کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون اور غریبوں کے لیے حکومتی ریلیف


پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اب تک 800 سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں جزوی طور پر لاک ڈاون کی صورت حال ہے۔ حفاظتی اقدامات کے باعث دکانیں مارکیٹیں اور کاروبار بند ہے۔ یومیہ اجرت پر روزگار کمانے والے مزدور اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کیوں کہ نہ تو ان کے پاس کوئی سرمایہ ہے اور نہ ہی انہیں کوئی کام یا روزگار میسر آ رہا ہے۔ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے افراد کے خاندان غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔

غریب کے گھر کا چولہا بج رہا ہے اور وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے موجودہ صورتحال میں غریب عوام کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا غریب دیہاڑی دار افراد کو یہ حوصلہ ہوا تھا کہ کم از کم اس نازک صورتحال میں حکومت وقت ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کا اعلان کرے گی تاکہ وہ اور ان کے بچے بھوک سے بچ جائیں، لیکن ایسا نہ ہوا۔ وزیر اعظم کی جانب سے ریلیف پیکیج کے طور پر 70 لاکھ دیہاڑی دار طبقے کے لیے ماہانہ 3 ہزار روپے دینے کی منظوری د ی گئی۔ ساتھ ہی ایکسپورٹرز کے لیے 200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ اس ریلیف پیکیج کا اگر جائزہ لیا جائے تو غریب عوام کے لیے 21 ارب روپے تفویض کیے گئے ہیں۔ 70 لاکھ دیہاڑی دار مزدور طبقے کو ماہانہ 3 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس 3 ہزار روپے کے سمندر کا مزدور کیا کریں گے؟

پاکستان میں اوسطا ایک خاندان میں 4 سے چھ افراد ہوتے ہیں جن کا واحد کفیل ایک مرد ہوتا ہے۔ نہایت چھوٹے خاندان کا بھی اگر موازنہ کیا جائے تو ایک خاندان میں 4 افراد یعنی مرد، اس کی بیگم اور دو بچے شامل ہیں۔ 3 ہزار روپے ان چار افراد کی کفالت کے لیے کتنے مفید ہوں گے؟ اس کے لیے ایک سرسری جائزہ پیش کیے دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک روٹی کی اوسطا قیمت 7 روپے ہے۔ اگر فرد اگر دن میں صرف دو وقت دو روٹیاں کھائے توماہانہ 240 روٹیاں بنتی ہیں۔

گھر کے چار افراد ہوں تو یہ تعداد 240 ضرب 4 یعنی 960 ہو جاتی ہے۔ یہ صرف روٹی کا موازنہ ہے اس کے ساتھ کوئی چائے، سالن، سبزی کچھ بھی شامل نہیں ہے۔ 960 روٹیاں خریدنے کے لیے ایک مزدور کو کم از کم 6720 روپے چاہیئں۔ اور حکومت کا وظیفہ 3 ہزار روپے ہے۔ دوسرا ایک مزدور صرف روٹی پانی میں ٖڈبو کر کھائے گا۔ نامساعد حالات میں ایسا بھی ممکن ہو جاتا لیکن غریب کے گھر میں نومولود اور 5 سال سے کم بچوں کے سبب یہ بھی ناممکن لگتا ہے۔

بڑے تو بھوک بھی برداشت کر لیں گے لیکن ان کے آنگن کی ننھی کلیاں بھوک کیسے برداشت کریں گی؟ ایسے میں یہ سمجھ آتا ہے کہ حکومت کی جانب سے دیا جانے والا یہ ریلیف پیکیج محض ایک مذاق ہے۔ دوسری جانب وہ طبقہ جو کاروبار سے منسلک ہے اس کے لیے 200 ارب کی سبسڈی کا سن کر غریب سوال کرتا ہے کہ کیا کورونا وہ لایا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ غریبوں کا استحصال بند کریں۔ منصوبہ بندی کریں عوام آپ کے ساتھ ہے لیکن اس منصوبہ بندی میں غریب کو خود کشی پر مجبور تو نہ کریں۔ ان کے بچوں کو بھوک و افلاس سے بلک بلک کے مرنے سے بچائیں۔ منصوبہ بندی کرنی ہے تو ایسی کیجیے کہ کم از کم غریب کو زندہ رہنے کا حق تو ملے۔ کورونا مارے نہ مارے غریب کو بھوک ضرور مار دے گی۔

دوسرا غریب عوام کو یہ 21 ارب روپے پہنچانے کا سلسلہ بھی کافی مشکل لگتا ہے۔ کیا یہ وظیفہ گھر گھر جا کر دیا جائے گا؟ یا یہ بینک کے ذریعے دیا جائے گا؟ مزدور کی رجسٹریشن، پھر ویری فکیشن اس سب میں کتنا وقت لگے گا۔ اس حوالے سے حکومتی عہدیداران ابھی کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ منصوبہ بندی بہتر نہیں اس کے بجائے اگر یوٹیلٹی بلوں میں سبسڈی اور راشن فراہم کرنے کی اسکیم لائی جاتی تو اس سے غریب دیہاڑی دار طبقے کو زیادہ سہولت مل جاتی۔

دوسرا حکومت کی جانب سے ماہانہ اجرت بھی حد سے کم ہے اور اس اجرت میں دیہاڑی دار 40 کلو آٹا بمشکل لینے کے قابل ہو گا۔ دوسری جانب مکمل لاک ڈاون، ماسک اور سینی ٹائرز کی قلت کا گلہ کرتی عوام بھی ہے۔ جنک بس ایک ہی موقف ہے کہ مکمل لاک ڈاوں کر دیں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ بھی ہے اجرت بھی ملتی رہے گی۔ گھر میں کھانے کو بھی سو نعمتیں ہیں۔ گھر رہیں گے ٹی وی دیکھیں گے آرام کریں گے اور کورونا کا شکست سے دوچار کریں گے۔

لیکن یہ طبقہ شاید اس بات سے نا آشنا ہے کہ ایک مزدور صبح بیلچہ لے کر جب نکلتا ہے تو اس کے دل میں سو سوال ہوتے ہیں کہ آج کی دیہاری لگ جائے تو کم از کم 100 میں سے 2 چیزیں تو خاندان کو میسر کر پائے گا۔ دن کو سخت موسم میں جب اس کا جسم تھک کر چور ہو گاتا ہے تو فورا اسے گھر کا راشن۔ دوائیں۔ یوٹیلٹی بل۔ اور بچوں کی فرمائشیں آرام ترک کے محنت پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہر سطح پر اعلانات ہوتے ہیں ماسک پہنیں، سینی تائزر سے ہاتھ دھویں لیکن غریب نہ تو ماسک خرید سکتا ہے اور نہ ہی سینی ئائرز، بھلے شہر کی ہر گلی چوک میں ان اشیاء کے سستے اسٹال بھی لگا دیں، وہ تو صابن بھی نہیں خرید سکتا اور صبح سادے پانی سے منہ دھو کر کام کاج کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اسے تو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔

مکمل لاک ڈاون کا مطالبہ کرنے والے شاید اس بات سے بھی نا آشنا ہیں کہ لاک ڈاون ہوتا کیا ہوتا ہے؟ اس دوران ریاست کو اپنے شہریوں کو کس قدر سہولیات اور بنیادی ضرویات فراہم کرنا ہوتی ہے؟ معیشت کو کیا نقصان پہنچتا ہے؟ اور اس سارے عمل میں غریب دیہاڑی دار پر کیا گزرتی ہے۔ کینڈا اور دیگر ممالک کی بڑی بڑی مثالیں دینے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ ا ن ممالک نے سپورٹ کے تحت اپنے شہریوں کو کیا سہولیات اور امداد فراہم کی ہے۔

کیا پاکستان اس حالت میں ہے کہ سارے شہر بند کر کے اپنے شہریوں کو دو دن بھی گھر میں کھانا فراہم کر سکے۔ نجانے اس ملک میں غریب کا کیا حال ہو گا لیکن غریب کا حکومت وقت یا نام نہاد ریاست مدینہ سے بھروسا اٹھ گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں لاک ڈاون ہو گا تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے اس کا تو معلوم نہیں لیکن اگر غریب عوام کے لیے بہتر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو کورونا سے تو شاید جان چھوٹ جائے لیکن ملک میں سومالیہ اور دیگر ممالک کی طرح عوام کا ایک بڑا طبقہ شدید غذائی قلت کا شکار نظر آئے گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ پیارا ملک پاکستان آفات سے محفوظ رہے، یہ تما م مسائل جلد ہو جائیں اور پاکستان کے عوام بالخصوص غریب طبقے کی مشکلات ختم ہوں۔ پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments