وبا کے دنوں میں افسانے


ایک محبت سو افسانے، بہت مرتبہ سنا تھا۔ اسی طرح ایک مرض سو افسانے بھی تو ہوسکتا ہے۔ ان دنوں کرونا وائرس کی پیدا کردہ بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کرگئی ہے اور عالم گیر خطرہ بن گئی ہے، اس بیماری کے پھیلائو پر مجھے افسانے یاد آنے لگے۔ صحت بھی افسانہ ہے اور مرض بھی، زندگی بھی اور موت بھی۔ شاید بقا بھی افسانہ ہے اور اسی طرح فنا بھی۔ بیماری بجائے خود ایک زندہ حقیقت ہے، اندیشوں سے بھری ہوئی اور ہلاکت خیز۔ ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک جا پہنچی اور لاکھوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسی بیماری سے بہت بڑے پیمانے پر یہ خطرہ لاحق ہورہا ہے کہ لاکھوں انسانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر افسانہ نہ بنا ڈالے۔ ہم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں کہ اس مرگِ انبوہ سے پہلے یہ بیماری خود افسانہ بن کر رہ جائے۔ کاش، یہ کہانی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے انجام کو پہنچ جائے۔

مرض کے قصّے یوں تو ہزار طرح کے ہوسکتے ہیں لیکن بیماری کی زد میں آئی ہوئی بستیوں، بحران میں مبتلا خاندانوں، اخلاقی زوال اور نجات کے مراحل سے جُڑے ہوئے قصّے جب دھیان میں آنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے جو قصہ مجھے یاد آتا ہے، اس کے ابتدائی الفاظ ذہن میں چکاچوند سی مچا دیتے ہیں کہ ان میں محاورہ بھی ہے اور بچائو کے لیے دعا بھی۔ وہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے__

’’اب سے دور ایک سال دہلی میں ہیضے کا اتنا زور ہوا کہ ایک حکیم بقا کے کوچے سے ہر روز تیس چالیس چالیس آدمی چھیجنے لگے۔۔۔۔‘‘

ارے واہ، یہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’توبۃ النصوح‘‘ کا پہلا فقرہ ہے۔ کس روانی سے نقشہ کھینچتا چلا جاتا ہے__

’’ایک بازار موت تک البتہ گرم تھا ورنہ جدھر جائو سناٹا اور ویرانی۔ جس طرف نگاہ کرو، وحشت و پریشانی۔ جن بازاروں میں آدھی آدھی رات تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا ایسے اُجڑے پڑے تھے کہ دن دوپہر جاتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا۔ کٹوروں کی جھنکار موقوف۔ سودے والوں کی پکار بند۔ ملنا جلنا اختلاط و ملاقات، آمد و شُد، بیمار پُرسی و عیادت، باز دید و زیارت۔ مہمان نوازی و ضیافت کُل رسمیں لوگوں نے اٹھا دیں۔۔۔‘‘

ذکر ہے بیماری سے اُجڑتے ہوئے شہر کا لیکن بیماری کے بیان میں روانی ہے کہ پڑھتے ہی چلے جائو۔ شہر کے کوچہ و بازار سے پھر وہ افراد کا ذکر کرتے ہیں کہ شہر پر جو گزری سو گزری، فرد پر کیا گزر رہی ہے۔ بیان اس طرح بڑھ رہا ہے کہ اگلے چند فقرے آج کا نقشہ معلوم ہوتے ہیں:

’’غرض کچھ اس طرح کی عالم گیر وبا تھی کہ گھر گھر اس کا رونا پڑا تھا۔ دو پونے دو مہینے کے قریب وہ آفت شہر میں رہی مگر اتنے دنوں میں شہر کچھ ادھیا سا گیا۔ صدہا عورتیں بیوہ ہو گئیں، ہزاروں بچے یتیم بن گئے، جس سے پوچھو شکایت جس سے سنو فریاد۔۔۔‘‘

اسی ہنگام میں نصوح کے گھرانے کا ذکر ہوتا ہے اور قرینِ قیاس طور پر وہ اس بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ شہر کے اتنے بہت سارے لوگوں کے برخلاف نصوح اس بیماری سے مرتے مرتے بچ جاتا ہے مگر بحران سے گزرنے کے نتیجے میں تبدیل و منقلب ہوکر۔ موت کا قُرب اسے راست کاری کی تلقین کی طرف لے آتا ہے۔ ایک خواب میں پوری دنیا کے نظام کو دیکھنے کے بعد وہ خود بھی بدلتا ہے اور بیوی بچوں کو اپنی راہ پر ڈھالنے کے جتن کرتا ہے مگر بڑا بیٹا کلیم اس کی بات مان کے نہیں دیتا۔ نصوح کلیم کے کمرے میں داخل ہو کر آلاتِ موسیقی اور شاعری کی کتابوں کو مخربِ اخلاق قرار دے کر پھونک ڈالتا ہے، راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیتا ہے۔ اس بات پر ناراض ہو کر کلیم گھر سے نکلتا ہے اور مرزا ظاہر دار بیگ کے مکان پر جا پہنچتا ہے۔ وہ واقعہ بھی بہت مزے سے بیان میں آیا ہے مگر مایوس و دل گرفتہ کلیم گھر سے بے گھر ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھونے کو تیار ہو گیا ہے۔ ایک خاندان کے اندر برپا کشمکش دراصل سخت اور بے لچک دین داری سے ٹکرائو کا قصہ ہے مگر یہ سارے مضمرات وبا کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ ذرا سوچیے، وبا خاندان اور معاشرے کی کتنی گہرائی میں اُتر گئی ہے اور کیسے مقامات پر سر ابھارتی ہے۔

بہت سی کہانیوں اور بیماریوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک کہانی راستے میں روک لیتی ہے۔ یہ ہے محمد مجیب کی ’’کیمیا گر‘‘۔ اسی نام سے پورا مجموعہ ہے مگر افسانہ نگار سے زیادہ وہ اپنی کتاب روسی ادب کے لیے مشہور ہیں جو اپنے موضوع کو بڑے دلکش اور خیال افروز طریقے سے متعارف کراتی ہے۔ افسانے کے حکیم صاحب بستی چھوڑ کر چلے جانے کے بجائے اپنے پرانے مریضوں کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بیماری کا معالج یہاں بحران کا شکار خود بن گیا ہے مگر اس سے گزر کر اخلاقی بلندی حاصل کرتا ہے۔ اس کی جدوجہد کے سامنے موت بے حیثیت ہوجاتی ہے۔ دل کو چھو لینے والا افسانہ مسز عبدالقادر کا ’’رسیلا‘‘ ہے۔ مسز عبدالقادر خوف ناک فضا بندی کی گاتھک کہانیاں لکھتی تھیں مگر اس کہانی میں بیماری آسیب ہے، بلا ہے مگر محبت اسے شکست دے سکتی ہے۔ مسز عبدالقادر کا انداز اب کسی قدر یک سطحی اور سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن پڑھنے والے ان کو بالکل ہی بھول جائیں، یہ بھی زیادتی ہے۔ ’’رسیلا‘‘ محبت کی فتح مندی کا قصہ ہے اور لوک داستان کی سی تاثیر رکھتا ہے۔

ایک مسیحا صفت حکیم کا حوالہ انتظار حسین کے اہم ناول ’’بستی‘‘ کے آغاز میں آتا ہے۔ ذاکر کائنات کو اس طرح دریافت کررہا ہے اور دیکھ رہا ہے جیسے وہ پہلی بار بنی ہو اور ایسے میں بی اماں کو خبر ملتی ہے کہ چوہے بہت مر رہے ہیں۔ جلد ہی گھروں سے جنازے اٹھنے لگے اور بستی خالی ہونے لگی:

’’جب صبح ہوئی تو بستی کا رنگ ہی اور تھا۔ کوئی کوئی دکان کھلی تھی، باقی سب بند۔ کچھ گھروں میں تالے پڑگئے تھے، کچھ میں پڑرہے تھے۔ کسی گھر کے سامنے بیلی گھڑی تھی۔ کسی گھر کے سامنے اکّا۔ لوگ جا رہے تھے، نگر خالی ہو رہا تھا۔ نگر دونوں طرح خالی ہوا۔ کچھ نگر سے نکل گئے، کچھ دنیا سے گزر گئے۔‘‘

جلد ہی وہ مقام آجاتا ہے جہاں مسیحائی اپنا اعتبار کھو بیٹھتی ہے اور موت ایک اٹل حقیقت بن کر سامنے آن براجتی ہے۔ بی اماں اور دوسرے لوگ حیرت بھی بھول گئے ہیں اور خوف بھی۔

’’اب حیرت ان کی آنکھوں سے رخصت ہوچکی تھی۔ حیرت بھی اور خوف بھی۔ دوسری آنکھوں میں بھی اب نہ حیرت تھی نہ خوف۔ وبا کو جیسے ایک قائم و دائم حقیقت کے طور پر سب نے قبول کر لیا تھا۔۔۔‘‘

میں سوچتا ہوں کہیں یہ ہماری آج کی کیفیت تو نہیں ہے؟ مگر پھر ایسے وقت میں بی اماں کو بشارت ہوتی ہے اور اندازہ ہو جاتا ہے کہ ’’نحوست ماری بیماری ٹل گئی۔‘‘ ان کی بشارت پر سب کو یقین ہے جب کہ ناول کے آخر میں وہ کردار جو ہمارے زمانے کے لوگ ہیں، اس گومگو میں مبتلا ہیں کہ بشارت کا وقت سر پر آن پہنچا۔ بشارت کی جگہ ہم بیماری کی نحوست دیکھ رہے ہیں۔ کب تک دیکھتے رہیں گے؟

انتظار حسین کے ناول میں وبا ماضی کا حصہ ہے اور بشارت کا پیش خیمہ جو معاصر دنیا میں کھو گئی ہے یا دُبدھا میں پڑ گئی ہے۔ وبائی بیماری میں مبتلا شہر کا بڑا نقشہ حسن منظر نے اپنے مختصر ناول ’’وبا‘‘ میں بڑی خوبی کے ساتھ کھینچا ہے۔ کہانی کا مرکز وہ اسپتال ہے جہاں ڈاکٹر اور اسپتال کا عملہ ایک ایک مریض کی جان بچانے کے لیے کوشاں ہیں مگر اسپتال کی اپنی اندرونی زندگی بھی متوازی طور پر چلتی رہتی ہے۔ حسن منظر پیشے کے اعتبار سے معالج ہیں اور کراچی میں وبائی امراض کے اسپتال سے متعلق رہ چکے ہیں۔ وبا کے برسوں بعد انھوں نے اس ناول میں یہ نقشہ کفایت لفظی اور مہارت کے ساتھ کھینچا۔

’’ویسا ہی ایک دن ہے جیسے اسپتال میں سب دن ہوتے ہیں۔۔۔۔‘‘ ناول ان بظاہر سادہ الفاظ سے شروع ہوتا ہے لیکن وہاں کے معمولات کا بیان اس طرف لیے جارہا ہے کہ گزرنے والا دن عام دنوں جیسا نہیں۔ معمولات بدلتے ہیں تو کہانی کے تقریباً وسط میں، مصنّف بیان کار کی آواز میں بول اٹھتا ہے اور اس کے یہ فقرے آج بہت برمحل معلوم ہورہے ہیں__

’’وبا کا پھیلنا کسی شہر کے جنگ کی لپیٹ میں آجانے جیسا ہوتا ہے۔

جب شہر خالی کیا جا رہا ہو اور لوگ گاڑیوں میں اپنے جانوروں، اپنے سروں پر اپنے سامان اور بچوں کو لیے بھاگ رہے ہوں عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آتے ہیں۔۔۔‘‘ مگر وہ ایک منظر کی جھلک دکھاتے ہیں، اجنبی لوگوں کا راہ میں ٹکرانا اور حیران کر جانا۔ اس کے تسلسل میں وہ لکھتے ہیں:

’’وبا جہاں اور تبدیلیاں لاتی ہے ایک دوسرے کے لیے غیرلوگوں کو نزدیک لے آتی ہے۔ خشونت، سماج میں مرتبہ، رکھ رکھائو دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ دونوں ہی کے گزر جانے پر حساس طبع افراد کو خیال آتا ہے ایک ساکت بے حس معاشرے کے لیے شاید وبا بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنی جنگ۔ اور اس اچانک خیال کے دماغ سے گزر جانے پر سہم جاتے ہیں۔۔۔‘‘

یہ انکشاف صدمے میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہے، خاص طور پر یہ اشارہ کہ بعض معاشروں کے لیے وبا ضروری ہو جاتی ہے۔ جنگ اور وبا کا آمیزہ کس قدر ہلاکت خیز ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ کامیو کے مشہور زمانہ ناول ’’طاعون‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بیماری، فرانس میں ناتسی جرمنی کے غلبے کی علامت کے طور پر بھی ابھری ہے۔ ایسے کسی بھی بیمار موقع پر مجھے سب سے پہلے یہی ناول یاد آتا ہے اور بجا طور پر۔ اب یہ معلوم ہوچکا ہے کہ کامیو نے اس ناول کا بنیادی مسالہ اس وبا سے حاصل کیا تھا جو کئی برس پہلے اس کے آبائی شہر میں پھیلی تھی مگر وہ اس وبا کو حد درجے غیر شخصی اور تباہ کن بنا دیتا ہے جو لوگوں کو بے دردی سے مار ڈالتی ہے اور بے اندازہ تکلیف کا سبب بنتی ہے۔ معالج کی شخصیت اس ناول میں بھی اہم ہے اور قیاس کیا جاتا ہے کہ کامیو نے ڈاکٹر صاحب کو دیوتائوں سے آگ چُرانے والے پرومیتھیس کی طرح سمجھا تھا جو اپنے جرم کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے سزا کا پابند ہے کہ ایک عقاب اس کے زخم جگر کو کریدتا رہتا ہے، نوچتا رہتا ہے۔ کامیو اپنی ایسی تحریروں کے لیے ’’وجودی‘‘ کا لیبل پسند نہیں کرتا تھا مگر اس نے تقدیر کی شقاوت اور انسان کی بے بسی کا مرقع کھینچ کر رکھ دیا ہے کہ یہ ناول آج کی صورت حال کے لیے بھی برمحل اور معنی خیز ہے۔

کامیو کا ناول دوسری جنگ عظیم کے بعد لکھا گیا لیکن وبائی بیماری کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کے لیے ڈینیل ڈیفو کے ’’وبا کے سال کا روزنامچہ‘‘ کا کوئی جواب نہیں جو 1722ء میں لکھا گیا اور جس میں 1665ء میں لندن شہر میں پھیلنے والی بیماری کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ڈیفو کو انگریزی کے بہت سے قاری محض ’رابنسن کروسو‘ کے مصنف کے طور پر جانتے ہیں مگر وقتی دل چسپی کے صحافیانہ موضوع کو ناولوں میں ڈھالنے کا طریقہ وضع کرنے کی وجہ سے وہ انگریزی ناول کے بنیاد گزاروں میں شامل کیا جانے کے لائق ہے۔

ڈیفو کا ناول میں نے پینگوئن کلاسیک کی جس اشاعت میں پڑھا، اس میں ناول نگار اور نقاد انتھونی برجیز کا دیباچہ یاد آتا ہے جس میں مصنف نے لکھ دیا ہے کہ آیا ڈیفو کے ناول کا موازنہ سودمند بھی ہے، یہ فاضل فیصلہ قاری پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کامیو نے جدید شہر کا نقشہ کھینچا ہے مگر اس کا طریقۂ واردات تمثیلی ہے، وبا دراصل جابر اور قابض سیاسی قوّت کو ظاہر کر رہی ہے لیکن ڈیفو نے شہر کو عذاب اور دہشت میں مبتلا دکھایا ہے اور اسے اس بات سے دل چسپی ہے کہ شہر کے باشندے اس صبرآزما امتحان سے کیسے گزرتے ہیں۔ یہ بات مجھے یاد رہ گئی مگر میں دونوں ناولوں کے درمیان اس موازنے کو غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ دونوں کا انداز مختلف ہے، دونوں اپنی جگہ اہم۔

Albert Camus

کامیو کا ناول عالمی شہرت کا موجب بن گیا مگر اس کی قدر و منزلت میں کمی کیے بغیر میں ایک اور ناول کو یاد کرنا چاہتا ہوں۔ یان لیانکے کا ناول ’’ڈنگ نام کے گائوں کا خواب‘‘ ہر اعتبار سے غیرمعمولی ہے اور چین سے تعلق رکھنے والے مصنف کو میں اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ وقیع ادیبوں میں سے ایک سمجھتا ہوں جس کے ناول ایک دوسرے سے مختلف اور بیان کاری میں جدّت، انوکھے پن اور اپنے ملک کی غربت و فلاکت کی دل خراش تصویریں ہیں۔ چالاکی، مکّاری، بہت تیزی کے ساتھ دولت اور سماجی مقام حاصل کرنے کی خواہش سبب بن جاتی ہیں کہ چند لوگ چین کے غریب دیہاتیوں کا خون غیرمحفوظ طریقے سے حاصل کرکے کُھلے عام فروخت کرنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایڈز کی بیماری ان غریب دیہاتیوں کو اپنی گرفت میں لینے لگتی ہے۔ بیماری کے خوف ناک پھیلائو کو روکنے کی کوششیں برائے نام ہیں اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کےلیے کوئی بھی تیار نہیں۔ سیاسی بدعنوانی کا نقشہ لیانکے زہریلے انداز میں کھینچتا ہے اور زہرخند سے ایک بے روح سماج کو بے نقاب کردیتا ہے۔ اس بار بھی وہی ملک ہے اور خوف ناک بیماری کا ریلا۔ میں برابر سوچ رہا ہوں کہ یان لیانکے اس کے بارے میں کیا لکھے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کی تحریر ہم تک پہنچنے میں بہت وقت لگ جائے گا۔ اس وقت تک یہ بیماری کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوگی۔

چین میں ہیضے کا وبائی حملہ ایک اور ناول میں سامنے آتا ہے۔ یہ سمرسٹ ماہم کا ناول ’’رنگ دار نقاب‘‘ ہے جہاں پیمانِ وفا اور استواری کا امتحان لینے بلکہ سزا دینے کے لیے شوہر، جو ڈاکٹر ہے، اپنی بیوی کو زبردستی اپنے ساتھ اس شہر لے جاتا ہے جہاں وہ وبائی حملے سے نمٹنے کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ محبت کی بے اعتباری، احساسِ فرض اور ایک ہلکی ہلکی سی متصوفانہ فضا اس ناول کو ماہم کے دوسرے کئی ناولوں سے الگ کر دیتے ہیں کہ پڑھنے کے بہت سال بعد بھی یاد رہ گیا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان دراڑ پڑچکی ہے اور موت وہاں اپنا سرد ہاتھ رکھ دیتی ہے اور وبا جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ یہ معاملہ گابریئل گارسیا مارکیز کے ’’ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘ کی بنیاد ہے۔

Yan Lianke

مارکیز ’’تنہائی کے سوبرس‘‘ اور ’’پیش گفتہ موت کی روداد‘‘ جیسے ناولوں کا مصنف ہے جس نے ہمارے درد میں حقیقتِ بیان اور قصّہ گوئی کے انداز بدل دیے۔ اس کا یہ ناول عمدہ ہے مگر مجھے ان دونوں کتابوں سے کم پسند ہے جن کے نام میں نے درج کیے اور جو مارکیز کا نام آتے ہی میرے ذہن میں جگمگا اٹھتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات کے وفور، بیان کے پُرشور بہائو اور صرف عشق کی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو کی سرشاری سے مزّین یہ ناول عشق کے انتظار کا بیان بھی ہے۔ فلورینیتنو بڑی باقاعدگی سے برسوں انتظار کرتا ہے کہ اس کی محبوبہ فرمینا کا شوہر مر جائے اور وہ اپنی محبت کے حصول میں کامیاب ہو۔ ایسی دیوانگی والی محبت خود بھی ایک بیماری معلوم ہوتی ہے، ڈھلتی ہوئی عمر، زندگی کا بدلتا ہوا محور، وقت کی بے رحمی__ کئی عناصر اس کہانی کی بُنت میں شامل ہیں۔ بعض نقادوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہسپانوی زبان میں کالرا میں مزاح کی کیفیت بھی شامل ہے جو انگریزی تک آتے آتے اسی لفظ سے غائب ہو جاتی ہے۔ ساری باتیں اپنی جگہ درست اور آپ اسے میرا تعصب ہی کہیے، کالرا سے بڑھ کر وبا ’’تنہائی کے سو برس‘‘ میں ماکوندو کے قصے میں نمودار ہوتی ہے۔ بے خوابی کی وبا جس کے نتیجے میں لوگ نسیان کا شکار ہوجاتے ہیں، چیزوں کے نام بھول جاتے ہیں۔ ایسی بیماریوں سے بچائو کا ایک راستہ ہے جب ’’حافظے کی مشین‘‘ ایجاد کر لی جاتی ہے اور زندگی بھر کی یادیں تحریری شکل میں محفوظ رکھی جا سکتی ہیں۔ کسی بھی بیماری کا اس سے بڑھ کر علاج اور کیا ہو گا؟

بیماری کی عجیب اور بالکل ہی مختلف شکل حوزے ساراماگو کے ’’اندھے لوگ‘‘ میں نظر آتی ہے جہاں چند لوگ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کو بھی قرنطینہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وبا گہرے سیاسی اور فکری شعور کی حامل ہے اور تہہ در تہہ معنویت اپنے اندر سمیٹے ہوئے۔

تباہ کن بیماریوں کے درمیان مجھے ایک اور کتاب یاد آرہی ہے جس میں بیماری، پوری انسانیت کی بقا کا ذریعہ بن گئی۔ انگریزی میں سائنس فکشن کو مستحکم بنانے والے ناول نگار ایچ جی ویلز کے ’’دنیائوں کے درمیان جنگ‘‘ میں دوسرے سیّارے کی مخلوق زمین پر اترنے کے بعد جنگ میں کامیاب ٹھہرتی ہے۔ اور افسانوں کو شکست دے دیتی ہے۔ مگر وہ ان انسانوں کے خون میں پلنے والے جراثیم کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور انجام کار شکست اٹھا کر پسپا ہو جانے پر مجبور۔

یہ کتابیں اور قصے پرانی بیماری کے ہیں۔ دنیا کو اب جس بلا کا سامنا ہے اس کے بارے میں کون جانے کیا لکھا جائے گا اور یہ کہانی کیا رُخ اختیار کرے گی۔ کون جانے انسان پر حملہ آور بیماریاں کیا شکل اختیار کریں گی اور لوگ کس طریقے سے موت کا شکار بنیں گے۔ مگر پرانی کہانیاں یہ ضرور بتاتی ہیں کہ وبائی بیماری کے ہر مرحلے پر انسان کے حوصلے اور اولوالعزمی کا پرچم سربلند رہے گا اور افسانہ اخلاقی کشمکش اور زوال کو سامنے لاتا رہے گا۔

Jose Saramago

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments