کرونا کے لیے بیرونی امداد


بالآخر ملک کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ جس فیصلہ سے وفاقی حکومت کترا رہی تھی اور وزیراعظم جس کی مخالفت میں ملک کی کمزور معیشت کا عذر پیش کر رہے تھے (حالانکہ اس سے پہلے مبینہ وزیراعظم دھرنا سیاست اور اپنی انسٹالیشن مہم کے دوران خود ملک کا لاک ڈاؤن کر چکے ہیں ) اس فیصلہ کا اعلان ایک ماتحت ادارے کے اہلکار نے اپنی پریس کانفرنس میں کر دیا جس نے ملک میں جمہوریت کے متعلق کئی سوال اٹھائے دیے ہیں، ۔ بہرحال عوام کے وسیع تر مفاد میں یہی فیصلہ درست تھا۔

بروز جمعہ بزنس سٹینڈرڈ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پاکستان کو کورونا کی وباء اور اس سے پیدا ہونے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک 350 ملین ڈالرز اور ورلڈ بینک 238 ملین ڈالرز امداد فراہم کرے گا۔ ساتھ ہی امریکہ نے بھی 100 ملین ڈالرز امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حیران کن طور پر پاکستانی حکمران وسائل نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے اس بیرونی امداد کا ذکر لبوں تک لے کر نہیں آئے جیسے یہ امداد براہ راست کسی اور کے کھاتے میں جائے گی۔

بیرونی امدادوں کے غیاب کے معاملے میں پاکستان ایک پراسرار ریاست ہے۔ چند دن پہلے چائنہ سے آنے والے امدادی ساز و سامان کے جہاز کو میڈیا نے کوریج دی کئی وزراء نے بھی ٹویٹس کیں مگر پھر اس سامان کا کچھ پتہ نہیں چلا مبینہ طور پر طبی عملہ حفاظتی لباس نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہا ہے۔ گلگت میں شہید ہونے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو بھی مکمل حفاظتی سازوسامان مہیا نہیں کیا گیا تھا۔ دوسری طرف لاہور میں 23 مارچ کی تقریب میں کئی سپاہیوں کو حفاظتی لباس پہنے پریڈ کرتے دیکھا گیا۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک سوال یہ ہے کہ بیرونی امداد کا حقدار کون ہے؟ وہ جن کے نام پر پیسہ آئے گا یا وہ جو ہمیشہ ہی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کیا حقداروں کو وہ امداد پہنچائی جائے گی یا ماضی کی طرح اس بار بھی وہ صرف سیڑھی کا کردار ادا کریں گے۔

بد قسمتی سے اس معاملے میں ارباب اختیار کی شہرت کافی داغدار ہے ماضی میں دہشتگردی کی جنگ کے متاثرین اور افغان مہاجرین کے لیے آنی والی امدادی رقوم ان لوگوں تک نہیں پہنچیں اور وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے متاثرین بھی پچھلے تین ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیرستان میں کئی دن کے احتجاج کے بعد انہوں نے پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے اس امید کے ساتھ احتجاج منتقل کیا کہ کچھ شنوائی ہو مگر ارباب اختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، ان لوگوں کی مارکیٹیں اور گھر آپریشن کے دوران تباہ ہو گئے اس مد میں بیرونی امداد بھی مقتدر حلقے نے وصول کر لی مگر متاثرین تک نہ پہنچ سکی۔

ریحام خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہیں پشاور میں خریداری کرتے وقت اس وقت حیرانی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب افغان مہاجرین کے لیے آنی والی امدادی خوراک کے پیکٹس پشاور میں بکتے دیکھے تھے۔

ماضی میں جو ہوا سو ہوا ’بقول کسے ضائع ہونے والے دودھ پر ماتم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘

اب کی بار پاکستانی کی عوام کو اس پیسے کی صوبوں میں برابر تقسیم اور اس کے شفاف استمعال کو یقینی بنانے کے لیے اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔

یقیناً یہ پیسہ سرمایہ داروں اور صنعت کاروں میں تقسیم کرنے کی بجائے حکومت عام عوام کی فلاح و بہبود انہیں صحت کی بہتر سہولیات مہیا کرنے اور اس وباء میں پہلی صف میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر انسانیت کی بقا کے لیے کھڑے ہونے والے مسیحاؤں (طبی عملہ) کو سہولیات فراہم کرنے میں استمعال کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments