یوٹیوب اور موٹیویشنل اسپیکرز


دو ماہ قبل یو ٹیوب کے ابتدائی صفحے پر ایک پاکستانی موٹیویشنل اسپیکر کی وڈیو کا اشتہار دیکھا۔ جب اسے کلک کیا تو جیسے ایک جھماکا سا ہوا او ر میرے ماضی کا ایک دور بلٹ ٹرین کی طرح میرے شعور کی پٹڑی پر زن سے گزر گیا۔

یہ وہ دور تھا جب میں اسٹیفن کوی اور اینتھونی رابنز کو پڑھا او ر سنا کرتا تھا۔ سیلف ہیلپ سے متعلق چھپنے والے مواد کی تاک میں رہتا ا ور اسے، نہ صرف خود پڑھتا، بلکے اپنے دوست احباب تک بھی پہنچانا صدقہ جاریہ سمجھتا۔

اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ ایسے لٹریچر نے میرے فکر ی ارتقاءمیں ایک اہم کردار اد ا کیا، اور ان اساتذہ سے لئے گئے نفسیاتی اوزار آج بھی مجھے مدد فراہم کرتے ہیں۔ تاہم اس قبیل کے لٹریچر کے ساتھ اپنے تعلق کے تجربات میں قارئین سے شئیر کرنا چاہوں گا، تا کہ و ہ بھی انہی مایوس کن فکری مغالطوں اور سرابوں سے پر راہوں سے بچ سکیں جن سے میں خراشیں لئے آگے بڑھا ہوں۔

سب سے پہلا تاثر جو ایسے اصحاب سے میرے تعلق کے نتیجے میں میرے قلب و ذہن پر نقش ہو گیا وہ یہ کہ ان موٹیویشنل ا سپیکررز کی گفتگو سن کر یا پڑھ کر فوری اثر رولر کوسٹر کا سا ہوتا ہے کہ جس میں ایڈرینیلن ہارمون رش انسان میں ایک لامحدود طاقت او ر امید کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ یہ قریب قریب ویسا ہی اثر ہوتا ہے جو تیز کافی کی ایک پیالی سے پید ا ہو تا جو انسان کو وقتی طو پر چاق و چوبند کر دیتا ہے، مگر جس کے خمار کے اترنے کے بعد زندگی اس جہادی کی سی لگتی ہے کہ جس کے ملک میں اب جہاد کی حاجت نہ رہی ہو، او ر اسے عام آدمی کی طرح اب روزی روٹی کا بندو بست کرنا پڑ رہا ہو۔

ایسا آدمی اسی ابتدائی رولر کوسٹر کیفیت کو دوبارہ دہرانے کی غرض سے ایک کے بعد ایک ایسے پروگرامز کا حصہ بنتا ہے۔ ہر بار ایک نیا جوش لئے کسی موٹیویشنل سیمینار سے ا ٹھتا ہے، او ر زندگی کو ”YES! “ کہنے کے جذبے سے خود کو سرشار محسوس کرتا ہے۔ مگر یہ جوش و ولولہ

ویاگر ا کے مختصر دورانیے کے راکٹانہ اثرات سے کچھ ہی زیادہ دیر پا ثابت ہوتا ہے۔

جہاں تک بات ہے ان موٹیویشنل اسپیکرز کے طرز خطابت او ر مواد کی، تو یہ حضرات مثبت طرزِ فکر اور دولت و امارت کا لازمی، منطقی تعلق جوڑ کر عام آدمی کو اس احساس میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ غربت دراصل ذہنی ہوتی ہے۔ آدمی اگر ہر دم مثبت رہے تو دولت، عزت، شہر ت اس کے گھر کی لونڈی ہو گی۔ اس غرض سے یہ ان چند افراد کی مثالیں، حال او ر ماضی سے، دیتے ہیں جن میں ایک انڈر ڈاگ حالات کا مقابلہ کر کے بامِ شہرت کو پہنچا ہوتا ہے۔

دیسی موٹیویشنل اسپیکرز تو اثنائے کلام میں قران، حدیث، صحابہ و اولیاء کے اقوال بھی جڑتے جاتے ہیں، جو ان کے بیان کو تضادات کا مجموعہ بنا دیتے ہے۔ جس مذہب کا پیامبر فقر کو اپنے لئے باعث ِ فخر سمجھتا ہو اس کے بیانات کے پیوند، امارت و شہرت کے حصول کے ہدف پر مشتمل بیان کی چاد ر میں تغافل عارفانہ سے لگانا یقیناً تضاد بیانی و تضاد سمتی کی مارکیٹ میں نیا اضافہ ہے۔

نیز یہ کہ سا معین و قارئین کے لئے ایسے اقوال ”اگر آپ غریب پیدا ہوئے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، مگر آپ غریب ہی مرے تو اس میں سراسر آپ کا قصور ہے“ © © © مزید احساسِ کمتری میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

ایسے سادہ لوح افراد، جو فکری پیچیدگیوں کو نہیں جانتے، کی ذہنی کائنات میں اب متقابل خیالات بظاہر ایک اکائی کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بیچارے نہیں جانتے کے ان کی ونڈوز میں اب ایک وائرس داخل ہو چکا ہے جو ان کے پورے آپریٹنگ سسٹم کا تیا پانچہ کرنے جا رہا ہے۔

یہ سادہ اصحاب خود تو اپنے فکری مسائل کی تشخیص کر نہیں سکتے، چنانچہ دنیاوی کامیابی نہ مل سکنے کی صورت میں یا تو خود کو ایک ناکام انسان مان لیتے ہیں، یا ان کا ایمان ایسے پروگرامز پر سے اٹھ جاتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حضرات کے لئے راستہ کیا ہے؟

پہلے تو یہ جان لیجئیے کہ فکری زندگی اپنے اندرون، خارج اور دونوں کے تال میل سے متعلق آگہی بڑھاتے رہنے کا نام ہے، ا ور اس میں کوئی شا رٹ کٹ نہیں۔

نمبر دو یہ کہ اس بات کا تعین کر لیں کہ آپ زندگی کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس سے کیا چاہتے ہیں؟ کامیابی کسے گردانتے ہیں؟ کامیابی آپ کو چاہیے کس لئے؟ کیا جس مقصد سے آپ کامیابی درکار ہے و ہ دولت کے انبار کے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اگر ہاں تو اس کی مثالیں تلاش کیجئیے اور خود سے پوچھئیے کہ ان کے پاس ایسا کیا ہے کہ یہ عسرت میں بھی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں؟

کیا سقر ا ط کے اطمینان کی وجہ کوئی سکسیس فارمولا تھی؟

کیا سدھارت عرف گو تم بدھ، اور عبدلستار ایدھی کی خوشی کا دار و مدار ان کی مادی کامیابی پے تھا؟

اگر نہیں تو پھر خوشی، مثبت طرز فکر اورامارت کا لازمی تعلق جوڑ کر دکھانا او ر اسے انسان کی بڑھوتری میں اس قد ر اہم بتانا کس حد تک فائدہ مند ہے؟

کیا انسانی ترقی کو ماپنے کے پیمانوں کو دوبار ہ تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے؟

ان سب نکات کے بیان سے میری ہرگز یہ منشا نہیں کہ میں فقر کی تعلیم دے رہا ہوں، یا کسی فرار پسند طبیعت کے نکھٹو آدمی کو ایک فلسفہ بطور جواز فراہم کر رہا ہوں، کہ یہ دوسری انتہا ہو گی۔ یقینا ایک پر سکون زندگی گزرانے کے لئے ایک کم سے کم مالی آسودگی لازم ہے۔

اس دراز نفسی کا مقصد فقط یہ ہے کہ ہر انسان ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ کچھ خاص رجہانات رکھتا ہے۔ وہ خود کیا ہے، اسے دریافت کرنا اس کے اپنے لئے سب سے بڑا کام ہے۔ اگر اس شخص کو اس اہم کام میں امداد دینے کی بجائے سماجی احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے دولت و دنیاوی کامیابی کو اس کا ہدف بنا کے پیش کر دیا جائے تو ممکن ہے وہ مادی اعتبار سے ایک کامیاب انسان بن جائے پر اس کامیابی کے اہرام پے پہنچنے کے بعد اسے شناخت کا بحران آ لے۔ وہ ایک ایگزیزسٹینشل گردباد میں خود کو گھرا پائے۔ اسٹیفن کوی نے اپنی معرکت الآرا تصنیف ”کامیاب لوگوں کی سات عادات“ کے آغاز میں ایسے کامیاب لوگوں کے چونکا دینے والے تاثرات درج کیے ہیں جو دولت اور شہرت کے تخت پے بیٹھے گہری ناخوشی اوروجودی خلا کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

خود شناسی، دنیا وی کامیابی کا حصول، ان دونوں میں جس نوعیت کا تعلق ہونا چاہیے، اس سے متعلق اصولوں کا شعوری تعین، اپنی شناخت کی ساخت گری، اس شناخت میں کس شے، احساس یا اصول کو انسان مرکزی حیثیت دے، یہ سب ایک فرد واحد کو خودسوچنا ہے۔ خواہ اس کے لئے مدد اور مواد وہ کہیں سے بھی بہم پہنچائے (بشمول موٹیویشنل اسپیکرز) ۔

سقراط کے اس قول پر اس مضمون کا اختتام کروں گا:

’تفکر کے بغیر گزاری گئی زندگی اک کارعبث ہے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments