کرونا بمقابلہ مولانا


”اؤ بھولے! مجھے دیکھ کر ہنس کیوں رہے ہو؟ “

” او کج نئیں سر جی، بس ایوئیں، کھی کھی کھی۔ ہاہاہاہا۔ “

” اوں ہوں! پھر وہی حرکت۔ “

”سر جی! آپ کے منہ پر یہ چِھکّو بڑا مذاقیہ لگ رہا ہے، ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ نے منہ کی پوشش کرائی ہے۔ ہاہاہاہا۔ “

” او جاہل آدمی! یہ چِھکّو نہیں ماسک ہے ماسک۔ بدتمیزا۔ آج کل کرونا کی بیماری عام ہے، بچنا ہے تو پہننا ہی پڑے گا“

” اللہ بخشے ابا ٹھیک کہتا تھا، پڑھیا لخیا بندا رج کے ڈراکل ہوتا ہے۔ او جب موت آنی ہے تو آ جانی ہے۔ ان ماسکوں نے کیہڑا اسے ڈک لینا ہے“

” او مورکھا! موت اٹل ہے کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ بندا احتیاط بھی نہ کرے“

” میری طرف سے اک ہور چاڑھ لیں، لیکن بندے کا امان ایہناں وی کمزور نئیں ہونا چاہیے، زندگی موت میرے سوہنے رب کے ہتھ میں ہے۔ “

” بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اللہ کی دی ہوئی زندگی کی حفاظت کرنا تو ہماری ذمہ داری ہے نا۔ “

” چنگی ذمہ داری پوری کر رئے ہیں کہ رب کی مخلوق سے ہتھ ملانوں وی گئے ہیں۔ آپ بھی پہلے مجھے پیار سے اپنی ہِک سے لگاتے تھے اور آج۔ دُوروں دُوروں ای فارغ۔ “

” بھولے بادشاہ! ڈاکٹروں نے ہدایت کی ہے کہ کرونا سے بچنے کے لیے، ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ ملیں وغیرہ وغیرہ۔ “

” سر جی! ان ڈاکٹروں کو ککھ پتہ نئیں ہے کہ یہ کیا بماری ہے۔ یہ اصل میں مریکہ کی سازش تھی چین کے خلاف۔ “

” اچھا! یہ خفیہ اور مفید معلومات تجھے کس نے دیں۔ “

” اچھو باندر نے مجھے بتایا تھا، اسے بِلّے لاٹُو نے دسیا تھا۔ بِلا لاٹُو کہہ ریا تھا کہ مجھے یہ خبر جیدے ڈنگر نے دی ہے“

” میں تیری سند پر قربان جاؤں۔ او پاگل! امریکہ تو خود اس سے متاثر ہوا ہے۔ “

” سازش پُٹھی پڑ گئی ہے نا سر جی! سیدھی گل ہے۔ کیسا ہے۔ ہتھ سٹّیں“

” اوئے ہاتھ پیچھے کرو، پاگل آدمی۔ “

” انج نہ کریں سر جی! غُنا ہوتا ہے، رب نراض ہوتا ہے۔ “

” کیسا گناہ بھئی! “

” جمعے کو مولوی صاحب دس رئے تھے کہ بماری کے ڈر سے اپنے مومن پائیوں سے ہتھ نہ ملانا بڑا سخت غُنا ہے، کسی کی بماری کسی کو نئیں لگتی بلکہ مومن کے جوٹھے میں بھی شفاء ہے۔ توبہ کریں سر جی۔ “

” بھولے تمہیں شاید نہیں پتہ، سعودی عرب کی حکومت نے تو احتیاطاً عمرہ بھی بند کر دیا ہے۔ “

” بھولے کو سب ملوم ہے۔ مولوی صاحب نے بھولے کو سب بتا دیا ہے۔ ان کی حکومت کو کافر ڈاکٹروں نے جان بجھ کے گلط مشورہ دیا ہے، بے فضول ڈرا کے۔ سارے جگ میں ہماری دو دو کرا دی ہے انہوں نے۔ “

” بھئی بالکل ٹھیک کیا انہوں نے، یہ ہی عقل کا تقاضا تھا۔ “

” اور ایمان کا تقاضا کیا تھا! ہیں۔ “

” ایمان کا بھی یہی مطالبہ ہے، اور کیا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ مومن کی فراست و دانائی سے ڈرو، بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ “

” عمرے پر پابندی، اجتماع پر پابندی اور اوس مر جانے عورت مارچ کو ہونے دیا۔ ادھر تو کج وی نئیں ہوا۔ عورت مارچ کے ساتھ کرونا منگیا تھا جو ادھر شرماتا نئیں گیا۔ وہی تو اصل تھاں تھی جہاں کرونا آنا چاہیے تھا۔ “

” یہ کون کہتا ہے؟ “

” میں نے سب کج مولوی صاحب سے سنیا ہے۔ میں آپ کی طرح ان پاگل ڈاکٹروں کو نئیں سنتا۔ “

” اوئے نماز تو پڑھتا نہیں اور بڑھ بڑھ کے باتیں کر رہا ہے۔ “

” او میرا ذاتی ماملہ ہے۔ پر جتھے تک دین کی بات ہے، ادھر عقل کی نئیں سننی چاہیے۔ “

” اچھا یار! جا اپنی مرضی کر۔ جب تو نے عقل کی بات سننی ہی نہیں۔ “

” نئیں سر جی! ایسی وی کوئی گل نئیں۔ میں نے جمعے کو مولوی صاحب سے کرونے کا دم کرایا تھا۔ فیر مولوی صاحب نے کہا تھا کہ کبوتروں کے پوٹوں کا سالن پکا کے کھاؤ۔ کبوتر مزاروں پر اللہ ہو اللہ ہو کرتے ہیں۔ ان کے ہوتے کھانے سے کرونا فنا ہو جاتا ہے۔ دو دن مگروں میں نے اَٹھ دس کبوتر پھڑ کے ان کے پوٹوں کا سالن پکایا اور مولوی صاحب کے ساتھ رل کے کھایا۔ ہن ستے ای خیراں ہیں سر جی! ۔ آپ چڑھاتے رہیں منہ پر چِھکّو۔ اہو۔ “

” اوئے بھولے۔ اوئے بھولے۔ “

” یہ تو جیدے ڈنگر کی واج ہے۔ او کون ہے بھئی؟ “

” او میں جیدا ہوں بھولے۔ “

” اندر ہی لنگ آ“

”چھیتی کر، موٹر سیکل کڈ شہر چلئے۔ “

” خیریت ہے نا۔ “

” او نئیں یار خیریت نئیں ہے، اپنے مولوی صاحب کو تین دن سے نزلہ زکام تھا۔ وہ آ پئی دوا دارو کرتے رئے۔ کل بڑا تیز تاپ چڑھ گیا تھا تو باؤ برکت اور اچھو باندر انہیں شہر وڈے ہسپتال لے گئے تھے۔ ابھی اچھو کا شہر سے فون آیا ہے کہ مولوی صاحب کو کرونا ہو گیا ہے۔ مولوی صاحب کی بیوی کا رو رو برا حال ہے۔ چھیتی کر“

” او تیرا بیڑا غرق اوئے کرونا، بِست کرا دیا ہے پبلک میں۔ سر جی! میں جا رہا ہوں۔ “

” کدھر؟ “

” ہسپتال۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments