وبا کے دنوں میں مزاح


ٹلنا تھا میرے پاس سے اے کاہلی تجھے

کمبخت تُو تو آ کے یہیں ڈھیر ہو گئی!

(مرزا ہادی رُسوا ’)

ہمارے بچپن میں ایک سست الوجود پڑوسی ہوا کرتے تھے۔ بیکاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بیگم اگرچہ معقول چست تھیں لیکن ان کی چستی میں سستی کے روڑے اٹکانے کو ان کے میاں اور بچے ہمہ تن کوشاں رہتے یعنی کچھ نہ کرنے کی جدوجہد کرتے رہتے تھے۔ وہ صاحب طبیعت سے کاہل تھے اور چونکہ تھوڑا اونچا بھی سنتے تھے اس لیے ان کا نام ہی بحر الکاہل پڑ گیا تھا مگر ان کے جیتے جی یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ واقعی ان کی سماعت کمزور ہے یا سستی کے باعث وہ کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔

کاہلی ان کی رگ رگ میں ایسے سرائیت کر چکی تھی کہ کبھی ساجن فلم کا گانا سنتے تو بعد میں یوں گنگناتے کہ کاہلی کا بڑا سہارا ہے ورنہ دنیا میں کیا ہمارا ہے۔ جس پر کہیں دور سے گانے کے بول مکمل کیے جاتے کہ لوگ مرتے ہیں موت آنے سے تم کو اس کاہلی نے مارا ہے۔

ہم کبھی کبھار ان کے بچوں کے ساتھ ان کے صحن میں کھیلا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی سونی ہم سے ایک آدھ سال بڑی تھی۔ ابا پر گئی تھی۔ گھر گھر کھیلتے ہوئے بھی ایسی آلکسی کا مظاہرہ کرتی تھی کہ سب عش عش کرتے۔ ہم مہمان بن کر جاتے تو سادے پانی سے تواضع کرتی اور ایک ہنڈیا میں جھوٹ موٹ کا پانی ڈال رکھتی اور عل الاعلان کہتی کہ پائے پک رہے ہیں اب پورا دن لگے گا تیار ہونے میں۔ ہم کہتے چلو کچھ میٹھا بنا لو تو کہتی تھی میٹھے سے تو دانت میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہم جل کر کہتے دانت میں نہیں لگیں گے ہاں تمہارے اناج میں ضرور کیڑے پڑ جائیں گے۔ اتنے میں اس کی والدہ اسے کچھ کام کہتیں جسے وہ بڑی سہولت سے ٹال دیتی تھی۔ دوسری بار اماں سختی دکھاتی تھیں کہ یہ کلموہی کیسی کام چور ہے۔ محنت سے تو ایسے بھاگتی ہے کہ بس۔

اسی اثناء میں سونی کے ابا اپنی منہ کی تجوری کھول کر لفظوں کا خزانہ گراتے کہ نیک بخت یہ اولاد محنت سے کیسے بھاگ سکتی ہے یہ تو بھاگنے کی بھی چور ہے۔

تو بیگم صاحبہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انھیں بھی لپیٹ میں لی لیتی تھیں کہ تم چپ ہی رہو تو بہتر ہے، کاہلی کا ایوارڈ ہوتا تو وہ تمہیں ہی ملتا۔

جواباً ان کے میاں انگڑائی لیتے ہوئے فرماتے کہ وہ ایوارڈ وصول کرنے کے لئے بھی میں تمہیں ہی بھیجتا۔ اور پھر ہم دیکھتے تھے کہ ان کی بیگم یعنی سونی کی والدہ ماجدہ ان کی حاضر جوابی پر سر دھنتے ادھر ادھر ہو جاتی تھیں۔

ہمیں بچپن کی یادداشتیں یوں قلمبند کرنے کی سوجھی کہ ایک تو کچھ اور لکھنا نہیں آرہا تھا اور جب آمد ہونے لگے تو یہی سست مزاجی کمبل ہوجاتی ہے کہ ایک مضمون لکھنے میں پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک مہینہ۔ وجہ؟ کہنے کو تو وقت کا قحط لیکن درحقیقت ازلی سُستی جو ایسا لگتا ہے کہ آکسیجن کے ساتھ ہماری سانسوں میں حنا کی خوشبو کی طرح مہک رہی ہے۔

آپ کہیں گے بتاؤ اپنے منہ میاں مٹھو؟ تو آپ کو بتاتی چلوں کہ خود اعتمادی کی اس خوبی کی مالک میں اکیلی نہیں بلکہ آدھی سے زیادہ قوم یگانہ ء روز گار ہے۔ وہ واقعہ تو سنا ہوگا آپ نے کہ ایک استاد نے بچوں کو سستی اور کاہلی پر مضمون لکھنے کے لئے دیا۔ اگلے دن جب کاپیاں چیک کرنے لگے تو ایک بچے نے پورا صفحہ خالی چھوڑ کر آخری لائن میں لکھا اسے کہتے ہیں سستی۔

یہ دیکھ کر استاد نے غصہ پیتے ہوئے طالب علم کو ایک زرّین قول سنایا کہ کاہلی تمام بری عادات کی ماں ہے جس پر بچے کا جواب تھا کہ سر اگر یہ ماں ہے تو پھر تو ہمیں اس کی عزت کرنی چاہیے۔

چلیں یہ تو محض لطیفے ہوئے لیکن درحقیقت کچھ لوگ روز مرہ کے امور میں کاہلی کا چولا پہن کر ایسی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ چست کم بختوں کو حیرانی میں ڈال دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو سردی کا موسم زیادہ پسند ہوتا ہے کیونکہ دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ لامحالہ کام کرنے کے اوقات بھی سکڑ جاتے ہیں۔ ہم لوگ اتنے آرام طلب ہیں کہ صبح اٹھ کر منہ دھوتے ہوئے نلکا بار بار بند کرنے کی زحمت تک ہمیں گوارا نہیں اب ایک بار نلکا کھل گیا تو یہ دانت مانجھنے، منہ رگڑنے اور چار پانچ لیٹر پانی ضائع ہونے کے بعد ہی بند ہوگا۔ اب تو ہم لوگ اپنی اس سستی اور کاہلی سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ اگر کسی دن معمولات کے امور کی انجام دہی کے بعد کچھ وقت بچ جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے بونس مل گیا ہو

ہمارے ہاں ٹی وی دیکھتے ہوئے لوگوں کو اگر چینل بدلنا مقصود ہو تو ریموٹ کی رسائی مسئلہ کشمیر سے کچھ کم نہیں ہوتی۔ اور تو اور کاہلی کے انجام پر بچپن میں ہم نے اپنے بڑوں سے بے شمار قصے کہانیاں سنی تھیں لیکن اب تو لگتا ہے کہ بڑے بوڑھے خود ہی کہانیاں سنانے میں کاہلی کرتے ہیں۔

ہمارا تو ماننا ہے کہ دوسری خوبیوں کی طرح کاہلی بھی خداداد صلاحیت ہوتی ہے جو پوت کے پاؤں کی طرح پالنے میں نظر آجاتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے لئے کسی قسم کی مشق نہیں کرنی ہوتی بلکہ یہ ازخود طبعیت میں ناجائز تعمیرات کی طرح بسی بسائی ہوتی ہے اور اس وقت تک قائم و دائم رہتی ہے جب تک کہ تجاوزات ختم کرنے والا احساس بلڈوزر لے کر سر پہ آن کھڑا نہ ہوجائے۔ وہ تو کہو یہ سانس قدرتی طور پر آتی ہے ورنہ تو کوئی کاہل زندہ بھی نہ ہوتا کہ کون ہر پل ہوا اندر باہر کرنے کی زحمت اٹھاتا پھرے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments