محمد الیاس کا ’آئینے میں گُم عکس‘ او ر ثقافتی گھٹن


برٹرینڈر رسل نے بہترین زندگی کی تعریف کرتے ہوئے ایک کتاب میں لکھا ہے :

(The best life is inspired by love and guided by knowledge)

۔ ”بہترین زندگی وہ ہوتی ہے جس کا محرک محبت ہو اور جس کے لیے رہنمائی علم سے حاصل کی جائے“۔ ٍ

چنانچہ نہ تو علم کے بغیر محبت اور نہ ہی محبت کے بغیرعلم سے اچھی زندگی پیدا ہوسکتی ہے۔ گویا ان دونوں کا عدم توازن یا کسی ایک کی عدم موجودگی انسانی زندگی میں نا ہمواریاں پیداکردیتی ہے۔ ۔ برٹرینڈ رسل کا یہ فارمولہ معروف ادیب محمد الیاس کیایک طویل کہانی پر صادق آتا ہے۔

، محمد الیاس کے افسانوں کے مجموعے ”آئینے میں گم عکس“ میں شامل کہانی ’۔ اگلے جنم‘ کے مر کزی کردار موہن۔ ۔ سے دو نوجوان، خوب صورت ہم جماعت خواتین اپنے اپنے انداز مین بہت محبت کرتی ہیں۔ وہ بھی دونوں کو یکساں پسند تو کرتا ہے، مگر یہ فیصلہ نہیں کر پا تا کہ کس سے شادی کرے اور کس سے نہ کرے۔ وہ دونوں کو انکار کر کے اسی مخمسے میں ایک تیسری خاتون سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر میں بیوی بیچ محبت نہ ہونے کی وجہ سے موہن کی ازدواجی زندگی ایک خشک، جامد اور بو ر رفاقت کی مثال بن جاتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ آخری عمر میں خود کشی کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ مگر بالآخر اس کی محبت ہی اس کو اس اقدام سے روکتی ہے۔ اگلے جنم؛ محبت کی موجودگی مگر علم کی عدم موجودگی کے نتیجے میں بر وقت اور درست فیصلے نہ کرنے اور ایک عذاب میں زندگی گزارنے کی سبق آموز داستان ہے۔

” آئینے میں گم عکس“ میں محمد الیاس کا قلم معاشرے میں موجود ثقافتی گھٹن کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ وہ بے جا ثقافتی پابندیوں اور ان سے پیدا ہونے والی تعفن انگیز گھٹن کے ماحول میں پلنے والے انسانوں کی نفسیاتی الجھنوں کو بہت فطری انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس کتاب میں موجودان کے افسانے : ’ستیہ پیر‘ ’بج گئے گھگو‘ ، ’میٹھا میوہ‘ ، ’شرمانہ‘ ، ’داشتہ‘ ، ’ذرا سی احتیاط‘ ، ’راز دان‘ ، ’عزتوں والے ”اور‘ ڈنج گڑنجا“ شامل ہیں، انہی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق انسان اور حیوان اپنی اپنی جبلتوں کے زیر اثر جیتے ہیں یہ اور بات کہ انسان کو شعوری طور پر حیوان پر سبقت حاصل ہے۔ ان جبلتوں میں۔ ”جذبہ بقا“ یعنی زندہ اور سلامت رہنے کی ضرورت، جسمانی تقاضے مثلاً کھانا، پینا، سونا، جنسی تسکین اور حصول مسرت، ہر انسان کے اندر فطری طور پر بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں اورہرانسان ہر وقت ان کے زیر اثر رہ کر زندگی گزارتا ہے۔ کچھ دانشور وں موقف ہے کہ انسان کی فطری ضروریات تمام مروجہ معاشرتی تقاضوں کے اندر رہ کر پوری ہونی چاہیں اور معاشرے پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ ایک ایسا متوازن، اور روشن خیال معاشرتی نظام تشکیل دے جس کے تحت ہر فرد کو اپنے فطری تقاضوں کے حصول اور ان کی تکمیل تک رسائی میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اس سے بے چینی، نا آسودگی اور جرائم پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

تاہم بد قسمتی سے اکثر ایسا ہونہیں پاتا۔

بنیادی اور جبلی ضروریات کے حصول میں ثقافتی گھٹن، معاشرتی عدم توازن اور رسم و رو اج رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پھر افراد میں بغاوت جنم لیتی ہے، کیونکہ جبلی تقاضوں کو بہر حال اپنی تسکین چاہیے ہوتی ہے۔ آئینے میں گم عکس میں شامل افسانے۔ ’دو ٹکیاں کی نوکری‘ او ر ’طہارت‘ فطری تقاضوں کے سامنے جھک جانے کی نہایت عمدہ مثالیں ہیں۔

زیر نظر کتاب ”آئینے میں گم عکس“ اردو افسانوں میں اپنے اسلوب، بیان اور موضوعات کے انتخاب کے حوالے سے ایک شاندار ادبی اضافہ ہے۔ محمد الیاس نے اپنی کہانیوں اور افسانوں میں معاشرتی بد صورتیوں کو اس قدر خوبصورت پیرائے میں بیان کیاہے کہ ان کی بد نمائی کہیں چھپ گئی ہے اور ان کے کردار اپنی مظلومیت کے ساتھ بہت نمایاں ہو گئے ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو انسان کے طور پر ہی لیاہے جو غلطیوں کا پتلا ہے اور یہی ان کے قلم کا کمال ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں کہانیاں محمد الیاس کے اندر ان کے قلم سے اپنے آپ کولکھوانے کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ ان کے دو سو کے قریب افسانے ایک درجن سے اوپر افسانوں کے مجموعوں میں شامل ہو کر چھپ چکے ہیں۔ جن میں : لوح ازل پر لکھی کہانیاں، مور پنکھ پر لکھی آنکھیں، صدیوں پر محیط اک سفر، منظر پس غبار، دوزخ میں ایک پہر، اند ہیر نگری کے جگنو، کٹڑیاں چوبار ے،

گلیوں اور بازاروں میں، عقوبت نفس، چڑیاں اداس ہیں، مایا کو مایا ملے ( ناولٹ) اور آئینے میں گم عکس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں کے انتخاب : ٹریس پاس

( انتیس منتخب افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ بقلم راقم الحروف) ، ’‘ مورتیں ’بقلم عرفان جاوید‘ اور ’وارے کی عورت اور دوسری کہانیاں ”، منظر عام پر آ چکے ہیں۔

سادہ طرز زندگی سے معمور، درویش منش اور گوشہ نشین محمد الیاس، افسانوں کے علاوہ چھ ناولوں کے بھی مصنف ہیں۔ ناولوں میں : کہر، برف، بارش، پُروا، دُھوپ اور حَبس شامل ہیں۔

ان کتابوں میں شامل منفرد معاشرتی اور نفسیاتی موضوعات کے چناؤ نے ان کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک جہاں جہاں اردو پڑھی جاتی ہے وہاں یکساں مقبول کر رکھا ہے۔

محمد الیاس کا نام او ر کام اب اردو تخلیقی ادب کے نصاب میں شامل ہے اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے گریجوئیٹ، پوسٹ گریجو ئیٹ اور ایم فل کے بیس سے اوپر طلباء و طالبات ان کے کام پر تحقیقی مقالے بھی لکھ ا رہے ہیں۔

ادب کے طلباء کی جانب سے ان کی زندگی میں ہی ان کو یہ خراج تحسین ملنا، یقینا ان کے کام کی انفرادیت اور عالمگیریت کا واضح ثبوت ہے۔

محمد الیاس کی گزشتہ دو دھائیوں سے جاری ادبی خدمات کے صلے میں حکومت و قت کی طرف کبھی کسی انعام و اکرام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ان کو ہر سال پرائڈ آف پرفارمنس کے لیے نامزد توکیا جاتا ہے مگربد قسمتی سے محروم بھی رکھا جاتاہے۔

محمد الیاس کو نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے 2009 ء میں، ناول ”کہر“ پر واحد ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ محمد الیاس جیسے قلمکاروں کی قدردانی، عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کے لیے کوئی عملی اقدام کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments