ساری دنیا ایک طرف، پاکستان ایک طرف!


سماجی ذرائع ابلاغ کے مطابق کروونا وائرس ایک سو تہتر ممالک تک پہنچ چکاہے اور متاثرہ افراد کی تعداد دو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ مختلف ممالک نے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن سب سے اہم چین کے اقدامات ہیں جن کی بدولت (مورخہ 18 مارچ 2020) کو کروونا کا کوئی مریض نہیں آیا، یقینا یہ چین کے باشندوں کے لئے کسی جشن سے کم نہیں ہوگا اور حقیقت میں وہ تمام لوگ جنہوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور اسے شکست فاش دی۔

دیگر ملکوں کے حالات کا اندازہ وہاں کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں مریضوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ غالب گمان یہ بھی ہے کہ متاثرہ لوگوں میں اکثر عمر رسیدہ اور بڑھتی ہوئی عمر کے افراد شامل ہیں، اٹلی جیسے ملک میں اموات کی سب سے بڑی اہم وجہ بڑی عمر کے افراد کا زیادہ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ جبکہ کرونا سے اموات کی شرح 3 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ دنیا جہان کی بڑی نامی گرامی شخصیات کروونا کے وار سے محفوظ نہیں رہ سکیں، جن میں ایران کے اعلی سرکاری عہدیدار بھی شامل ہیں، اسی طرح بلغاریا کے صدر، کنیڈا کے وزیراعظم کی اہلیہ اور امریکہ کے بھی سرکاری اہلکار کروونا سے محفوظ نہیں رہ پائے۔

دنیا نے اس وقت سیاست، معیشت اور ہر طرح کے معاملات سے دھیان ہٹا کر ساری توجہ کروونا سے نمٹننے پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس میں مبتلا ہونے کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کام شروع کر رکھا ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی اگلے تین ماہ کی تمام تر ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ تین ماہ کی حد رکھنے کی جو وجہ دکھائی دے رہے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہونے وال ملک چین ہے، چین نے تقریباً تین ماہ میں تمام تر صورتحال پر قابوپالیا ہے۔ جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیا گیا ہے کہ چین میں نئے مریضوں کی شرح صفر ہو چکی ہے۔

ایک روز قبل پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے ااخبار والوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی نا اہلی ہے کہ کروونا وائرس پاکستان میں موجود ہے (اس سے ملتی جلتی ہوئی بات کی)۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ صاحب نے بھی حکومت کے اقدامات پر تنقید کے لئے خصوصی گفتگو کی۔ پھر کل ہی پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے صدر میاں شہباز شریف صاحب نے بھی پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے کروونا وائرس کے لئے کیے جانے والے اقدامات پر شدید تنقید کی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے بھی کورونا کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ حکومت کے گلے باندھ دی۔

مذکورہ حضرات پاکستان کے معززین ہیں سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ان کی ملکی حیثیت دوسری شخصیات سے مختلف ہے جس کی وجہ ان کی ان اہم عہدوں سے وابستگی ہے جن پر یہ فائز رہے یا ہیں۔ صرف یاد دہانی کے لئے 2005 کا زلزلہ، 2010 کا سیلاب کو لے لیجیے اور دیکھ لیجیے حکومت نے کیا اور کیسے اقدامات کتنے وقت میں کیے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکومتی طرز اقدامات نئے نہیں ہیں، فرق اتنا ہے جب حکومتی کرسیوں پر تھے اور آج کل کرسی دکھائی نہیں دے رہی۔

کیونکہ ہم پاکستانی سیاست کو ہر معاملے میں گھسیٹ کر لے آتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست دان اپنی واہ واہ کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جیسا کہ کیا گیا۔ ملک کو اس وقت مکمل یک جہتی کی ضرورت ہے، افراد کو قوم بنانا ہے نا کہ کسی سیاسی جماعت کا رکن۔ وقت کا خطرناک ترین وائرس ہماری سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے اب ہمیں اس سے نمٹنے کے لئے ایک صف میں کھڑے ہوجانا چاہیے اور اس وقت تک کے لئے بھلا دینا چاہیے کہ جب تک کروونا کو ملک سے نکال نہیں دیتے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

اختلافات ہی جمہوری سیاست کا حسن ہیں، تقریباً دنیا کا ہر ملک سیاسی اختلافات کی زد میں ہے اور آئے دن طرح طرح کی بیان بازیاں چلتی رہتی ہے یہی وہ چیزیں ہے جو ذراءع ابلاغ کی رونق بنتی ہیں اور عوام کے لئے کچھ وقت گزاری کا سامان بنتی ہیں۔ لیکن حالات و واقعات اور ملکی و قومی سالمیت کے مسلئے پر سب ایک ہوجاتے ہیں اور بحران کو مل جل کر شکست دیتے ہیں۔ بھلا کوئی ایسے بدترین حالات میں اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو چھوڑ کر، حکومت وقت کا ہاتھ بٹانے کی بجائے، عوام کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے عوام کویہ بتا کر کہ حکومت سے کچھ نہیں ہو رہا، ذہنی اذیت کا شکار کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔

مضمون کا اختتام کی جانب گامزن تھا کہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے ایک دل دہلانے والا پیغام موصول ہواہے کہ جس میں یہ لکھا ہے کہ شامی بچے نے مرتے وقت یاد ہے کیا کہا تھا کہ میں اوپر جا کر اللہ میاں کو سب بتادوں گا، کہیں اس بچے نے واقعی ایسا تو نہیں کردیا۔ گردوپیش سے خوف آرہا ہے، کثرت سے توبہ تائب کیجئے۔

کروونا وائرس کے حوالے سے موصول ہونے والی اچھی اطلاعت بھی آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلیں، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چین نے ہنگامی بنیادوں پربنائے گئے ہسپتالوں کو مکمل طور پر بند کردیا ہے یعنی اب چین میں کوئی نیا مریض کروونا میں مبتلا نہیں پایا گیا، چین میں ہی ایک سو تین سالہ خاتون جنہیں کروونا لاحق ہوا تھا روبصحت ہوگئی ہیں، کچھ ممالک نے کروونا کے مریضوں کا صحیح سمت میں علاج کر لیا ہے جن میں بھارت نے دعوی کیا ہے کہ مختلف ادویات کی آمیزش سے انہوں نے کروونا کے مریضوں کا علاج کر لیا ہے، ایپل کمپنی نے چین میں اپنے اسٹور کھول لئے ہیں، اٹلی میں زیادہ ہلاکتوں کی وجہ عمررسیدہ لوگوں کی اکثریت بتائی گئی ہے، اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ وہ کچھ دنوں میں کروونا کی ویکسین تیار کرلے گا اسی قسم کی کامیاب تحقیق کے انکشافات کنیڈا کے سائنسدانوں نے بھی کیے ہیں، ایک اور امریکی محقق کا کہنا ہے کہ کروونا کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ یہ تمام وہ موضوعات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ناکہ ایسے حالات میں اپنی سیاسی بساط بچھائے رکھنے کی ہے۔

پاکستانی سیاست دانو ں سے خصوصی درخواست ہے کہ خدارا ملک میں انارکی پھیلانے سے بچیں۔ ہم پہلے ہی بہت زخم خودرہ ہیں، وقت ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ناصرف خلق خدا کی زندگیوں کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں بلکہ اپنے رب کے حضور بھی توبہ کے لئے سربسجود ہوجائیں۔ ہمیں یقین ہے ہم نے دہشت گردی کے خلاف جیسے جنگ جیتی ہے اسی طرح سے ہم کرونا کو بھی بہت جلد شکست فاش دیں گے بس عوام احتیاطی تدبیروں پر بھرپور طریقے سے کاربند ہوجائیں۔ اپنے آس پاس خیال رکھیں کہیں کوئی ایسے حالات میں بھوکا نا سوجائے۔ اللہ تعالی اسانیاں تقسیم کریں اور یہی اپنے لئے طلب کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments