کرونا کی وبا میں سات التجائیں


میرا نام فرح دیبا ہے۔ دو ہزار پانچ سے عالم بی بی ٹرسٹ سے روحانی، جذباتی، ذہنی اور جسمانی سطح پہ وابستہ ہوں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان سمیت پوری دنیا زندگی اور موت کے درمیان عجیب بے بسی اور ہیجان کی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں جس میں سب سے بنیادی احتیاط سماجی فاصلہ سوشل ڈسٹینسنگ ہے اچھے وسائل والے بیشتر لوگوں نے اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے اپنے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کو کام سے منع کر دیا ہے تا کہ احتیاط ہو سکے۔

مجھے اس کا علم ہمارے عالم بی بی سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین سے ہوا جب اُنہوں نے فون کر کے انتہائی دکھ سے راشن کی درخواست کی۔ یقین کریں کتنی ہی دیر میری آنکھوں کے سامنے ساری صورتحال گھومتی رہی اور مں ایسے دکھی ہو گئی جیسے یہ خوراک کی قلت میرے خاندان پہ آن پڑی ہے۔ میں نے شام کو ایک صوتی پیغام فون پر ریکارڈ کر کے کچھ دوستوں سے شئیر کیا جس کا مقصد تھا کہ آپ اپنی استطاعت کے مطابق ایسے خاندانوں کے راشن کا انتظام کرنے میں مدد کریں۔

کچھ دوستوں کے مثبت ردعمل سے حوصلہ بڑا اور طے کیا کہ ابتدائی مرحلے میں ہم اپنے سکول کے علاقے میں موجود سو ایسے گھروں کو ماہانہ مناسب مقدار میں تب تک راشن مہیا کریں گے جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے اور اگر زیادہ ساتھی مل گئے تو سو کی تعداد کو بڑھا دیں گے۔ اس سو کی تعداد میں گھر میں ساتھ بٹانے والی باجیاں، رکشہ ڈرائیور، روزانہ کی اُجرت پہ کام کرنے والے اور ریڑھی بان شامل ہیں۔

کچھ دوستوں نے کہا کہ تم ایک چھوٹا سا وڈیو پیغام بنا کے شئیر کرو تاکہ مذید لوگ اس خیر میں شامل ہو سکیں میں نے کئی بار کوشش کی لیکن ہر بار ایک دو جملے کے بعد خود پہ قابو نہ رہتا اور میں رونا شروع کر دیتی اب مجھے لگ رہا ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور میں نہیں کر سکوں گی تو لکھ کر آپ سے شئیر کر رہی ہوں۔

پہلی التجا۔

آپ جب احتیاط کے پیشِ نظر اپنے گھر سے ڈرائیور، کھانا بنانے والے، صفائی والے کو کام پہ آنے سے منع کریں تو اسے پورے مہینے اور ان تمام مہینوں کی پوری تنخواہ ضرور دیں جس میں وہ اس وائرس سے بچاؤ کے تحت آپ کا کام نہیں کریں گے تا کہ وہ گھر میں رہے تو اُسے کھانے کی فکر نہ ہو۔ اس سے دل اُس کے دل میں آپ کی عزت اور محبت کہیں زیادہ بڑھے گی کہ آپ نے مشکل وقت میں اسے اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ اس کا ساتھ دیا ہے۔

دوسری التجا۔

اگر آپ کی فیکٹری، ہوٹل، ریسٹورنٹ اور اسی طرح کے دوسرے کاروبار میں آپ لوگوں کو گھروں میں رہنے کے لئے چھٹیاں دے رہے ہیں تو ان کی تنخواہ باقاعدگی سے دیتے رہیں۔ ہماری حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو راشن فراہم کر سکے اور ایسی آفتیں پوری قوم کو مل کے لڑنی ہوتیں ہیں کوئی ایک یا دو شعبے کی جنگ نہیں ہے۔ یقین رکھیں اس سے آپ کو کوئی گھاٹا نہیں ہو گا بلکہ برکت ہو گی اور بانٹنے کی ذمہ داری بھی پوری ہو جائے گی۔ ہمیں سوچنا ہے کہ نامعلوم کل کے لئے بچانا ہے یا زندہ آج میں دوسروں پہ خرچ کر کے انسانیت کو بچانا ہے۔

تیسری التجا۔

ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ پاکستان میں جب بھی معاشی تنگی آئے یا کوئی اور مسئلہ پیش آیا تو زیادہ تر مخیر حضرات سب سے پہلے اپنی دی جانے والی امداد میں کمی کرتے ہیں یا ختم کر دیتے ہیں لیکن اپنے اخراجات میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ یہ پچھلے دنوں کا عالم بی بی میں میرا ذاتی تجربہ ہے۔ اس سماجی دوری کے دنوں میں ہمیں یہ احساس بھی اچھی طرح ہو گا کہ ہماری صحیح ضرورت ہے کیا؟ اور کس کس تحسین کو ہم نے ضرورت سمجھ لیا ہوا ہے؟ تنگی کے دنوں میں اپنی بجائے دوسروں پہ زیادہ خرچ کرنا شروع کر دینا مصیبت کا بہترین توڑ ہے۔

چوتھی التجا۔

سیاستدانوں سے لے کر صاحبِ استطاعت اور سوشل ورکرز تک لوگوں کو مختلف چیلنجز میں یہ کہتے اور لکھتے ہوئے سنتے ہیں کہ جب وسائل کم ہیں، مشکل گھڑی ہے تو روٹی آدھی کر دیں اپنا خرچ آدھا کر دیں، اپنی ضروریات کم سے کم کر دیں۔ آج اس عذاب کے وقت میں اُن تمام مخّیر اور با اختیار لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ آپ بھی آج سے اپنے ہر خرچے اور ضرورت کو آدھا کر کے باقی آدھا اپنے مصیبت میں مبتلا بہن بھائیوں پہ خرچ کریں۔ جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا ہے وہ آج مدینے کے لوگوں والا وہی ایثار کریں جو اُنہوں نے مکّے کے لوگوں کے لئے کیا تھا جب انہوں نے اپنے گھروں، وسائل اور دل کے دروازے مشکل سے دوچار مکے کے مہاجرین کے لئے کھول کر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایثار کی مثال قائم کی تھی۔

پانچویں التجا۔

ہمارے بڑے بڑے برینڈذ اور کمپنیاں سالانہ کتنے ہی پیسے مارکیٹنگ پہ خرچ کرتے ہیں۔ اُن سے درخواست ہے کہ اس وقت میں آپ اپنے لوگوں کے بچاؤ اور حفاظت کے لئے راشن، کھانے اور احتیاطی چیزیں جیسے کہ ماسک، دستانے اور صابن کا مفت بندوبست کریں۔ اس سے خیر تو ہو گی ساتھ ساتھ آپ کی بہترین پذیرائی بھی ہو جائے گی۔ اسی طرح وہ دوائیوں کی فیکٹری اور دکان والے جو ماسک، سینیٹائزر اور دستانے انتہائی مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں یا مصنوعی کمی کر کے زیادہ منافع کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں، خدارا اس قدر ظالم نہ بنیں اس عذاب کے دنوں میں بھی آپ کے اندر اگر لالچ اور حرص بڑھ رہی ہے تو آپ انسان ہونے کی گھٹیا ترین مثال ہیں اور میرا یقین ہے کا آپ کا انجام بہت سبق آموز ہو گا۔

چھٹی التجا۔

اپنے ڈاکٹرز، پیرا میڈکس سٹاف، سڑکوں پہ کھڑے پولیس والوں، صفائی والے عملے اور ہمیں گھروں کے اندر مختلف سہولتوں کو مسلسل فراہم کرنے والے لوگوں کو روزانہ سیلوٹ کریں۔ اُن کی خیریت کے لئے دعا کریں۔ اُن کی عزت کریں اور اگر ضرورت کے تحت باہر نکلیں تو اپنے پاس کچھ ماسکس، دستانے، سینیٹائزر اور کھانے کی چیزیں لازمی رکھیں تاکہ جس کے پاس حفاظتی سامان نہ ہو اسے مہّیا کریں اور ساتھ ساتھ کھانے کی اشیا بھی دیں۔ اس فرض کو نبھانے کی جو قیمت وہ ادا کر رہے ہیں ہم وہ تو کبھی نہیں چکا سکتے لیکن محبت سے اُن کو یہ بنیادی چیزیں تو پیش کر سکتے ہیں۔ یہ مجاہد ہمارے ہونے کو زندہ رکھنے کے لئے سخت حالات میں اپنی جانیں داؤ پہ لگا کر فرض نبھا رہے ہیں۔

آخری التجا۔

آج گھروں میں بستر پہ آرام فرماتے، صوفے پہ بیٹھے باتیں کرتے ہوئے، موبائل پہ ساتھیوں سے گفتگو میں، کھانے کی میز پہ پسندیدہ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، لان میں چہل قدمی کے دوران، بڑی سکرین پہ کچھ دیکھتے ہوئے، چند لمحوں کا وقفہ لے لیں اور اپنی زندگی کو ریوائنڈ کر کے دیکھیں۔ فلیش بیک۔

کیا بحیثیت انسان ہم نے اس کائنات میں موجود انسان، چرند، پرند، نباتات، حیوانات، جمادات، آسمان، زمین، پانی اور بھی بہت کچھ جو ہمارے ساتھ اس کائنات کا حصہ ہیں، کے معاملے میں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھائی ہے؟ اگر ندامت ہو تو پھر سب سے سچے دل سے معافی مانگیے اور آئندہ فطرت کے ساتھ ہر طرح کے کھلواڑ سے توبہ کریں۔ خود کو سب سے پہلے بدلیں کیونکہ اس وبا کے بعد یہ دنیا بالکل نئے رنگ اور مختلف انداز میں ہمارے سامنے ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments