ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ساتھ ناانصافی کیسے ہوئی؟


سوشل میڈیا کے توسط سے ہمیں اپنے ایسے سکالرز کے پتہ چل رہا ہے جو نہ صرف عظیم عالم تھے بلکہ وقت کے نباض تھے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنا الگ فرقہ نہیں بنایا بلکہ کسی مستند فرقے سے اپنے آپ کو الگ رکھ کر اللہ کے فرمان یھنی القران کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا..تفریق کے نقصان دہ رستے سے ھٹ کر مذہبی رواداری کا سبق دیا مگر چونکہ ان کا ایسا کرنا مذہبی ٹھیکیداروں کے مفادات کو ٹھیس پہنچاتا تھا اس لیے انہوں نے ان کے پیغام کو عام مسلمانوں تک پہنچنے نہیں دیا انہیں مختلفف القابات سے بدنام کیا.حیرت ہوتی ہے کہ وہ علامہ عبیداللہ سندھی جن سے انقلاب روس کے رہنما لینن نے رہنمائی لینے کی خوائش ظاہر کی جب اسے اسلام کے فلاحی نظام کا پتہ چلا اسے مسلم دنیا نے کسی قابل ہی نہ سمجھا
ڈاکٹر غلام جیلانی برق شاید واحد سکالر تھے جو مدارس سے یونیورسٹی تک پہنچے عربی زبان میں گولڈ میڈل لیا اور اپنا تھیسس انگریزی زبان میں لکھا جس کی تصدق 1940میں ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں نے کی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں 18کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھے۔ ان کی مشہور کتابوں میں “دو اسلام “، “دو قران ” اور “ایک اسلام ” تھیں جو اسلام کے عملی کردار پر زور دیتی تھیں اور جن کی اس وقت کے ملاو¿ں اور جعلی پیروں نے بڑھ چڑھ کر مخالفت کی کیونکہ ڈاکٹر صاحب اسلام کو خانقاہوں سے نکال کر عملی میدان میں آنے پر زور دیتے تھے . بجاے وظیفوں کے سائنسی تعلیم کے حصول پر اصرار کرتے تھے . انکا پیغام یہ تھا کہ اللہ محنت کرنے والے کو پسند کرتا ہے چاہے وہ ٹام ہو یا عبدالرحمن ہو۔ ڈاکٹر صاحب کا پیغام بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے اجنبی تھا انہیں تو یقین دلایا جا چکا تھا کہ یہ بے کار دنیا تو کافروں کیلئے ہے اور ہمیں تو بس اپنی آخرت سنوارنی ہے اور غریب اور امیر تو اللہ بناتا ہے اوریہ بھی کہ غلامی بھی امر ربی ہے ہمارے دیں کے آفاقی عملی پیغام کو پیچھے کر دیا گیا

ڈاکٹر صاحب کا ایک عظیم کارنامہ سنی شیعہ کے درمیان اختلاف کا حل ایک چھوٹی سی کتاب “بھائی بھائی ” میں دینا تھا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ خلفاے راشدین اور انکے خاندانوں میں ایسا کوئی اختلاف نہیں تھا جس کو بنیاد بنا کر سنی اور شیعہ علما نے صدیوں سے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے درپے رکھا ہوا ہے اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے سنی شیعہ علما کو مخاطب کر کے کہا.. ” اے سنی شیعہ واعظو! خدا کیلئے ذرا تھم جاؤ اور ذرا سوچو کہ وہ اسلام جو تم اپنے مریدوں کے سامنے پیش کرتے ہو، اس قابل ہے کہ حکما اور مفکرین عالم کے سامنے رکھا جائے؟ کیا تم مندوبین عالم کے سامنے ایک بھی ایسی بات کہ سکتے ہو جو ان کی فکر و نظر میں ہیجان پیدا کرے اورجس میں ان کے دکھوں کا مداوا موجود ہو ؟ کیا تم عصر رواں کی مشکلات سے واقف ہو۔ ان مشکلات کا حل جو قران نے تجویز کیا ہے کیا اس سے آشنا ہو؟ پیام قران کی عظمت اور رفعت سے باخبر ہو ؟ ان اعتراضات سے آگاہ ہوجو علمائے مغرب تمھارے قران پر کر رہے ہیں ؟ اگر برا نہ مانیں تو میں سچ کہہ دوں کہ آپ ان چیزوں سے واقف نہیں. آپ رفتار علم سے محض بے خبر اورپیام قران سے نا آشنا ہیں اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپکا اسلام قرانی نہیں بلکہ روایاتی ہے۔ آپ جن اختلافات پر لڑ رہے ہیں وہ روایات سے ماخوذ ہیں۔ قران میں تو ابوبکرؓ اور علی ؓکا ذکر تک نہیں “

ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ منکرحدیث تھے حالانکہ انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ احادیث کے مطالعہ میں گزارا. اب اوریا مقبول صاحب ایک اور الزام سامنے لائے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب ’من کی دنیا ‘ جو 1960ءمیں لکھی گئی تھی اعتراف کیا تھا کہ انہوں پہلے لکھی جانے والی ساری کتابیں جاہلیت میں لکھی تھیں اور یہ کہ وہ اس پر نادم ہیں. حالانکہ اس اعتراف کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اپنے سچ لکھنے پر نادم تھے بلکہ اس وقت جب وہ کافی ضعیف ہو چکے تھے ایک گروہ نے ان کے گھر پر ہلہ بول دیا تھا اور ان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ ایسا کریں اور زیادہ عقل اسی کو مانتی ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کی سلامتی کو خطرے میں دیکھ کر ایسا کیا ہو گا کہ ہمارا سچا اللہ تو کسی کا جھوٹا اسلام قبول کرنا تو ایک طرف کسی کا جھوٹا کفر بھی قبول نہیں کرتا یعنی جو کوئی ایسا جبر یا انتہائی مجبوری کے عالم میں کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments