کرونا کا رونا


کرونا کی عالمی وبا پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس کا نام covid 19 رکھا گیا ہے۔ نئی مرض ہونے کے باعث تا حال ناقابلِ علاج ہے۔ یہ واحد بیماری ہے جس کے علاج کے لئے بیرونِ ملک جانے کا کوئی نہیں سوچتا اور نہ ہی اس بیماری کی تیمار داری و دیکھ بھال ہوسکتی ہے۔ یہ عجیب عارضہ ہے کہ جس کا مداوا تنہائی ہے اور شہروں کا اجڑنا بقا ہے۔ حسبِ عا دت ہم اس آفت میں بھی سنجیدہ نہ ہوئے۔ پورا ملک حقائق سمجھے بغیر ٹوٹکوں، کرامتوں، پیاز، لہسن، ہلدی معجونوں اور دم پھونکوں کے مباحث میں پڑا ہے۔

ہزاروں ماہرین اور معالجین کا نزول جاری ہے جن میں فیس بکئیے، یو ٹیوبیئے، انسٹا گرامیئے اور وٹس ایپیئے پیش پیش ہیں۔ کوئی پیروں فقیروں کے ناخن چبانا بطور علاج تجویز کررہا ہے تو کوئی قران مجید سے نکلے اپنے ہی بالوں کے پانی پیئے جا رہا ہے۔ کون سمجھائے کہ اب نیک و بد، موحد و ملحد، مسٹر و مولوی، پنڈت و پیرکا سوال باقی نہیں رہا۔ جب روم، مسجد اقصیٰ، مسجدحرام، آستانے، مسجد مندر اور سب دیر وحرم مقفل ہیں تو آپ کے من گھڑت قصے چہ معنی دارد؟

ہر طرف ہُو کا عالم ہے۔ حتیٰ کہ کرونا کے مریضوں کو کہیں کہیں غیر انسانی اقدامات سے تلف بھی کیا جارہا ہے۔ گویا میر درد کی ایسے جینے کے ہاتھوں مر نے کی بات سچ ثابت ہورہی ہے۔ ظاہر ہے جب خوفناک حد تک آبادی بڑھ جائے تو مسائل، آلام اور بیماریوں کا بڑھنا بھی فطری عمل رہا ہے۔ اب یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جیسا کرونا، ویسا بھرونا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی نوع انسان ازل سے ایسی آفات کا شکار رہا ہے۔ طاعون کے زمانے میں لاکھوں لوگ لقمہء اجل بنے۔ لوگ اپنے گھر والوں کے علاج اور تدفین سے بھاگتے تھے اورسینکڑوں کو گڑھے کھود کر اکٹھے دفن کرتے تھے۔ ہر نئی بیماری کے علاج میں آٹھ نو ماہ لگ جاتے ہیں۔ جلد ہی اس پہ قابو پالیا جائے گا۔ کچھ احباب کرونا کے لئے تحسین بھی رکھتے ہیں کہ آزاد خیال دور میں نہ صرف خواتین بلکہ حضرات کو بھی نقاب کرنے پہ مجبور کردیا۔ اب تو لوگ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجائے پھرتے ہیں۔ اس سے قبل ڈینگی بھی عریانی و فحاشی کے سیلاب کے آگے بند باندھ چکا ہے۔

پھر لوگوں کا لائف سٹائل اور تہوار پسندی زندگی کو آخری حد تک دشوار کر چکی ہے لہٰذا قدرت کی جانب سے سدھرنے کی ویک اپ کال ہے۔ کرونیت کی فرعونیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ کرونک سچوایشن کی کرونگی انسانوں کو نہ جانے کہاں تک لے جائے گی۔ میل جول، بیمارپرسی، شادی و مرگ، اجتماعات، بازار، خانقاہیں، تعلیمی ادارے اور پبلک مقامات شدید متاثر ہورہے ہیں۔ میلے ٹھیلے، شوبز کی بے لباس شوٹنگز، ہنی مون، ٹرپس اور عشقیہ و معشوقیہ سر گرمیاں تو منہ کے بل جا گری ہیں۔

اس وقت کرینہ، مرینہ اور خیالوں پہ چھاجانے والی کوکو رینا سب قصہء پارینہ ہیں۔ یہاں تک کہ شرعی ازدواجیت کو بھی خطرات لا حق ہیں۔ یوں اب تمام رشتے بھی معطل ہیں۔ ڈر ہے کہ ہماری سرکار کہیں ڈبل سواری پر پابندی کو بھی ضروری خیال نہ کر بیٹھے اور دھڑا دھڑ ذمہ دار افسران کو معطل کرنا نہ شروع کردے۔ شنید ہے کہ تیز ٹمریچر پہ کرونا وائرس مر جاتا ہے۔ ایسے میں اپنے ہاں تو ہر وقت ہی مذہبی، سیاسی اور سماجی درجہ حرارت نقطہء عروج پر رہتا ہے۔

جانے کیسے کرونا کود پڑا۔ ان حالات میں حسد، عصیاں اور تعشق کی آگ بھڑکانا مفید ہے۔ دل کے جلاؤ گھیراؤ سے بھی یہ وائرس ”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے“ کا سوال اٹھا کر بھاگ نکلے گا۔ کرونا کی آمد سے سب ملکی و غیر ملکی ایشوز سرد مہری کا شکار ہیں۔ سب این جی اوز، فورسس، میڈیا اور حکومتوں کا اوڑھنا بچھونا صرف کرونا ہے۔ تاہم یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ انشا اللہ بہت جلد انسان کرونا پر فتح کا اعلان کرے گا۔

البتہ مسلمانوں کے لئے علم و تحقیق سے دوری لمحہ فکرضرور ہے۔ ثابت ہو چکا ہے کہ پوری دنیا میں کسی بھی چیز کو پھیلانے میں کرونا سے موئثر روئے زمیں پر کوئی اور مخلوق نہ ہے۔ سو ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ دنیا میں اور خاص کر مسلمانوں کے ہاں کرونا 19 کی بجائے رواداری، اخوت، علم و حکمت، خلوص، دیانت، امانت، اور خوف خدا پھیلانے والا کرونا پھیلا دے تاکہ ہم اچھے انسان اور مسلمان بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments