وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے


\"zulfiqar-ali\"کیا زمانہ آ گیا ہے جسے ہم سچ سمجھ رہے ہوتے ہیں کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ وہ سچ تو نہیں تھا۔ حالانکہ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں اور معلومات کے بہت سے ذرائع ہمیں دستیاب ہیں مگر پھر بھی ایسا کیوں ہے کہ ہم سچ جیسے جھوٹ کے سراب سے صحیح وقت پر باہر نہیں نکل پاتے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

 اصل میں انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن متوازی خطوط کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اب ان خطوط کو سچ اور جھوٹ کی کسوٹی پر پرکھنا ایک ایسی قابلیت ہے جس کا تعلق انسانوں کی تہذیبی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی سوجھ بوجھ اور مروجہ تعلیم و تدریس سے جڑا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے آج کی \”مہذب\” دنیا میں تعلیم و تربیت کو ریاستی سطح پر ایک اہم استعماری ایجنڈے کے طور پر مخصوص مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تعلیم کی مختلف جہتوں کو بطور استعماری پالیسی کے استعمال کرنے کے ہنر سے اہل اقتدار خوب واقف ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ کیونکہ اہل اقتدار اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے شعوری طور پر ایک خاص مائنڈ سیٹ پیدا کرکے اپنے طبقے کی طاقت کو دوام بخشتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر پاکستان میں رہنے والے بیشتر لوگوں کا نفسیاتی اور شعوری سطح کا جائزہ لیا جائے تو جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ میرے لئے بہت پریشان کن ہے۔ کیوں کہ اس تربیت اور ظاہری کواکب کی وجہ سے بیشتر عوام حقیقت کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے محروم  ہیں۔ جس کی وجہ سے استحصال کی مختلف شکلیں ھمارے سماج کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ جس سے سماج میں بیگانگی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے سچ پر اندھا اعتبار کر کے ریاست کے ہاتھوں یا ریاستی گماشتوں کے ہاتھوں استعمال ھوتا رہتا ہے۔

اس خطے میں جو سچ کا عام مروج ورژن ہے وہ بہت کھوکھلا اور ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک منظم کمپین کے ذریعے پھیلایا گیا ہے بلکہ عام لوگوں کے ذہن میں گھسیڑا گیا ہے۔ اس لئے جو لوگ حقیقی تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ بے چارے ہمیشہ کی طرح مایوسی کا شکار ھو کر آہستہ آہستہ موجودہ منظر نامے سے غائب ہو جائیں گے اور نئے لوگوں کو پھر ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائیگا۔ میری اس تمہید کی دلیل کیلئے کچھ سچ جیسے جھوٹ ہیں جو ہمارے سماج میں بہت وسیع عوام کے ذہنوں میں بری طرح سرایت کر چکے ہیں ۔ جن کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ بہت سی پرتوں میں بٹا ہوا نظر آتا ہے اور اسکا فائدہ ان کو پہنچتا ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہیں۔ اگر ہم ان سچ جیسے جھوٹ کی جانچ پڑتال کریں توجو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ مثلا عمران خان اصل تبدیلی کا نمائندہ ہے، راحیل شریف پاکستانی قوم کا اصل ہیرو ہے، نواز شریف کے دور میں پلڈاٹ کے سروے کے مطابق کرپشن کم ہو گئی ہے، میڈیا اور عدالتیں پاکستان میں آزاد ہیں، پیپلز پارٹی ایک انقلابی پارٹی ہے، مرتضی اور بے نظیر بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کرایا، 1965 کی جنگ پاکستان جیت گیا تھا، بلوچستان کے بلوچ جنگجو دہشت گرد اور را کے ایجنٹ ہیں، بلوچ سردار بلوچوں کی پسماندگی کے اصل ذمہ دار ہیں، زرداری نے ملک کو بیچ کھایا، ڈاکٹر قدیر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا ذمہ دار ہے، سارے سیاستدان کرپٹ، نااہل، اور نکمے ہیں۔  چین اور پاکستان کی دوستی اٹل اور سیاسی مفادات سے مبرا ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ہندو متعصب، ڈرپوک اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، سائنس کی ترقی کے ذمہ دار مسلمانوں کے بنیادی نظریات ہیں، سب جاگیر دار اور وڈیرے ظالم اور انسان دشمن ہوتے ہیں، ملالہ یہود و نصاری کی ایجنٹ ہے، انقلاب ہمیشہ عام لوگوں کے مسائل کا حل ہوتا ہے، پاکستان کے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام حکومت میں پنہاں ہے، مشرقی پاکستان انڈیا کی مداخلت کی وجہ سے ٹوٹا، پوری مسلم امہ کی نظریں اور امیدیں پاکستان پر ہیں، ہماری ایجنسیاں دنیا کی نمبر ون ہیں، بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کے رہیں گے، چین امریکہ کی معیشت کو شکست دے دے گا، اچھے اور برے طالبان کا تصور پاکستان کی ریاستی پالیسی کا حصہ نہیں ہے، اسامہ بن لادن کا پاکستان میں موجود ہونے کا ادراک ریاستی اداروں کو نہیں تھا، پڑہے لکھے لوگ ان پڑھ لوگوں سے زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں، نواز اور زرداری اندرون خانہ ملے ہوئے ہیں، المیڈا کی خبرریاستی سلامتی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسی بے شمار مثالوں کے بارے میں جب میں سوچتا ہوں تو ایک چیز مجھے واضح طور پر نظر آتی ہے وہ یہ کہ ہماری ریاست کے پاس اہل اقتدار کے لئے ایندھن کی کوئی کمی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments