کورونا وائرس: سرکاری ملازمین کو ٹیکہ لگانے کے بجائے ڈیم فنڈ استعمال کیا جائے


وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے کورونا خطاب میں جن اہم باتوں کا تزکرہ کیا ان میں کرونا وائرس کیا ہوتا ہے؟ اس سے گھبرانا بالکل نہیں ہے کیونکہ صدر مملکت چین کے دورے سے کورونا سے نمٹنے کا فارمولا لا کر اس پر قابو پا لیں گے شامل تھیں۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا خطاب مودبانہ ہونا چاہیے تھا انہیں ملک میں چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والی نامعلوم شخصیات کی انکوائری رپورٹ اور پارٹیوں کو چلانے والے کنگ میکرز کے نام قوم کو بتا کر پھر بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی کورونا وائرس سے متعلق سارک ویڈیو کانفرنس اور ملک کی مشرقی سرحدوں کی صورتحال اور افغانستان سمیت علاقائی اور عالمی صورتحال پر بات کرنے کی ضرورت تھی مگر خان صاحب صرف کورونا سے نزلے زکام اور کھانسی تک رہے اور گھبرانا نہیں کا بھاشن سناتے رہے اور یہ کہ انہوں نے اٹلی اور برطانیہ پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔

وزیر اعظم صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا وائرس کی روک تھام اور بچاؤ کے لیے ملک میں آنے والے 9 لاکھ لوگوں کی اسکریننگ کی گئی اب صرف ٹمپریچر چیک کرنے کو کورونا ٹیسٹ کہا جاتا ہے یہ تو کوئی ڈاکٹر ہی بہتر بتا سکتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے تفتان جیسی زمینی جگہ کو کوہ قاف سمجھ لیا جہاں انسان کا پہنچنا نا ممکن ہو اور تفتان کے مجاہدین کو بار بار خراج تحسین پیش کرتے رہے اور اگر واقعی تفتان کا راستہ اتنا دشوار گزار ہے جہاں پر آپ نے کورونا کی قرنطینہ بنانے کے بجائے کورونا کی نرسریاں ہی بنا ڈالیں تو پھر کیسے ہم سیاچن جیسے محاذ پر دنیا کی مہنگی اور مشکل جنگ لڑ رہے ہیں؟

سندھ حکومت کے کورونا سے بچاؤ اور قرنطینہ کے قیام کا عالمی ریکارڈ توڑنے والی سندھ حکومت چین سے بھی دوڑ میں آگے نکل جانے کا کریڈٹ لے رہی ہیں کہ صدر عارف علوی کو چین سے کورونا کے خاتمے کا فارمولا لینے کے بجائے سائیں سرکار کے پاس سندھ آنا چاہیے تھا کہ سائیں کی دعا کے ساتھ ان کے گھر کی سیر بھی ہو جاتی۔

سندھ سرکار نے 3 ارب روپے کا کورونا ریلیف فنڈ قائم کر کے سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں کٹوتی کا ٹیکہ لگانے کا بھی بندوبست کر لیا ہے۔ سرکاری ملازمین جو پہلے ہی مہنگائی کے سامنے بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں ان کی تنخواہیں بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی ہیں مزید عالمی کساد بازاری اور حالیہ کرونا وائرس سے ہونے والی ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کی وجہ سے مزید پس کر رہ جائیں گے اس لیے سائیں سرکار سمیت تمام سیاستدانوں اور طاقتور شخصیات کو چاہیے کہ وہ اپنے مال و دولت کا کچھ حصہ صدقہ کریں نہ کہ ان سرکاری ملازمین کو مزید ٹیکہ لگایا جائے جو پہلے ہی مہنگائی کے سونامی وائرس کا ٹیکہ لگائے پھرتے ہیں۔

ملک میں دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم کے نام پر فنڈ منافع پہ منافع حاصل کر کے تقریباً 12 ارب سے تجاوز کر چکا ہے اور ڈیم بنانے کے لیے 2013 کے تخمینے کے مطابق ہمیں تقریباً 14 ارب ڈالر چاہییے جو عوامی چندوں سے اکٹھا کرنا بہت ہی مشکل ہے اور ڈیم بنا کر اس پر چوکیداری کرنے والا سابقہ مسیحا بھی لندن اور پیرس کی سیریں کرتا نظر آتا ہے۔ لہذا اس قومی فنڈ کو فوری طور پر کورونا جیسے قومی سانحے پر خرچ کرنے چاہیے تاکہ ہم بیرونی امداد اور سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں کٹوتی کرکے انہیں مزید ٹیکہ لگانے سے بچا سکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پیسے بھی ماضی کی طرح قرض اتارو ملک سنوارو جیسی اسکیموں یا پھر خدائی خدمت گاروں کے کسی کام پر خرچ ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments