اگر عالم دین بادشاہ کی سچائی بتائے تو عالم دین سچا ہے اور نہ بادشاہ!


کسی زمانے میں، ہم بھی مولانا طارق جمیل صاحب کے بہت بڑے فین ہوا کرتے تھے، اب بھی میری نظروں میں مولانا طارق جمیل کے لئے بحثیت ایک انسان اچھی خاصی عزت ہے، لیکن اب میں نے شخصیت پرستی چھوڑ دی ہے۔ میری نظر میں شخصیت پرستی ایسی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایک محدود دائرے میں بند کر دیں، مطلب اسی دائرے کے اندر رہو، آپنی سوچ اسی دائرے میں اس شخص تک محدود رکھو جن کہ آپ مرید بنے بیٹھے ہو۔ شخصیت پرستی میں بس ادمی کے عقل پر تالے لگ جاتے ہیں، پیر کے بارے میں بات اچھی ہو یا بری بغیر سوچے سمجھے ماننا پڑتی ہے، یہ سب مجھ سے نہیں ہوتا، اپنا ذہن تو ہر وقت کسی نہ کسی جستجو اور منرل کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔

اتوار کو اے ار وائی نیوز پر محترم طارق جمیل کو میں نے بہت غور سے سنا، مولانا صاحب چینل پر ایسے گڑگڑا کر معافیاں مانگ رہا تھا کہ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اخر مولانا صاحب نے ایسا کیا کیا ہے جو ایسا گڑگڑا کر معافیاں مانگ رہے ہیں؟ دعا کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا صاحب نے عمران کے شکل میں حکمران خدا کی طرف سے تحفہ قرار دیا، انہیں نیک سیرت اور محنتی قرار دیا، مولانا صاحب نے کہا کہ میں نے ایک کپ چائے کہ سوا ایک پیسہ بھی نہیں لیا وغیرہ وغیرہ۔

مولانا صاحب کی تقریر کافی اچھی تھی لیکن مجھ جیسوں کے لئے سینکڑوں سوالات چھوڑ گئی۔ مولانا صاحب نے کہی بھی اپنی تقریر میں میڈیکل اسٹاف یعنی نرسوں اور ڈاکٹروں کے لئے دعا نہیں کی نہ ان کے لئے کوئی سہولیات دینے کے لئے بات کی۔ اور نہ ہی اپنے پیروکاروں سے یہ درخواست کی کہ میڈیکل اسٹاف کے ساتھ دوستانہ اور نیک رویہ اپنائیں کیونکہ یہ لوگ کم پیسوں پر کس طرح پہلی لائن میں انسانیت کو بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔

مولانا صاحب نے نیک سیرت اور محنتی حکمران کی بات کی تو موجودہ پارلیمنٹ میں موجود حکمران تیس تیس سال سے مختلف شکلوں اور پارٹیوں کی صورت میں اسی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ انہوں اب تک کیا خدمت کیا ہے؟ ایک ایسا ہسپتال اور تعلیمی ادارہ اب تک ان لوگوں نے پاکستان میں نہیں بنایا ہے جس میں یہ لوگ کم از کم اپنا علاج اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔

مولانا صاحب نے ہچکی لیتے ہوئے کرونا وائرس کو اللہ کا امتحان قرار دیا حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے یہی مولوی صاحبان کرونا کو کافروں پر اللہ کا عذاب قرار دے رہے تھے مگر جب اب بات اپنے آپ پر آئی تو کرونا دسویں جماعت کا امتحانی پرچہ بن گیا۔

مجھے یقین ہے کہ مولانا صاحب کی اس تقریر سے پاکستان کی اور بھی بہت سی مذہبی پارٹیاں اس لیے متفق نہیں ہوں گی کیونکہ موجودہ حکومت نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا ہے، اب تک پاکستان میں کرونا وائرس کے ایک ہزار کیسز بھی نہیں ہیں مگر ان کو بھی انتہائی نااہلی کے ساتھ ہینڈل کیا جارہا ہے، ڈاکٹروں کے پاس وبا سے لڑنے کے لئے ہتھیار ہی نہیں تو کیسے چلے گا؟ اگر ایک حکومت اتنا بھی نہیں کر سکتی تو وہ کیسے محنتی ہو سکتی ہے؟ کیوں مولوی اپنے فن کا فائدہ اٹھا کر اسلام کے نام عوام کو ورغلا رہا ہے؟

جب عالم دین یہ بتانے لگ جائیں کہ بادشاہ کتنا نیک اور پرہیزگار ہے تو دو چیزیں سمجھ لیں کہ نہ عالم سچا ہے اور نہ بادشاہ۔

حکیم ترمذی ؒ نے نوادر الاصول میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایا ں تھے، انہوں نے میری داڑھی پکڑ کر کہا:

”انا للہ وانا الیہ راجعون! کچھ دیر پہلے میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کی امت آپ کے بعد کچھ زیادہ نہیں، بس تھوڑی ہی مدت میں فتنے میں مبتلا ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا : وہ کس وجہ سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے علما اور امرا کی وجہ سے۔ امرا عام لوگوں کے حقوق روکے رکھیں گے، اور (لوگوں کوان کے حقوق) نہیں دیں گے، اور علما امرا کی خواہشات کے پیچھے چلیں گے“۔

باقی حقوق کی تو بات چھوڑیں، کیا ہم کو اپنی حکومت نے انشورنس کی صورت میں، دوا کی صورت میں، ہسپتال یا کلینک کی صورت میں ایسا کچھ صحیح طریقے سے دیا ہے جو ہم کو کرونا سے بچانے میں مد د کریں؟ پھر مولانا صاحب کیسے دین کے نام پر یہ سب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

اللہ پاک مولانا صاحب کو لمبی عمر عطا کریں مگر وہ اپنے گریبان میں جھانکیں جو بھی انہوں نے کہا، کیا یہ سب سچ تھا؟

جھوٹ بولنے پر اسلام میں کیا سزا ہے یہ مولانا صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں۔

پھر ملک، غریب لوگوں اور مذہب کے نام پر دبائے گئے معصوم عوام سے غلط بیانی کیوں کی؟

اللہ پاک مستقبل میں مولانا صاحب کی دعا کو سچا ثابت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments