احتیاط علاج سے بہتر ہے


ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اب جبکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایک ایسی وبا کا شکار ہے جس کا تا حال کوئی علاج نہیں اور جس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے تو ہمیں اس احتیاط کو اپنانے میں اس قدر دشواری کیوں پیش آ رہی ہے۔ پڑھے لکھے باشعور لوگ بھی یہ نہیں سمجھ رہے کہ ایسے میں کیا کرنا چاہیے تو کم پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں سے کیا توقع کی جائے۔ یہ وہ دور نہیں جب کوئی بات کسی سے چھپی رہے یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہمارے ہاتھ میں مستقل موبائل ہوتا ہے، سوشل میڈیا سائٹس پہ مسلسل خبریں آ رہی ہیں، ٹی وی بھی دیکھ رہے ہیں اخبارات بھی پڑھ رہے ہیں کہ جن ممالک کے باشندوں نے احتیاط نہیں کی وہ آج اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے شدید مشکلات کا شکار ہیں اٹلی کی مثال ہم سب کے سامنے ہیں تادمِ تحریر وہاں 4825 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں لوگ بیمار ہیں اور وہاں کے رہائشی خود اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم نے احتیاط نہیں کی لہذا ہم اس حال کو پہنچ گئے۔

یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر بھی ہم عام سی ہدایات پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ اس معاملے میں حکومت سے زیادہ عوام خود قصور وار ہیں حکومت نے اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی کہ عوام کو گھروں تک محدود کیا جائے مگر عوام خود ہی گھر میں رہنے کو تیار نہیں ہے اور کچھ نہیں تو دوستوں اور رشتہ داروں کو گھر بلا کر پارٹیاں شروع کردی ہیں اب ایسی عوام کو کون سمجھائے۔

حکومت کے پاس ایک آخری حل یہی رہ جاتا ہے کہ وہ عوام کو زبردستی گھروں تک محدود کرنے کے لئے لاک ڈاؤن کردے جس کا اب سندھ حکومت اعلان کر چکی ہے اور اعلانات ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ عوام بے جا گھر سے باہر نہ نکلیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن کتنے دن چلتا ہے اور سندھ حکومت اپنے اس فیصلے پہ عملدرآمد کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے میرے خیال میں جب تک عوام حکومت سے تعاون نہیں کرے گی تب تک کوئی بھی حکومت تنہا اس وائرس کا مقابلہ نہ کر پائے گی۔

یہاں تک تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی مکمل کئیر کرے انہیں بہترین علاج کی سہولتیں دے اور جو ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف ان مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہے ان کو حفاظتی کٹ فراہم کرے نیز یہ کہ دوسرے متاثرہ ممالک سے آنے والے لوگوں کی اسکریننگ وغیرہ کی جائے مگر اس سے آگے کچھ ذمہ داری ہماری بھی ہے کوئی ایسا نہیں کر سکتا کہ گھر گھر جا کر پوچھے کہ آپ نے آج کتنی دفعہ ہاتھ دھوئے یا یہ کہ آپ کس قدر ایک دوسرے سے دور ہیں اور آپ کتنی دفعہ آج کسی سے ہاتھ ملایا ہے یہ سب ہمیں خود کرنا ہوگا ہمیں خود اپنی پرواہ کرنی ہوگی۔

جو احتیاطی تدابیر بتائی گئی ان میں کوئی بھی ایس نہیں جس پہ عمل کرنے میں ہمارے بہت سے پیسے خرچ ہو رہے ہیں یا ہمارا وقت ضائع ہورہا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی ہدایت ہے جس پہ عمل کرنے سے ہمارا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ لہذا ذمہ داری کا مظاہرہ کریں یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی ہر بات کو مذاق میں اڑانے والی عادت ترک کرکے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور خود کو ایک ذمہ دار شہری ثابت کرنا ہوگا۔ یاد رکھیں کہ آپ کی ذرا سی بے احتیاطی کی سزا صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کی پوری فیملی اور پورا معاشرہ بھگتے گا۔ ذرا سوچئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments