کورونا وائرس: حکومت اور عوام کی ذمہ داریاں


کورونا وائرس کی شروعات چین سے ہوئی تھی۔ انھوں نے بروقت احتیاطی تدابیر کرتے ہوئے مزید پھیلاؤ کو روک دیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس ایک وبائی شکل اختیار کر چکاہے۔ لا کھوں کی تعداد میں لوگ پوری دنیا میں اس وائر س سے متاثر ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ملک اٹلی ہے۔ پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ابھی تک دو مریض اس وائر س سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔

وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے اقدامات شروع کر دیے ہیں لیکن اس کے باوجود وائر س کے پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ روز بروز مریضوں کی تعدادمیں اضافہ ہو رہا ہے۔ دو مریضوں کی موت کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائر س کے روک تھام کے لئے کیے گئے قدامات پر قوم سے خطاب بھی کیا۔ پورے ملک میں زیادہ تر ادارے بند ہے۔ لوگوں نے میل جول اور ملاقاتیں محدو کر دی ہے۔ لیکن پھر بھی صورت حال روز بروز بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتی جارہی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت اور عوام کی ذمہ داری کیا ہے کہ اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

وبائی امراض پر قابو پانے کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ کورونا وائر س پاکستان کی بیماری نہیں۔ ابھی تک جو اعداد وشمار دستیاب ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ بھی اس وائر س کا شکار ہوئے ہے ان میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو باہر ملک کا سفر کرکے وطن واپس لوٹے ہیں۔ جو دو مریض انتقال کر گئے ہیں وہ دونوں بھی خلیجی ممالک سے وطن واپس آئے تھے۔ اس صورت حال سے لگ رہا ہے کہ حکومت ہوائی اڈوں پر حالات کو قابو کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کورونا وائر س کی درآمد کو روکنے کے لئے تمام ائیر پورٹس پر مسافروں کی مکمل جانچ کے لئے بین الاقوامی معیار کے مطابق اقدامات کریں۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام ہوائی اڈوں پر ڈاکٹروں اور دیگر عملے کو تعینات کریں۔ جو بھی مسافر باہر سے آئے ان کا مکمل طبی معائینہ کریں۔ ائیر پورٹ پر موجود تمام عملے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق آلات اور لباس مہیا کریں۔ جب تک باہر سے آنے والوں کی مکمل جانچ نہیں کی جاتی اس وقت یہ ممکن نہیں کہ اس وباکو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے مسافروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ائیر پورٹ پر عملے کے ساتھ مکمل تعاون کریں ان کو تمام معلومات دیں۔ کورونا، روکے گا تب جب حکومت اس کی درآمد کے راستوں کی مکمل نگرانی کرے گی۔ اگر ائیر پورٹس پر نگرانی کا عمل سخت اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں کیا گیا تو پھر اندرونی ملک اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جتنے بھی اقدامات کیے جائیں اس کو روکا نہیں جا سکے گا۔

اندورنی ملک چاروں صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے لئے حفاظتی مراکز قائم کریں۔ سیاست اور پریس کانفرنسوں کی بجائے عملی قدامات پرتوجہ دیں۔ ابھی تک جو اقدامات کیے گئے ہیں چاہے وہ وفاقی سطح پر ہے یا صوبائی سطح پر وہ سب ناکافی ہے۔ صوبوں کو چاہیے کہ فوری طور پر تمام ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر ملازمین کو کٹس اور لبا س مہیا کر یں۔ ہر ضلع اور تحصیل ہسپتال میں قرنطینہ مرکز قائم کریں۔

وہاں ڈاکٹروں اور دیگر ملازمین کو بین الاقوامی معیار کے کٹس اور لباس دیں۔ ابھی تک کی صورت حا ل یہ ہے کہ ہسپتالوں میں زیادہ تر ڈاکٹروں اور دیگر ملازمین کو حفاظتی ماسک، کٹس اور لباس فراہم نہیں کیا گیاہے۔ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کا تمام تر توجہ کورونا وائر س کے مریضوں کو گننے پر ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مریضوں کو گننے کے ساتھ ساتھ حفاظتی تدابیر پر بھی توجہ دیں۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چاروں صوبوں کے ساتھ بلا تفریق رابطے میں رہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ڈاکٹروں کی اکثریت شکایت کررہی ہے کہ ہمیں ابھی تک ماسک، کٹس اور مخصوص لباس فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال کا فوری نو ٹس لیں۔ شہر کے ہر ہسپتا ل میں قرنطینہ مرکز قائم کریں۔ وہاں تربیت یا فتہ عملے کی موجودگی کو یقینی بنائے۔ ان کو تمام آلات مہیا کریں۔ بیرونی ملک سے آنے والوں مسافروں کی مکمل جانچ کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ضلع اور تحصیل میں قرنطینہ مرکز قائم ہو۔ وہاں پر تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔ ان کے پاس تمام ضروری آلات بھی موجود ہوں۔

مسلح افواج اور فلاحی اداروں نے بھی اس وبا کو روکنے کے لئے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ فوری طور پر رابط کریں۔ اگر حکومت کو عملے کی کمی کا سامنا ہے تو ان سے لے لیں۔ ان کو اگر ضروری ادویات یا دیگر وسائل کی ضرورت ہے تو سیاست سے بالاتر ہو کر مسلح افواج اور فلاحی اداروں کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں۔ تاحال پاک فوج نے حکومت کواس مشکل مرحلے میں تعاون کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن نے بھی اس مشکل گھڑی میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لہذا حکومتوں کو چاہیے کہ ان کے رضا کاروں کی جہاں ضرورت ہے ان کو بروئے کار لائیں۔

مشکل کی اس گھڑی میں وفاقی اور چاروں صوبوں حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرطرح کے ذخیرہ اندوزں پر نظر رکھیں۔ ادارے بند ہونے کی وجہ سے بہت سارے ڈیلی ویجیز ملازمین بے روزگار ہوئے ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے دیہاڑی دار مزدور بھی مشکلات کا شکار ہے۔ ضروری ہے کہ اس طرف بھی توجہ دی جائے۔ حکومت اگر ان حالات میں اشیائے خورد ونوش سستی نہیں کر سکتی تو کم از کم اتنا ضرور کریں کہ قیمتیں مزید نہ بڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ کورونا کے ساتھ ساتھ ہمیں غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑے۔

اس طرح حکومت کو چاہیے کہ ادویات کی ذخیرہ اندوزی پر بھی نظر رکھیں۔ بعض لوگ صرف وظائف پر انحصار کررہے ہیں، ان کے لئے عرض ہے کہ احتیاط اور علاج بھی سنت ہے۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس سے انکار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور اس کا علاج کرنا بھی ضروری امر ہے۔ موجودہ صورت حال میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ حکومت اور طب کے ماہرین جو ہدایات جاری کرتی ہے اس پر مکمل عمل کیا جائے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا فرض ایمانداری کے ساتھ نبھائیں جبکہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں تب یہ وباروکے گا ورنہ بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments