کرونا وائرس فطرت کا انڈیکیٹر


جرمنی کہ فلسفی ایراک فرام کہ کتاب The Sane Society ایک کا ایک مشہور جملہ ہے ”فطرت نے انسان کو جنم دیا اور اسی انسان نے فطرت کا ریپ کیا ہے“ دراصل یہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا المیا ہے کہ انسان نے فطرت کہ اصولوں کی کھلے دل سے توہین کی ہے۔ جس کی سزا آج ہم کرونا جیسے وائرسز کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ انسان کہ ترقی کا سفر ویسے تو ہمالیہ پہاڑوں کو چھوتا ہوا تیزی سے جاری ہے۔ اسی اشرف المخلوقات نے دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کردیا ہے۔ دور عھد میں اس نے ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا میں گلوبل ولیج کا نعرہ بلند کیا۔ اور اس کی ترقی کہ ترانے پوری دنیا میں گن گنائے گئے۔ انسان کہ اس ترقی کا سفر بتدریج جاری رہا۔ یہاں تک اس نے اپنی موجودگی کے جھنڈے چاند اور مریخ پر بھی گاڑ دیے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کہ بڑھتے استعمال نے انسان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا۔ روز بروز نئی نئی ایجادات سے انسان کا سر تکبر سے اونچا ہوا۔ لیکن اس ترقی نے فطرتی اصولوں پر جو منفی اثرات مرتب کیے ان کا ذکرکرنا بھی ہم پر لازم ہے۔ کیونکہ بعض مواقع پر انسان کی اپنی ہی ترقی اس کی تنزلی اور تباہی کا باعث بنی ہے۔ اسی انسان نے ایٹم کو دریافت کیا۔ لیکن اسی کہ ہاتھوں بنے ایٹم کی تباہ کاریوں کہ قصے انسانی تاریخ کہ کتابوں میں درج ہیں۔

صنعتی ترقی نے جہاں انسان کی زندگی میں بے شمار آسانیاں پیدا کی وہی گلوبل وارمنگ جیسے چیلنج کا سامنا آج پوری دنیا کو ہے۔ جنگلات کا روزبروز کم ہونا اور ہوا میں فضائی آلودگی تیزی سے کاربن ڈائی اکسائیڈ کا تیزی سے بڑ رہی ہے۔ کہنے کو تو سائنسی انقلاب نے انسان کو اس دھرتی کی سپرپاور بنادیا گیا ہے۔ انسان نے ارتقا سے فطرت کا مقابلہ بھی کیا۔ لیکن کئی مقام پر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

جیسا کہ آج دنیا میں کرونا وائرس کا الارم آن ہوگیا ہے۔ چین کہ شہر وہان سے پھیلا ہوا کرونا وائرس دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کہ 150 سے زائد ممالک میں داخل ہوچکا ہے۔ اس جان لیوا وائرس کہ خوف کا سایہ دنیا کہ ہر ملک میں منڈلا رہا ہے۔ کئی ممالک میں جدید ترین مواصلاتی نظام سے لے کر تعلیمی ادارے اور دفاتر بند کردیے گئے ہیں۔ دنیا کہ اکثر ممالک میں کھیلوں کہ میدان، تفریح و سیاحت، سمندری بندرگاہوں سے لے کر زمینی راستوں کو بند کردیا گیا ہے۔ بیشتر ممالک کہ شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ ایسی صورتحال میں آج انسان کی بے بس نگاہ اس وبا کی ویکسین بنانے والے کو تلاش کررہی ہے۔

جیسا کہ اس وبا نے پوری دنیا کہ افراد کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہیں۔ امریکا، چین اور برطانیا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس وبا نے تیزی سے تباہی پھیلادی ہے۔ اس وائرس کہ حوالے سے بہت سی خبریں گردش کررہی ہیں۔ کسی نے اس وائرس کو انسان کی شیطانی سازش قرار دیا ہے۔ کن افراد نے اس وبا کو دنیا میں بائیولوجیکل جنگ کا نام دیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

لیکن یہ کہنا بلاشبہ درست ہوگا کہ اس قسم کہ وائرس فطرت کی طرف سے انسان کہ لئے اشارہ ہے۔ کہ اسے دنیا میں اپنے قوانین فطرت دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ آج انسان کہ منفی رویے کا ہی نتیجا ہے کہ ہے اس کہ پاس جوہری ہتھار، بے پناہ جنگی ساز و سامان اور بارود کہ ڈھیر تو موجود ہیں۔ لیکن اس وبا سے لڑنے کہ لئے ماسک، وینٹیلیٹر اور سینیٹائزر کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ دور عہد کا سب سے بڑا سوال ہے کہ ہمیں اب بھی جنگی جنون میں مبتلا رہنا ہے یا فطرت دوست نظام متعارف کروانا ہے جو انسان کہ ضروریات کہ عین مطابق ہو۔ جس سے ہم کرونا جیسے امراض کو آسانی سے شکست دے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments