وبا کے دنوں میں دم توڑتی ہوئی تہذیبی اقدار


اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے پہلے کے انسان محفوظ تھے اور ہمارے بعد والے بھی محفوظ ہوں گے اور صرف ہم ہی غیر محفوظ ہیں کیونکہ ہم کرونا وائرس کو بھگت رہے ہیں اور ایسے کئی وائرس اور بیکٹیریا بھگت چکے ہیں تو یہ غلط ہے۔ مستقبل کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جا سکتی کہ آئندہ آنے والی نسلیں موجودہ نسل کے لالچ سے کتنا نقصان اٹھائیں گئیں تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ابن آدم کی اگلی نسل کو اپنی بقاء کے لئے یقیناً غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے کے معاشرے اور انسانوں نے تباہی کے کیسے کیسے مناظر نہیں دیکھے تاہم ہر بار انسان ایک نئے انداز میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ تاہم خود غرضی اور مفاد پرستی کے ملبے سے جنم لینے والی انسانیت پہلے سے زیادہ سفاک احساسات کی حامل ہوتی تھی شاید انسان کی مٹی میں ہی مفاد کے بیج ہوتے ہیں جو موت کی آواز کی گوڈی سے بھی نرم نہیں پڑتے۔

تاریخ شاہد ہے کہ انسانی تاریخ میں جب بھی عالمی وبائی امراض پھیلے ہیں انہوں نے شہروں کے شہر برباد کر دیے ہیں۔

تہذیب و تمدن کی دھجیاں اڑائی ہیں، انسان وبا سے بچا تو بھوک اور تنہائی سے مرا۔ وبائیں انسانیت کی دشمن ہوا کرتی ہیں کیونکہ اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف انسان خود غرض ہو جاتا ہے۔ بقاء کی اس جنگ میں وہ ہمسائے بھی دشمن دکھائی دیتے ہیں جن کے ساتھ تہواروں کے مشترکہ دیپ جلائے جاتے ہیں یا خوشیاں بانٹی جاتی ہیں۔ ان حالات میں دم توڑتی انسانی اقدار کے خون سے تاریخ کے اوراق بھر جاتے ہیں جن کی سڑاند ایک مدت تک انسانی نتھنوں سے ٹکراتی رہتی ہے اور آج کل کرونا وبا کے دنوں میں ہم اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں۔

جبکہ وبائی امراض اور قدرتی آفات میں انسانوں میں موجود انسانیت کو ایک نیا جنم لینا چاہے جیسے زخموں کے بھرنے اور مکمل علاج کے بعد جلد زیادہ چمکدار اور صحت مند ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں ہم اپنے سامنے موت دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہماری اپنی زندگی داؤ پر لگی ہے۔ اس لیے لالچ اور طمع سے کیا ملے گا؟ وبا کے دنوں میں تاجروں کا لالچ سوا نیزے پر ہوتا ہے۔ مہنگائی میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو جاتا ہے۔ عام دکانوں پر قیمتیں آسمان سے چھونے لگتی ہیں۔ انسان کا لالچ اسے اتنا سفاک بنا دیتا ہے کہ وہ رحم کرنا بھول جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا پیسہ وہ کس لیے جمع کر رہا ہے کیا اس نے اور اس سے وابستہ افراد نے آب حیات پی رکھا ہے یا وبا انہیں بخش دے گی اور موت اس گلی میں دستک دیے بغیر گزر جائے گی؟

میرے ان احساسات کی بہترین ترجمانی گبریل گارشیا مارکیز اپنے شہرہ آفاق ناول ”وبا کے دنوں میں محبت“ میں ان الفاظ میں کی ہے ”انسان صرف ایک ہی بار اس روز جنم نہیں لیتے جس روز ان کی مائیں انہیں جَنتی ہیں، زندگی انہیں بار بار اس بات کا موقع دیتی ہے کہ وہ خود کو جنم دے سکیں“۔ مگر شاید یہ باتیں کاغذ کے پنوں پر ہی اچھی لگتی ہیں۔

تہذیب یافتہ اقوام کے حوالے سے جو خبریں ہم دیکھ رہے ہیں اس پر افسوس ہوتا ہے اور ساتھ ہی اپنے ملک اور معاشرے کی عمومی سوچ کا خیال آتے ہی روح کانپ جاتی ہے کہ ہماری قوم تو ویسے بھی موقع کی تلاش میں رہتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے لالچ میں وبا سے بدتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ کیونکہ وبا کی پہلی دستک پر ہی ہمارے ملک سے حفاظتی ماسک مارکیٹ میں ناپید کرتے ہوئے مہنگے کر دیے گئے ہیں۔

دوسری جانب یہ کہا جارہا ہے کہ کرونا وائرس انسانی تاریخ کا سب سے ہولناک وائرس ثابت ہو سکتا ہے۔ مختصر طور پر آج تک دنیا بھر میں پھیلنے والی خوفناک وباؤں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

1۔ پہلی وباء Peloponnesus BC 430 میں پھیلی جس نے دنیا کی آدھی سے زیادہ ابادی کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد دنیا کو نارمل حالات کی طرف آنے میں میں ایک عرصہ لگ گیا۔

2۔ پلیگ آف جسٹینیہ ( 541۔ 750 AD۔ Plague of Justinian) چھٹی صدی عیسوی میں پھیلنے والی اس طاعونی وباء سے دنیا بھر میں 30 سے 50 ملین لوگ مرے۔ اس کا نشانہ بازنطینیہ، مشرقی مڈل ایسٹ، شمالی افریقہ اور ایشیاء تھے۔

3۔ بلیک ڈیتھ ( 1347۔ 1351 Black death ) پورے یورپ میں پھیلنے والی اس سیاہ موت نے کوئی 25 ملین لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور متاثرہ افراد کی تعداد بھی اتنی ہی تھی۔

4۔ خسرہ ( Smallpox ) پندرہویں سے سترہویں صدی کے دوران پھیلنے والی اس وباء سے پوری دنیا میں کوئی 20 ملین لوگ مارے گئے۔ تاہم اب یہ وبائی مرض تو نہیں مگر دنیا میں موجود ہے جس سے بچے متاثر ہوتے ہیں۔

5۔ ہیضہ ( Cholera 1817۔ 1823 ) انڈیا سے شروع ہونے والی اس وباء نے پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ بیماری آج بھی موجود ہے اور ہر سال اس سے ہزاروں لوگ مرتے ہیں۔

6۔ سپینش فلو ( H 1 N 1۔ 1918۔ 1919 ) پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے قریب اس وباء نے دنیا بھر میں 500 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا اور 50 ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

7۔ ہانگ کانگ فلو ( H 3 N 2۔ 1968۔ 1970 ) انفلوئنزا کی طرح کا یہ وائرس بھی دنیا بھر میں پھیلا تو اس کی وجہ سے ایک ملین سے زائد لوگ موت کی وادی میں اتر گئے اور شہروں کے شہر ویران ہو گئے۔

8۔ ایڈز ( HIV/ AIDS۔ 1981۔ Present ) ایڈز کا پہلا کیس 1981 میں سامنے آیا۔ اس کی وجہ سے ابھی تک 75 ملین لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ جب کہ 32 ملین مارے جا چکے ہیں۔ انسانی بد اعمالیوں اور بے اعتدالیوں کی وجہ سے پھیلنے والا یہ مرض آج تک پوری شدت سے موجود ہے اور ناقابل اعلاج گردانا جاتا ہے۔

9۔ سارس ( 2002۔ 2003 Sars) سانس کی بیماریوں میں سے ایک اور خطرناک وباء سارس ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ دوسری جانب موسمی تبدیلیاں اور انسانی غفلتوں کے باعث بھی سانس کی تکالیف میں اصافہ جاری ہے۔

10۔ سوائن فلو ( Swine flu or H 1 N 1۔ 2009۔ 2010 ) اس وباء کی وجہ سے دنیا بھر میں 61 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ اس سے مرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے زیادہ ہے۔

11۔ ای بولا وائرس ( Ebola۔ 2014۔ 2016 ) گینیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہونے والا یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے مغربی افریقہ میں پھیل گا۔ اس کی وجہ سے کوئی 5 بلین لوگ متاثر ہوئے جبکہ ہزاروں کے تعداد میں مارے گئے۔

12۔ کرونا وائرس ( CIVID۔ 19۔ 2019 To present )

موجودہ کرونا وائرس اب تک 150 ملکوں میں پھیل چکا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔ ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وباء ڈکلیئر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگرچہ یہ ابھی اپنی ابتدائی سٹیج پہ ہے مگر تیزی سے پھیلتا ہوا یہ وائرس دنیا کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی کو متاثر کرے گا اور اس سے کئی ملین لوگوں کے مرنے کا اندیشہ ہے۔ یوں انسانی زندگی نئے المیوں کے ساتھ جنم لے گی۔

ٹرمپ انتظامیہ میں کرونا وائرس کے خلاف بنائی گئی ٹاسک فورس کے اہم رکن ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا کہ امریکی شہریوں کو اس حقیقت کے مطابق خود کو ڈھال لینا چاہیے کہ زندگی ایسے میں بہت مختلف ہو گی جب ملک میں کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ”ہمیں اس بارے میں بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ زندگی ویسے نہیں رہے گی جیسے تھی۔ اگر ہم امریکی عوام کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہو گا“۔ میرے نزدیک یہ بات سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وبا کے دنوں میں اور اس کے بات زندگی ویسے نہیں رہتی جیسے پہلے ہوتی ہے۔

ان حالات میں جب اپنی بقاء کی جنگ بلاشبہ مشکل ہو اپنے اردگرد رہنے والے خوف زدہ افراد کے ساتھ سفاکانہ سلوک سے پرہیز کرنا چاہیے۔ منافع کا حصول آسان وقتوں کے لیے ہونا چاہیے اور ناگزیر حالات میں کم از کم انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مثبت رویوں کو فروغ دینا چاہیے بلاشبہ اپنے قدرتی جنم سے ہٹ کر ایک انسان کئی جنم لیتا ہے اور یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے کہ اسے کس فکر کے ساتھ اٹھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments