کیا آپ جسم اور ذہن کے پراسرار رشتے سے واقف ہیں؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ ہادیہ یوسف

ہادیہ یوسف کا خط

محترمی ڈاکٹر سہیل!

دو دن پہلے آپ کا کالم پڑھا جس میں آپ نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ہمیں کنول کا پھول بن کر رہنا ہے۔ یعنی دلدل میں رہنا بھی ہے اور اس سے اٹھے بھی رہنا ہے۔ آپ نے تو یہ بات کہہ دی مگر میں دو دن سے یہ سوچ رہی ہوں کہ کیسے رہوں میں کنول کے پھول کی طرح؟ کیا یہ اتنا آسان ہے؟

ہم انسان کی مثال کنول کے پھول سے کیسے دے سکتے ہیں؟ کیا کنول کا پھول بھی ہماری طرح دل، دماغ اور احساسات رکھتا ہے؟ کیا اسے بھی ناگہانی آفات اور نامواقف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا اسے بھی ہماری طرح فکر معاش ستاتا ہے؟ کیا اس کے بھی ہماری طرح محبت کے رشتے ہوتے ہیں جن کے لیے وہ تڑپتا ہے؟ کیا اسے ان رشتوں کے بچھڑ جانے کا خوف ہوتا ہے؟ کیا اسے بھی مستقبل کی فکر ستاتی ہے؟ کیا اسے بھی موت کا خوف رات کے آخری پہر نیند سے بیدار کر دیتا ہے؟

بتائیں ڈاکٹر صاحب! کیا کنول کے پھول کو ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے؟

میں یہ سب سوال آپ سے اس لیے پوچھ رہی ہوں کیوں کہ میں پچھلے دس دن سے ان تمام احساسات کو جی رہی ہوں۔ کرونا وائرس کی وبا کے آنے کے بعد سے لاک ڈاون میں ہوں۔ تعلیم کی غرض سے کیونکہ میں اپنے ملک میں نہیں ہوں اس لیے مکمل طور پر تنہا ہوں اور گھر والوں سے ملے ہوے تقریباً ایک سال سے زائد ہو چکا ہے۔

آپ نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ : ”جب کسی انسان کی اینزائٹی ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ کئی جسمانی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض حد سے زیادہ حساس لوگ پینک اٹیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب کسی کو پینک اٹیک ہوتا ہے تو اس کا سانس تیز ہو جاتا ہے، پسینہ آنے لگتا ہے، ہاتھ کانپنے لگتے ہیں، دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے اور سینے میں درد ہونے لگتا ہے“ میں نے یہ سب کچھ جسمانی طور پر محسوس کیا ہے اور یہ بہت زیادہ تکلف دہ ہے۔

لاک ڈاؤن کا پہلا دن تو سوشل میڈیا پر کرونا وائرس سے متعلق چیزیں دیکھتے اور پڑھتے گزر گیا لیکن دوسرے دن سے مجھے ایسا لگنے لگا جیسے مجھ میں کچھ علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ میرا گلہ تھوڑا خشک ہونے لگا اور مجھے لگا جیسے مجھے بخار ہے۔ جب بخار کو چیک کیا تو پتا چلا ٹمپریچر نارمل ہے بخار نہیں ہے۔ مجھے اطمینان ہوا کہ یہ میرا وہم ہے۔ اتنے میں پاکستان کی خبریں آنے لگیں اور معلوم ہوا کہ وہاں پر وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اب مجھے اپنے آپ سے زیادہ گھر والوں کی فکر ستانے لگی۔ میں بار بار ان سے بات کرتی اور احتیاطی تدابیر بتاتی اور گھر میں رہنے کا کہتی مگر پھر بھی مجھے تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا وہ لوگ احتیاط نہیں کر رہے اور میں پوری کوشش کے باوجود ان کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی۔ میں بہت زیادہ پریشان رہنے لگی۔

سارا وقت میری آنکھوں کے سامنے امی ابو اور بہن بھائی کے چہرے گھومنے لگے مجھے لگنے لگا شاید اب میں ان سے کبھی نہیں مل سکوں گی۔ یہ سوچتے سوچتے مجھے گھبراہٹ ہونے لگتی اور میرا سانس پھول جاتا۔ مجھے لگتا میرے پھیپھڑے کام نہیں کر رہے اور مجھے سانس نہیں آرہا۔ مجھے لگتا میرا پورا جسم درد سے دکھ رہا ہے اور کپکپی طاری ہو جاتی۔ دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہو جاتی کہ لگتا بس جیسے یہ آخری بار دھڑک رہا ہے۔ میں نے سوچا مجھے شاید اپنا دھیان کہیں اور لگانا چاہیے اور یہ سوچ کر میں نے اپنے کمرے کی سیٹنگ بدل دی اور کچھ وقت کھانا بنانے میں صرف کیا۔ اس مصروفیت کی وجہ سے میں کچھ دیر کے لیے بھول گئی اور یہاں تک کہ رات ہو گئی اور میں سو گئی۔

رات کے کسی پہر میری آنکھ سینے میں شدید درد سے کھلی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اس قدر شدید درد ہوا۔ درد اتنا شدید تھا کہ میرا سانس رک گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے کرونا وائرس کا انفیکشن ہو گیا ہے۔ گردن بھی شدید گرم محسوس ہو رہی تھی۔ گلا بھی خشک تھا اور سانس لینے میں شدید دشواری ہونے لگی۔ سینے میں درد اتنا شدید تھا کہ مجھ سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ میں درد کی شدت میں بس یہی سوچ رہی تھی یہ دنیا اب اسی طرح ختم ہو جائے گی۔ سب لوگوں کو انفیکشن ہو جائے گا اور سب میری طرح خاموشی سے مر جائیں گے۔ میں پوری رات سو نہیں سکی درد سے تڑپتی رہی۔ صبح کسی وقت میری آنکھ لگی اور جب میں سو کر اٹھی تو میں حیران تھی کہ نہ تو مجھے درد تھا نہ ہی بخار۔ میں حیران رہ گئی یہ کیسے ہوا۔

اگلی رات پھر یہی سب کچھ دوبارہ ہوا۔ مجھے باقاعدہ احساس ہوتا کہ مجھے بخار ہے اور شدید گھبراہٹ اور سینے میں شدید درد۔ سانس میں اس قدر دشواری کہ لگتا تھا کمرے میں اکسیجن نہیں ہے اور میرے پھیپھڑے کام نہیں کر رہے۔ مجھے ہر رات یہ یقین ہو جاتا کہ یہ میری آخری رات ہے اور اب میں مر جاؤں گی۔ یہ دنیا کا اختتام ہے اب کوئی انسان نہیں بچے گا۔ سب کو انفیکشن ہو جائے گا اور سب ختم ہو جائیں گے۔ میرا رونے کا دل کرتا لیکن سانس ہی نہ آرہی ہو تو رویا بھی نہیں جاتا۔ صرف اندر ہی اندر دل پھٹنے لگتا ہے۔ مجھے لگتا میرے پیارے اب مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کی لیے جدا ہو جائیں گے۔ میرا مستقبل، میری پڑھائی اور میرا سب کچھ یونہی ادھورا رہ جائے گا سب بے سبب ختم ہو جائے گا۔

یہ احساس اس قدر تکلیف دہ ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آج لاک ڈاؤن کو تقریباً بارہ دن ہونے کو ہیں اور مجھ میں ابھی تک کرونا کی کوئی علامت نہیں ہے لیکن جب میں ان سب چیزوں کے بارے میں سوچتی ہوں اور والدین کے بارے میں فکرمند ہوتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کرونا کی تمام علامت مجھ میں آگئی ہیں۔ اور یہ ذہنی طور پر نہیں بلکہ جسمانی طور پر آجاتی ہیں۔ سب کی سب علامات اور کچھ دیر بعد جب میرا دھیان بٹتا ہے تو تمام علامات غائب ہو جاتی ہیں۔

آپ بتائیں جب حالات اس قدر عجیب ہوں اور ہمیں اپنی زندگی تک کی کوئی امید نہ ہو اور اپنے پیاروں سے بچھڑ جانے کا شدید ڈر اور فکر لاحق ہو تو ان حالات میں ہم کیسے کنول کا پھول بن سکتے ہیں؟ مجھے سمجھائیں کیسے؟ اور دوسرا سوال یہ تمام علامات مجھ میں اچانک کیسے آجاتی ہیں جب میں پریشان ہوتی ہوں اور بعد میں خود ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ میں نے سینے کے درد کی کوئی دوا نہیں لی اور وہ خود ہی ٹھیک ہو گیا۔ یہ سب کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

مخلص

ہادیہ یوسف

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

۔ ۔ ۔

محترمہ ہادیہ یوسف صاحبہ!

میں آپ کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے نہ صرف میرے کالم کو غور سے پڑھا بلکہ ایک تفصیلی خط بھی لکھا جس میں آپ نے کئی سوال بھی پوچھے۔

اپنے پچھلے کالم میں۔ کنول کا پھول۔ میں نے اپنی بات سمجھانے کے لیے ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس استعارے کو کئی قارئین نے بہت پسند کیا اور انہیں میری بات سمجھ آ گئی۔

ایک ماہرِ نفسیات ہونے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ جسم اور ذہن کا رشتہ بہت پراسرار ہے۔ جب کوئی انسان زندگی کے مسائل کے بارے پریشان ہوتا ہے تو وہ ذہنی دباؤ اور stress کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ذہنی دباؤ زیادہ عرصہ قائم رہے تو اس سے کئی نفسیاتی اور جسمانی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو جذباتی طور پر حد سے زیادہ حساس ہیں وہ اینزائٹی اور پینک ڈس آرڈر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جن کا ذکر میں نے پچھلے کالم میں کیا تھا۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب ذہنی دباؤ زیادہ دیر قائم رہتا ہے تو کئی لوگ جسمانی مسائل کا بھی شکارہو جاتے ہیں۔ ہم نفسیات سے زبان میں ایسے مسائل کوpsycho۔ somatic disorders کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے تو اس کی بیماری بڑھ سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کو جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح کی مددکی ضرورت ہوتی ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی انسان کا ذہنی دباؤ بڑھتا رہتا ہے تو اس کی جسمانی قوت مدافعت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اور اگر کسی انسان کی immunity کم ہوتی ہے تو وہ ارد گرد کے بیکٹیریا اور وائرس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اور اسے کئی طرح کا انفکشن ہو سکتاہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تو وہ نحیف وناتواں بھی ہوجاتا ہے اورجب اس کی قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے تو اس کو کئی طرح کی جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں۔

آپ کو خط لکھتے ہوئے مجھے اپنا وہ مریض یاد آیا جو خود بچوں کا ڈاکٹر ہے۔ اسنے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ ایک ماں اپنا بچہ بار بار لاتی تھی کیونکہ اسے انفکشن ہو جاتا تھا اور بچے کو اینٹی بیوٹک کھلاتی تھی۔ آخر ڈاکٹر نے ماں سے کہا کہ بچے کی قوتِ مدافعت کمزور ہے اس لیے اسے بار بار کوئی نہ کوئی انفکشن ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے ماں کو مشورہ دیا کہ وہ بچے کو دودھ پلائے اور تازہ سبزیاں اور پھل کھلائے۔ ایسا کرنے سے بچے کی immunity بہتر ہوئی اور اسے انفکشن ہونا بند ہو گیا۔

جسمانی قوتِ مدافعت کی طرح جذباتی قوتِ مدافعت بھی اہم ہے۔ جو لوگ نفسیاتی طور پر مضبوط اور توانا ہوتے ہیں وہ مسائل اور مصائب کی دلدل میں بھی کنول کی طرح اوپر اٹھ جاتے ہیں اور جوکمزور ہوتے ہیں وہ دلدل میں ڈوب جاتے ہیں۔ امید ہے اس سے کنول کے استعارہ واضح ہو گیا ہوگا۔

چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان ذہنی طور پر پریشان ہو تو وہ اپنے آپکو ہپناٹائز بھی کر سکتا ہے اور اپنے آپکو لاشعوری طور پر قائل کر سکتا ہے کہ مجھے فلاں بیماری ہے اور اس بیماری کے symptomsمحسوس بھی کر سکتا ہے لیکن وہ کیفیت عارضی ہوتی ہے اور انسان کو خود اندازہ ہو جاتا ہے یا ڈاکٹر ٹیسٹ کر کے بتا دیتا ہے کہ وہ بیماری ان کا وہم تھی۔

یہ سب باتیں میں نے اس لیے کیں تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ انسان کا ذہن اور اس کالاشعور کتنا طاقتور ہے۔

ان تمام باتوں کا موجودہ وبا کے دنوں سے کیا تعلق ہے؟

میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں حفاظتی تدابیر کا خیال رکھنا چاہیے۔

اپنے ہاتھوں کو دن میں کئی مرتبہ دھونا چاہیے۔

کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو نہ چھوئیں۔

ہمیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ہمیں ایک دوسرے کو بتانا چاہیے کہ یہ سب عارضی ہے اور ایک دن ہم آزمائش کے اس دور سے گزر جائیں گے۔

ہمیں ایسے کام کرنے چاہئییں جن سے ہم جسمانی اور ذہنی طور پر طاقتور رہیں اور ہماری قوتِ مدافعت بڑھتی رہے۔

اگر کسی کو نزلہ زکام کھانسی ہے تو ٹیسٹ کروانا چاہیے کہ یہ عام نزلہ زکام ہے کرونا وائرس نہیں ہے۔

ہم جسمانی اور ذہنی طور پر جتنا زیادہ صحتمند رہیں گے ہم ہر طرح کی بیماری اور انفکشن سے بچے رہیں گے اور اگر کرونا وائرس سے متاثر بھی ہوں گے تو دو سے تین ہفتوں میں صحتیاب ہو جائیں گے۔

جب انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو ہماری سوچ منطقی نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں ہمیں کسی ایسے دوست سے مددلینی چاہیے جس کی سوچ متوازن ہو اور وہ ہمارے مسئلے کا حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ حل بتا سکے اور ہماری ہمت بندھا سکے۔

ہم سب ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور اس مشکل دور کو آسان بنانے کے لیے ہمیں ایسے کام کرنے چاہئییں جن سے ہمیں مسرت حاصل ہو۔ ہمیں ایک دوسرے کی نفسیاتی مدد کی بھی ضرورت ہے جو ہم جسمانی طورپر ملے بغیر بھی فون ’فیس بک اور انٹرنیٹ سے ایک دوسرے کو مہیا کر سکتے ہیں۔

ہادیہ یوسف صاحبہ!

امید یہ میرے اس مختصر جواب سے آپ کے دوست بھی اور ہم سب کے قارئیں بھی استفادہ کر سکیں گے۔

آپکا ادبی دوست

خالد سہیل

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments