مارشل لا بھی ناکام ہو گا!


گزشتہ روز اداریے میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک و قوم کو جس بحران کا سامنا ہے اور حکومت کی ہٹ دھرمی اور بے عملی کی وجہ سے جو بے یقینی پیدا ہوئی ہے، کیا اس تعطل کودور کرنے کا واحد راستہ مارشل لا کا نفاذ ہے ۔ تاکہ ایک اتھارٹی پوری قوت سے لوگوں کی جان بچانےکے لئے فیصلے کرسکے اور بروقت مناسب اور ضروری اقدام کئے جاسکیں، قومی یک جہتی کی صورت پیدا ہو اور بے چینی، اضطراب و اضطرار کی پیدا کی گئی کیفیت سے نکلا جاسکے۔ یہ سوالات ملک کے معروضی سیاسی حالات، اپوزیشن کے ساتھ وزیر اعظم کے حقارت آمیز و افسوسناک رویے اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی و بے چارگی کی روشنی میں سر اٹھا رہے ہیں۔ کوئی بھی صحافی ان سوالوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ مشکل سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے ہی قومی بھلائی کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ انہیں نظرانداز کرنے سے مشکلات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

یہ امر قابل ستائش و تحسین ہے کہ ’ہم سب ‘ کے مدیر اعلیٰ وجاہت مسعود نے اس اداریہ پر اپنے اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا کہ ’پاکستان کسی صورت میں دستوری طریقہ کار سے انحراف کا متحمل نہیں ہو سکتا‘۔ انہوں نے وطن دوست حلقوں سے کہا ہے کہ ’مارشل لا کی اصطلاح ہی کو سیاسی لغت سے خارج کر دینا چاہیے‘۔ وجاہت مسعود کی اس رائے سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے ’ہم سب‘ کے مدیر اعلیٰ نے اس اداریہ میں اٹھائے ہوئے سوالوں پر اپنی مختصر رائے دے کر اہل قلم اور صحافیوں کی پوزیشن واضح کردی ہے۔ انہوں نے آئین کی بالادستی کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں قرار دیتے ہوئے بدترین حکومت کے ساتھ بھی جمہوری وسیاسی طریقوں سے نمٹنے کی بات کر کے یہ اصول واضح کیا ہے کہ کسی بھی ملک کے آئینی انتظام پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ ایک جید صحافی کی طرف سے اہل صحافت کے اس اصولی مؤقف کو جمہوریت پسند حلقوں میں مشعل راہ کی حیثیت حاصل رہے گی۔ پاکستان میں اگر ایک بار پھر جمہوری طریقہ کار کو مسترد کرنے کی کوئی افسوسناک کارروائی ہوئی تو راقم الحروف بھی اسی قافلے میں شامل ہوگا جس کے سرخیل وجاہت مسعود جیسے بے لوث اور مخلص جمہوریت پسند اہل قلم ہیں۔

اس وضاحت کے بعد یہ جاننا چاہئے کہ جس طرح وجاہت مسعود نے ایک صحافی، مدیر اور اس ملک کے شہری کے طور پر ملکی آئین پر اپنے غیر متزلزل ایمان کا اظہار کیا ہے، کیا ملک کے سیاست دان، حکومت اور فوج بھی ایسی ہی دو ٹوک رائے کا اظہار کرکے جمہوریت کے تسلسل اور آئینی بالادستی کے بارے میں اٹھنے والے شبہات کو دفنانے کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دریں حالات شاید یہ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ عملی صورت یہ ہے کہ شبہات پیدا کرکے ایک ایسی صورت حال کو جنم دیا جارہا ہے جس میں شہریوں کی بڑی اکثریت کو یہ محسوس ہونے لگے کہ فوج ہی ان کی آخری امید اور محافظ ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ’محافظ‘ کے طور پر فوج کی کردار سازی کی گئی ہے جبکہ سیاست دانوں کو چور لٹیرے ثابت کرنے کے لئے ریاست کے ہر ادارے کو پوری قوت سے استعمال کیا گیا ۔ حالانکہ سیاست دان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تاکہ قومی معاملات طے کرسکیں اور فوج منتخب حکومت کو میسر ایک ایسا بندوبست ہوتا ہے جس کے ذریعے وسیع تر قومی مقاصد کی تکمیل کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس میں ملک کا دفاع، قومی سطح پر کئے گئے فیصلوں کا نفاذ، امن و امان کی سنگین صورت میں مدد، کسی قدرتی آفت میں ضروری تعاون فراہم کرنا فوجی اداروں کی بنیادی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔

اس کی بجائے اگر یہ صورت موجود ہو کہ کسی بحران میں امداد فراہم کرنے پر فوج کی بت سازی کا کام پورے زور شور سے کیا جائے اور اہم فیصلے کرنے والے سیاست دانوں اور پارلیمنٹیرینز کو ناقص العقل، مفاد پرست اور بدعنوان قرار دینے کا سلسلہ جاری رہے۔ جب ملک کی حکومت ہو یا اپوزیشن، سیاسی طاقت کے لئے اصل منبع یعنی عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے ان عسکری اداروں کی طرف دیکھیں جنہیں ریاست نے آئینی حکومت کی مدد کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے، ان کی رہنمائی کا فریضہ ودیعت نہیں کیا۔ جب ملکی مباحث میں ایک پیج کی گونج ہو اور ایسی سیاسی کاری گری کا انتظار روز کا معمول ہو جس کا مرجع عوام کے ووٹ نہیں بلکہ بعض اندھیرے کمروں میں بیٹھے کچھ سائے ہوں تو جمہوریت، آئین اور اس کے احترام کی بات کرنے کے باوجود سنگین سوالوں سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔

موجودہ سماجی و سیاسی بحران میں شاید ان وجوہات پر بحث کا محل نہیں لیکن فضا میں موجود سوال سننا، سمجھنا اور ان کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔ سوال بدستور یہی ہے کہ کیا فوجی حکومت کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں قوم کے لئے باعث نجات ہو سکتی ہے؟ جواب بھی اتنا ہی دو ٹوک ہے کہ ہرگز نہیں۔ مارشل لا بھی اس ملک کو درپیش موجودہ یا کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس قسم کا انتظام چونکہ ملک کی آئینی اساس سے متصادم ہوتا ہے، اس لئے وہ بحران حل کرنے کی بجائے ایک نئے بحران کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں متعدد بار کئے گئے تجربات کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہر مارشل لا قوم کی ناکامی و نامرادی میں اضافہ کا سبب بنا ۔ اس کے باوجود اس لفظ کو متروک کرنے کی بجائے اس مزاج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو آئین کو کاغذ کا بے کار پرزہ قرار دیتا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ اس ملک کے صحافی، دانشور، عالم، ادیب، استاد، اور سیاست دان نے کس حد تک اس مزاج کو راسخ کرنے کے لئے کام کیا ہے۔ مسئلہ کی جڑ کو کاٹے بغیر ایک لفظ کا استعمال ترک کردینے سے بہتری کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔

صحافت تنے ہوئے رسّے پر چلنے جیسا عمل ہے۔ سیدھا چلنے پر داد تو ملتی ہے لیکن طعنہ بازوں سے فرار نصیب نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے کہیں توازن قائم رکھنے میں چوک ہوجائے یا پاؤں غلط پڑنے سے جسم غیر متوازن ہو تو لعن طعن اور الزام تراشی کا ہنگامہ مقدر بنتا ہے۔ گو کہ ہجوم میں کہیں کہیں بازی گر کی امان اور رسّے پر سفر کی تکمیل کی ڈوبتی ہوئی آس کسی سسکی نما خواہش کے طور پر بھی موجود ہوتی ہے۔ بازی گر گرتے گرتے سنبھل جائے تو تف بھیجنے والے داد کے ڈونگرے برساتے بھی دیر نہیں لگاتے۔ لیکن رسہ پھلانگنے میں ناکام رہنے والا بازی گر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ صحافی بازی گر نہیں، وقائع نگار ہوتا ہے۔ بازی گر کامیابی سے رسہ پھلانگ کر داد کا مستحق ٹھہرتا ہے لیکن صحافی سچی خبر دے کر بھی مورد الزام ٹھہرتا ہے۔ سچی صحافت کے لئے سچا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سچ کو ماننے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ تب ہی سیاست دان کو عوام کا نمائیندہ اور صحافی کے حرف کو اس کے ایمان کا پیمانہ سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن جب سارے معیار پسند ناپسند اور ذاتی یا گروہی مفاد کی ڈور سے بندھے ہوں اور آئینی انتظام کی بجائے مفادات کی گٹھری کی حفاظت ہی مقصود ہو تو سچے لفظ اور دیانت دارانہ رائے پر شک کے سائے موجود رہیں گے۔ کتنے ہوں گے جو اس بوجھ کے ساتھ استقامت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟

کل اٹھائے گئے سوال آج بھی موجود ہیں۔ کیا سیاسی انجینئرنگ سے اقتدار میں آئی ہوئی حکومت اور اس کے سربراہ عمران خان موجودہ بحران میں حکومت کی بے عملی اور ناکامی کے تن تنہا ذمہ دار ہیں یا موجودہ سیاسی انتظام کی نقشہ گری کرنے والوں کو بھی اس الزام کی زد پر آنا چاہئے۔ سفر کا آغاز ایک پیج کے اعلان سے ہؤا تھا۔ اب اس صفحے کاکون سا حصہ دکھائی دینے والے حصے کو سیاہ دکھا کر اپنے ہاتھ دھونے کی کوشش کررہا ہے؟ عمران خان سے سرزد ہونے والی غلطیاں، پارلیمنٹ کو غیر مؤثر کرنے کا دانستہ اقدام، جمہوری اداروں اور طریقوں کی مسلسل توہین، کیا یہ سب عمران خان کی غلطیاں ہیں؟ یا انہیں اس گمراہ کن راستے کی طرف دھکیلنے والے وہی ہاتھ ہیں جو آئین کو طاق میں رکھنے کے امکان کو دوٹوک انداز میں مسترد کرنے سے گریزاں رہے ہیں ۔

کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے لاک ڈاؤن پر عالمی اتفاق رائے ہے لیکن پاکستان میں اسے ملک کے وزیر اعظم نے متنازع بنایا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان ملکوں کی حکومتیں مساجد اور خانقاہوں کو بند کرکے اس وائرس کی روک تھام کررہی ہیں، مملکت خداداد پاکستان میں علمائے کرام نماز باجماعت کی مسلسل ادائیگی کے لئے حدود و قیود مقرر کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ملک کا صدر الازہر سے وبا کی صورت میں مساجد بند کرنے کا فتویٰ لیتا ہے اور علمائے کرام سے مشاورت کا عندیہ دے رہا ہے۔ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مسجد نبوی اور حرم شریف کسی مفتی کے اعلان کے تحت نہیں بلکہ ایک شاہی فرمان سے بند کئے گئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت فتوؤں، دعاؤں اور اتفاقات پر بھروسہ کررہی ہے۔ کیا یہ سب کسی بڑے طوفان کی تیاری کے اسباب ہیں۔

ان سوالوں کے جواب ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق تلاش کرسکتا ہے لیکن کورونا وائرس کا حملہ کسی فتوے یا سیاسی فیصلے کا محتاج نہیں ہے۔ اس حملہ میں اہل پاکستان کی زندگیاں داؤ پر ہیں۔ ملک کا آئین آزادی سے پہلے زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ حکومت یہ ذمہ داری پوری کرنے سے معذوری ظاہر کررہی ہے۔ پارلیمنٹ خاموش ہے اور الزامات کی پٹاری ہر ہاتھ میں موجود ہے۔ ایسے میں سوال بھی اٹھیں گے اور بے بنیاد اور مہلک امیدیں بھی باندھی جائیں گی۔

اس رجحان کو سامنے لانا، سوالوں کو پیش کرنا، بے یقینی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا، آئینی انتظام یا جمہوریت سے انکار نہیں ہے۔ اس کی حفاظت کے لئے صف بندی کی پکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments