کپتان کا استعفیٰ۔ افواہوں کے درمیان چھپی حقیقت


موجودہ دور میں بہت سی برائیاں اور بداخلاقیاں ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی بیماری افواہیں پھیلانے کی ہے۔ افواہیں پہلے بھی پھیلتی تھیں مگر گزشتہ کچھ عرصہ میں افواہ سازی اور بدگمانی کا عفریت باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ اب تو یوں گمان ہوتا ہے کہ گویا افواہ ساز فیکٹریاں قائم ہو چکی ہیں جو آن کی آن میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک افواہ پھیلا دیتے ہیں۔ پروپیگنڈا کے فروغ کے لئے موجودہ دور میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنائے ہوئے ہیں، جن کی مدد سے وہ نہ صرف اپنے سیاسی نظریات کا پرچار کرتے ہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے ان کی کردار کشی بھی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں جب بھی کوئی انہونا واقعہ ہوتا ہے تو افواہ ساز فیکٹریوں سے نت نئی افواہیں باہر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقات افواہیں اس قدر تیزی سے پھیلائی جاتی ہیں کہ نہ صرف حقائق جاننا ناممکن ہو جاتا ہے بلکہ پتھر پر کندہ حقیقت بھی فریب لگنے لگتی ہے۔ کورونا وائرس کے سدباب کے لئے اٹھائے گئے اقدامات نے جہاں اس حکومت کی مایوس کن کارکردگی نے کا پول کھول دیا وہیں پر شہبازشریف کی اچانک واپسی نے نت نئی افواہوں کو جنم دینا شروع کر دیا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ افواہیں ہمیشہ جھوٹ نہیں ہوتیں اور نہ ہی افواہیں ہمیشہ بے سبب ہوتی ہیں۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد ایک حقیقت ہے جسے میں نے افواہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا تھا۔

چند دن پہلے 22 مارچ کو سندھ کے وزیراعلی مراد شاہ اپنے صوبہ میں لاک ڈاؤن کرنے جا رہے تھے کہ اچانک سہ پہر تین بجے وزیراعظم عمران خان کے خطاب کی خبریں نمودار ہونے لگیں۔ یہ اس لیے بھی حیران کن تھا کہ وہ ہمیشہ رات کو خطاب کرتے تھے۔ گمان یہ تھا کہ وہ پورے پاکستان میں لاک ڈاؤن کا اعلان کریں گے مگر توقعات کے برعکس انہوں نے لاک ڈاؤن کے نقصانات بتاتے ہوئے پورا ملک بند کرنے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا یہ اعلان اسلام آباد کے گردونواح میں زیادہ پسند نہیں کیا گیا اور پنجاب کے بڑے انتظامی افسر کے ذریعہ فوج طلبی کی رسمی درخواست منگوائی گئی اور اگلے دن پنجاب سمیت پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہو گیا۔

میرے ایک باخبر دوست نے بتایا کہ انتظامی افسر نے جب وزیراعظم عمران خان کو لاک ڈاؤن کی سمری کا بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ سمری بھجوانے کا پیغام پنڈی سے آیا ہے تو عمران خان نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سب معاملات ’انہوں‘ نے ہی چلانے ہیں تو پھر میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔ جس پر انتظامی افسر نے وزیراعظم کو کہا کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ ان حالات میں ان کا استعفیٰ دینا مناسب نہیں ہو گا۔

میں نے اپنے دوست کی بات کو افواہ سمجھ کر سنی ان سنی کر دیا۔ مگر دو دن پہلے جب استعفیٰ کی خبر تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تو مجھے اپنے دوست کی بات حقیقت لگنے لگی اور میں نے اپنے دوست سے رابطہ کر کے پہلے تو اپنی کم عقلی پر افسوس کا اظہار کیا اور پھر کچھ مزید باتیں پوچھنے پر دوست نے پہلے تو اپنی بات کو اہمیت نہ دینے پر ”عزت افزائی“ کی اور عہد لیا کہ آئندہ اس کی بات کو افواہ سمجھ کر نظرانداز نہ کروں۔ باخبر دوست کا کہنا ہے کہ ہوائیں پیغام دے رہی ہیں کہ اسلام آباد اور پنڈی میں سب اچھا نہیں چل رہا۔ وہ صفحہ جس پر سب ایک تھے نجانے کہاں گم ہو گیا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی حالیہ کورونا وائرس کوآرڈینیشن میٹنگ میں بھی باوردی صاحبان کی جانب سے پہلے شرکت کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور پھر آخری وقت میں شرکت کی گئی۔

شہبازشریف کی واپسی کے بعد فعال سرگرمیوں نے عوام کو ان کے گزشتہ دور حکومت کی یاد دلا دی۔ شہبازشریف آتے ہی جس طرح سرگرم ہوئے ہیں اس سے کچھ لوگوں کو پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں پھیلانے کا موقع مل گیا۔ ان کی فعالیت دیکھتے ہوئے افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ شاید وہ پنجاب کے ڈی فیکٹو وزیراعلی بن چکے ہیں اور اب ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت آ رہی ہے۔ پنجاب کسی بھی حکومت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے پنجاب میں حکومت کا خاتمہ تحریک انصاف کے لئے اقتدار کے خاتمہ کے مترادف ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے اقتدار میں آنا ہی نہیں چاہتی۔ مسلم لیگ ن صرف نئے الیکشن سے اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔ شہبازشریف صرف حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے آئے ہیں تاکہ حکومت کو احساس ہوتا رہے کہ ”گبر آ نہیں رہا بلکہ گبر آ چکا ہے“

کورونا وائرس نے عمران خان کی نا اہلیت کا ایسا پول کھولا ہے کہ جو تجزیہ کار اور اینکر عمران خان کو تبدیلی کا اوتار کہتے تھے اب وہی لوگ عمران خان کو مغرور، انا پرست اور دور حاضر کا فرعون کہہ رہے ہیں۔ کل تک جو مسائل کے حل کے لئے نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے تھے اب وہی انھیں ہٹ دھرم، نکٹھو اور متعصب کہہ رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حالات نئے الیکشن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس وقت ختم ہو رہا ہے۔ یقیناً انھیں اقتدار اور اختیار میں فرق سمجھ آ گیا ہے مگر انھیں اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی۔ انھیں سمجھنا ہو گا کہ ریاست ان کی نا اہلی کا بوجھ زیادہ دیر تک نہیں اٹھا سکتی۔ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔ گمان ہے کہ اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو فارن فنڈنگ کیس کے تنے مردہ میں کسی بھی وقت جان پڑ سکتی ہے اور پھر شاید عمران خان کو استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی نہ دینی پڑے۔

آخر میں عرفان صدیقی صاحب کا یہ شعر
ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو
ایسا لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments