کوروناکے پیچھے ڈینگی خارج از امکان نہیں!


اس وقت جب کہ کورونا کی وبا ہمارے سروں پر موت بن کر منڈلا رہی ہے، بدلتے موسم کے سبب ڈینگی کا سر اٹھانا خارج از امکان نہیں ہے، پنجاب کے ریجنل حکام اس سلسلے میں بروقت اپنے حلقوں میں اجلاس بلا کر صورت حال کا جائزہ بھی لے رہے ہیں اور تمام ضروری اقدامات فوری طور پر بروئے کار لانے کی انہوں نے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کو ہدایات بھی جاری کی ہیں، یہ سلسلہ ڈینگی سیزن کے خاتمے تک جاری رہنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں تک ہو سکے روز و شب صورتحال کو مانیٹر کیا جائے، تاہم یہ مسئلہ محض پنجاب کا نہیں، دوسرے صوبوں کو بھی ہے، اس کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

پنجاب کے کمشنر ضلعی حکام کو ہدایات دے رہے ہیں کہ حالات کے پیش نظر ہماری زیادہ سے زیادہ توجہ کورونا وائرس کی روک تھام کی طرف ہونی چاہیے، تاہم انسدادِ ڈینگی مہم کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کر نا چاہیے۔ اگرچہ کورونا اور ڈینگی کے خلاف اقدامات میں مماثلت نہیں پائی جاتی، تاہم اس ضمن میں محکمہ صحت کے حکام کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا ضروری ہے، کیونکہ دونوں کیسوں کی موجودگی میں اسپتالوں میں مریضوں کا داخل ہونا یا ان کے لواحقین کا اکٹھا ہونا دو متضاد باتیں ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ بہتر یہی ہے کہ مرض سے پہلے اس کے پیدا ہونے کے امکانات کو یکسر ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ڈینگی کے حوالے سے چھوٹی بڑی آبادیوں میں حالیہ بارشوں کے پانی کو جمع نہ ہونے دیا جائے، نیز کورونا ا ٓگاہی مہم کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو ڈینگی سے بھی با خبرکرتے رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ امرواضح ہے کہ حکومت جہاں کرونا سے مقابلے کے لیے عوام کو تیار کررہی ہے، وہاں ڈینگی سے بچاؤ کے لیے بھی وقت سے پہلے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا چاہئیں اور غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، کیو نکہ ڈینگی وائرس سے بھی سینکڑوں قیمتی جانوں کے ضائع کا خطرہ ہے۔ وطن عزیز کو کم و بیش پندرہ برس سے ڈینگی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، حالانکہ اتنے عرصے میں اس پر قابو پا لیا جانا چاہیے تھا، لیکن عوام کو کرونا ہو یا ڈینگی سے متعلق ابھی تک مکمل آگاہی حاصل نہیں ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا نہیں پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے، جبکہ حالات بروقت عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔

اگر کرونا وائرس کے حوالے سے ملک کے داخلی اور خارجی راستوں پر بروقت سخت اقدامات کرلیے جاتے تو حالات مختلف ہو نے تھے، حکو مت کوگزشتہ کو تاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ بہتر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی عوام کو آگاہی مہم کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کے باعث کرونا کے ساتھ ساتھ آنے والی ڈینگی کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں، دونوں وباؤں کے ایک ساتھ ہونے سے انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔

اس لیے حکومت کو کرونا وائرس کے ساتھ ڈینگی کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے مہم شروع کر دینی چاہیے۔ اس میں ویلج کونسلوں کی سطح پرآگاہی مہم کا آغاز کرنے کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس کے علاج معالجہ کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ متاثرہ مریضوں کو بروقت طبی امداد کا نہ ملنا عوام میں گھبراہٹ اور مر یضوں کے اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

کروناوائرس ہو یا پھر ڈینگی بخار غریب عوام کو سرکاری ہسپتالوں کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں سہولیات کا فقدان ہے، سر کاری ہسپتالوں میں ٹیسٹ سہولت نہ ہونے کے باعث غریب عوام کی بڑی تعداد مجبوری میں نجی کلینکس کا رخ کر تے ہیں، جہاں پر متاثرہ مریضوں کو مہنگے ٹیسٹ کے علاوہ بھاری ادویات تجویز کی جاتی ہیں، چونکہ عوام کی بڑی تعداد مہنگے ٹیسٹ اور ادویات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے وزیر اعظم کے لاکھ کہنے کے باوجودکہ گھبرانہ نہیں لڑنا ہے، عوام گھبراہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔

اگر حکومت عام غریب آدمی کے لیے سر کاری ہسپتالوں میں فری علاج کی سہولیات فراہم کر دے تو پا کستانی عوام بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے سخت احکامات کے باوجود ابھی تک محکمہ صحت اور ضلعی حکومتوں نے کوئی خاص عملی اقدامات نہیں اٹھائے جو انہیں اٹھانا چاہیے تھے، اسی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ میڈیا پر تقاریر کے ساتھ وزراء کے بیا نات سے عوام کو مطمئین کرنے کی کوشش دیر پا نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مشترکہ عملی اقدامات کو یقینی بنانا نے سے ہی کرونا اور ڈینگی جیسی وباؤں پر قابوپایا جاسکے گا۔ اس کے لیے وزیر اعلی عثمان بزدار یاشہباز شریف کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بروقت موثر عملی اقدامات کو یقینی بنا نا ہی درپیش چیلجز میں کا میابی کی کنجی ہے۔

اگرچہ تحریک انصاف حکومت اپنے طور پر درپیش چیلنجز کا بھر پور مقابلہ کر نے کی کوشش کر رہی ہے، مگر ہمیں بحیثیت قوم بھی کئی محاذوں پر اپنی توجہ اور وسائل کو مرکوز کرنا ہوگا، ایک محاذ صحت، دوسرا محاذ معاشرتی اور تیسرا محاذ جو سب سے ہم معیشت کا ہے۔ موجودہ صورتحال کسی باہمی انتشار کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے ذاتی اَنا کو پس پشت ڈالتے ہوئے مشترکہ قو می بیانئے پر عمل پیراں ہونا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک مدبر سیاست دان اور ریاست کار کے طور پر قومی بیانیہ اختیار کیا، جبکہ میاں شہباز شریف نے بھی وطن واپسی پر قومی یکجہتی اور حالات کا ملکر مقابلہ کرنے کا پیغام دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ حزب اختلاف کے قائدین کے پیغامات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے ساتھ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں، تاکہ موجودہ درپیش اور آئندہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ کورونا وبا کے سد باب کی مشترکہ حکمت عملی واضح کرنے کے ساتھ آنے والے ڈینگی پر قابو پانے کے اقدامات کو بروقت یقینی بنانا بھی ضروری ہے، اس میں پیچیدگیاں بھی ہوں گی، مذیدخطرناک حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور تباہ کن معاشی اثرات بھی سامنے آ سکتے ہیں، مگر ہمیں تمام حالات میں بحیثیت قوم بہت ذمہ داری اور باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کا میابی سے ہمکنار ہو ناہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments