کہیں دیر نہ ہو جائے


پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہو گیا مگر اس کا مطلب کیا ہے اس پر صوبائی اور وفاقی حکومت میں اتفاق نہ ہو سکا۔ اس فیصلے سے 24 گھنٹے قبل وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کا مطلب کرفیو بتاتے ہوئے کسی ایسے امکان کو مسترد کر دیا تھا۔ وزیر اعظم کے سمجھائے مطلب سے اگلے روز ہی ان کی مشیر برائے اطلاعات نے اتفاق نہیں کیا اور ان ہی کے چہیتے وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے مربی کی صلاح سے اتفاق نہ کرتے ہوئے پورے صوبے میں لاک ڈاؤن کر ڈالا۔

کووڈ۔  19 نام کی افتاد کی سنگینی اور اس کے پھیلاؤ کی سرعت سے بھی اتفاق نہ ہو سکا۔ ایران سے آنے والے زائرین کی سکریننگ اور ٹیسٹنگ کو ایک فرقہ نے اپنے خلاف تعصب قرار دیا تو دوسرے فرقے نے اس دوران اپنے مذہبی اجتماع کو منسوخ کرنا اپنی توہین سمجھا۔

ریلوے کے وفاقی وزیر نے بھی لاک ڈاؤن سے اتفاق نہیں کیا اور ابتدائی طور پر صرف 34 ٹرینوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ساری ٹرینیں بند کردینے کا اچانک اعلان کردیا۔ اس اچانک فیصلے سے ہزاروں لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا اعلان اگر پہلے دن ہی ایک تاریخ مقرر کرکے کیا جاتا تو لوگوں کو ایسی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔

سکول، کالج، دفاتر، دکانیں، ہوٹل، بازار، شاپنگ سینٹر اور ٹرانسپورٹ سب بند ہو چکے اور لوگ اپنے گھروں تک محدود ہو گئے مگر گھروں میں مجالس اور مساجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام حسب معمول جاری ہے۔  سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک میں لوگوں کو گھروں میں ہی نماز پڑھنے کی تاکید اذان میں ہی کردی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں باجماعت نماز مساجد میں ٹخنوں سے ٹخنے ملا کر پڑھنے پربھی زور دیا جاتا رہا۔

گلگت بلتستان کی آبادی کے بارے میں مردم شماری کے اعداد و شمار تو سرکاری طور پر دستیاب نہیں مگر اندازہ ہے کہ کل آبادی 20 لاکھ کے قریب نفوس پر مشتمل ہے۔  اب تک 80 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے آبادی کے تناسب سے اتنی بڑی تعداد میں وائرس کی تصدیق نہایت تشویش ناک ہے۔

چونکہ اب تک تافتان سے آنے والے لوگ ہی کرونا وائرس سے متاثر نظر آتے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد گلگت بلتستان کے اضلاع گلگت، نگر اور سکردو سے ہے۔  گلگت بلتستان میں کرونا وائرس سے متاثر مصدقہ 80 لوگوں میں سے 40 کا تعلق صرف ایک ضلع نگر سے ہے جو اپنی آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ متاثر ضلع ہے۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے بھی لاک ڈاؤن کا علان کردیا ہے مگر پہلے دن سب سے زیادہ متاثر ضلع نگر میں ہی اس کی خلاف ورزیوں کی شکایات آئیں۔  کچھ مذہبی زعما نے کرونا وائرس کی وبا کو بیماری ہی تسلیم کرنے سے انکار کرکے اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنا معمول جاری رکھا ہوا ہے نتیجتاً وائرس کا پھیلاؤ بھی جاری ہے۔

ابھی تافتان سے آنے والے متاثرین سے پھیلنے والے وائرس کا تدارک نہیں کیا جا سکا تھا کہ اس دوران رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع سے بکھرنے والے لاکھوں لوگ بستی بستی، قریہ قریہ لوگوں میں گھل مل رہے ہیں۔ اسلام آباد کی دو مساجد کو بند کرکے تبلیغی جماعت سے وابستہ 6 افراد کو قرنطینہ میں منتقل کردیا گیا مگرکیا پورے ملک میں ایسا کرنا ممکن ہوسکے گا؟

حکومت کی استعداد کار کا پول بھی کھل گیا۔  پہلے دن سے ائیرپورٹ اور زمینی راستوں سے کرونا وائرس کے داخلے کو نیپال کی طرح روکا جاسکتا تھا مگر حکومت کے تساہل، تغافل اور اور تجاہل کا نتیجہ ہے کہ آج پورا ملک حالت جنگ میں ہے۔  تافتان میں ایران سے آنے والے زائرین کے ساتھ جو سلوک ہوا اور جس طرح وائرس کے روک تھام کے لئے بنائے مراکز پھیلاؤ کا ذریعہ بنے وہ انتہائی افسوس ناک اور ناقابل بیان ہے۔

گلگت بلتستان میں ایک نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض مبینہ طور پر بغیر حفاظتی اقدامات اور ساز و سامان کے کرونا کے مریضوں کی نگہداشت کرتے ہوئے خود اس سے متاثر ہو کر جاں بحق ہو گیا۔ اسلام آباد کے واحد سرکاری ہسپتال پمز میں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس وائرس کو ٹیسٹ کرنے اور مریضوں کا دیکھ بھال کرنے کے انتظامات موجود نہیں۔

جب میڈیا میں حکومت کی کسی کوتاہی، غلطی اور کمزوری کی نشاندہی کی جاتی ہے تو ایسا کرنے والے کو فواراً ہیجان پھیلانے والا قرار دے کر سب ٹھیک ہے کا ورد شروع کردیا جاتا ہے۔  صدر مملکت خود چین چلے گئے اور وہاں لازمی طور پر کرونا وائرس کے تدارک کی چینیوں کی حکمت عملی بھی زیر بحث آئی ہوگی جو لاک ڈاؤن اور ٹیسٹ کے دو نکات پر مبنی ہے۔  مگر یہاں آکر خود سے لاک ڈاؤن کرنا تو دور کی بات، سندھ حکومت کی حمایت بھی نہیں کی۔ جواز کے طور پر بے روزگاری اور دیہاڈی دار مزدور طبقے کی دہائی دی جاتی رہی۔ مگر جب صوبائی حکومتوں نے اپنے طور پر یا کسی نادیدہ انگلی کے اشارے پر ایسا کردیا تو اپنے ہی سوالات کا جواب نہ دے سکے۔

کرونا وائرس ایک حقیقت ہے اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال بہت ہی تلخ حقیقت ہے۔  جب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہوتا انسانوں کے بیچ دوری سے ہی بچاؤ ممکن ہے ورنہ ایک تکلیف دہ بیماری کا سامنا کرنا پڑے گا اور ممکن ہے باربار کرنا پڑے۔ علاج جلدی دریافت نہ ہوا تو اس وائرس کے ایک سے زیادہ ادوار بھی آسکتے ہیں۔

دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ انسانوں کے میل ملاپ کو نہ روکا گیا تو یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور متاثرین کی بڑی تعداد ہسپتالوں کی طرف آتی ہے جو حفظان صحت کے نظام کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔  کوئی حکومت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس کا نظام شکست و ریخت کا شکار ہوجائے۔

یہ ایک اور تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں انڈیا، نیپال اور بھوٹان کی نسبت کرونا وائرس تیزی سے پھیلا تو اس کی وجوہات میں سعودی عرب اور ایران سے آنے والے مسلمان زائرین کی بڑی تعداد بھی تھی۔ برطانیہ میں بھی مسلمان خاندان اس وبا سے اب تک سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔  ان سب تلخ تجربات کے باوجود تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی لوگوں کا رویہ اس بارے میں سعودی عرب اور ایران کے ان کے ہم مذہب مولویوں سے بھی زیادہ غیر سائنسی اور غیر منطقی ہے۔  گھروں میں مجالس منعقد کرنے کی صدائیں اور مسجد میں آکر فرض نمازوں کی آدائیگی کے احکامات ایران میں مقدس مزارات بند کر دینے اور سعودی عرب میں مساجد حرمین الشرفین اور نماز کے لئے مسجد نہ جانے کے فیصلوں کی نفی ہے۔

لوگوں کو گھروں میں محدود کر دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک گھرانے کے ہر فرد کو باہر کے دیگر لوگوں سے گھلنے ملنے سے روک کر اس موذی وائرس کی منتقلی کے امکانات ختم نہ کر دئے جائیں۔  اگر مذہبی فرائض کی ادائیگی کے دوران دیگر لوگوں سے وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوں تواس بارے میں قابل تقلید مثالیں موجود ہیں جن پر اس وقت کئی ممالک میں عمل ہو رہا ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟

مذہبی معاملات بشمول اجتماعات پر حکومت پابندی لگانے سے گریز کرتی ہے مگر یہ مذہبی قیادت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے اوپر ایسی پابندی لگائے۔  اگر ایسا نہ ہوسکا تو اس سے پہلے کہ اس موذی وائرس کے شکار مریضوں کو وینٹی لیٹر مہیا کرنے کے لئے ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوجائے، ڈاکٹر اور طبی عملہ تھک ہار کر بیٹھ جائے، ہسپتالوں میں جگہ نہ ملے، مرنے والوں کی لاشوں کے قریب لوگ نہ جائیں حکومت کو خود عوامی اجتماع کی تمام جگہوں کو بند کردینا ہوگا تاکہ انسانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو بچایا جا سکے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments