانفرنس میں شرکت کی جبکہ پاکستان کی نمائیندگی وزیر سے بھی کم درجے کے شخص نے کی۔  سفارتی لحاظ سے پوائینٹ اسکورنگ کے اس موقع کو عمران خان نے خود ہی گنوا دیا۔  مودی سمیت سب لیڈروں نے  کورونا  کا پھیلاؤ روکنے کے  اقدامات کی بات کی اور مشورے دیے جبکہ  ڈاکٹر ظفر مرز ا نے  مقبوضہ کشمیر  میں لاک ڈاؤن کو اس معاملہ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ دیگر شرکا نے اس بات کو کوئی اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس ویڈیو کانفرنس میں اگر کشمیر کا معاملہ اٹھانا ہی مقصود تھا تو وزیر اعظم کو یہ کام خود کرنا چاہئے تھا۔

بھارتی وزیر اعظم   نے وائرس سے نمٹنے کے لئے  سارک فنڈ قائم  کرنے کی تجویز دی اور اس  کے  لئے 10 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے طبی ماہرین کی خد مات مہیا کرنے کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے  وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے سارک کا مشترکہ انسٹی ٹیوٹ بنانے اور اسے ڈھاکہ میں قائم کرنے کی تجویز  دی۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے کشمیر کے لاک ڈاؤن کے علاوہ مشترکہ کوششوں کا ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا۔   وائرس  کی موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے یہ ویڈیو کانفرنس خاص معاون نہیں ہوسکتی لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے اگر  اس کانفرنس کی تجویز اپنی سیاسی قیادت اور سفارتی  مہارت منوانے کے لئے  دی تھی تو وہ بلاشبہ اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کی غیر حاضری کی وجہ سے پاکستان  کی حیثیت خاموش تماشائی  سے زیادہ نہیں تھی۔

کووڈ۔19 سے  نمٹنے کے لئے پاکستان کے پاس سب سے مؤثر ذریعہ عوام  کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرکے انہیں اپنی مدد آپ   کے ذریعے اس وبا  کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ حکومت کی  عدم دلچسپی اور سست روی کی وجہ سے یہ کام ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ اس کی بجائے  یا تو کورونا وائرس کے  بارے میں لطیفے گھڑے جارہے ہیں  یا اسے خدا کا عذاب قرار دے کر دعاؤں اور وظیفوں سے اس کا علاج کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔  ایک طرف ایسے عناصر موجود ہیں جو مساجد بند ہونے کو قہر الہیٰ قرار دے کر توبہ استغفار کا مشورہ دے رہے ہیں تو اس کے برعکس ایسے گروہ بھی  ہیں  جو سوشل میڈیا کی ساری طاقت کو یہ سوال اٹھانے پر صرف کررہے ہیں  کہ کورونا نے نعوذ  باللہ، اللہ کو بھی ’مجبور‘ کردیا ہے۔ یہ دونوں انتہائی  طرز عمل ہیں اور ان میں سے کوئی بھی قوم کو اس وائرس کی تباہ کاری سے بچا نہیں سکتا۔

مسلمان کے طور پر کورونا وائرس کو اللہ کا عذاب  اور ناراضگی کی وجہ بتانے والوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ یہ اللہ کا کرم اور مہربانی ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جب سائنس  کسی بھی  وبا کی وجوہات کا سراغ لگا کر اس کا علاج تلاش کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ چند دہائیاں یا صدیاں پہلے تو ایسی وبا  لاکھوں یا کروڑوں لوگوں  کو نگل جاتی تھی لیکن  نہ تو وجوہات کا پتہ چلتا تھا  اور نہ ہی ان کا علاج کیا جاسکتا تھا۔

عوامی آگاہی و شعور کا یہ کام حکومت کی توجہ اور کوشش سے ہی شروع ہوسکتا ہے۔  تاہم اس کے لئے حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں  کووڈ۔19  کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام سرکاری اداروں اور سیاسی قیادت کو متحرک ہونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments