پاکستان میں کورونا کی دستک: دروازے کی چابی کس کے پاس ہے؟
پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 1500 سے تجاوز کرگئی ہے اور اس ہلاکت خیز وائرس کی وجہ سے 12 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن یہ جاننا مشکل ہے کہ ملک میں فیصلے کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں کورونا وائرس کے حوالے سے المناک تصویر پیش کی ہے اور کہا ہے کہ فوج نے وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر صوبائی حکام کے ساتھ مل کر لاک ڈاؤن کا انتظام کروایا ہے۔ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی نگرانی کرنے کے لئے وزارت داخلہ کی طرف سے فوج طلب کرنے کا نوٹس بھی مبینہ طور پر فوج کی براہ راست ہدایت پر جاری کیا گیا۔ وزیر اعظم کو یا تو اس بارے میں علم نہیں تھا یا وہ راولپنڈی کے براہ راست ’احکامات‘ کے سبب بے بس تھے۔
ایسے ہی ایک موقع پر وزیر اعظم سے منسوب یہ بیان سوشل میڈیا پر عمران خان کے استعفیٰ کی سنسنی خیز خبر کے طور پر نشر ہو تارہا ہے جس میں انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ ’اگر سب فیصلے انہوں نے ہی کرنے ہیں تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں‘۔ اس بیان کی صداقت کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی لیکن جب ایسی خبر سوشل میڈیا کی گپ شپ سے مین اسٹریم میڈیا کی خبروں، مباحثوں اور کالموں کا حصہ بننے لگے تو اس سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ لاہور کی فیشن ڈیزائینر ماریا بی کے ایک اظہار تشکر کے حوالے سے بھی سامنے آچکا ہے۔ ان کے شوہر کو پنجاب پولیس نے اچانک گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے باورچی کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد اسے اس کے آبائی شہر بھیج دیا تھا۔ اس طرح وہ اس خطرناک وائرس کو پھیلانے کا سبب بنے تھے۔ عدالت سے ضمانت کے بعد ماریا بی نے البتہ ایک ویڈیو میں اس مشکل وقت میں مد د کرنے پر وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کا شکریہ ادا کیا تھا۔
وزیر اعظم نے گزشتہ روز اخبار نویسوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں اس واقعہ سے لاعلمی ظاہر کی اور کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ لیکن ابھی تک وزیر اعظم ہاؤس سے اس واقعہ کے بارے میں کوئی وضاحت یا تردید جاری نہیں کی گئی۔ اسی طرح آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی ماریا بی کے شوہر کی رہائی کے سلسلہ میں فوج کے کسی کردار سے انکار کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ عام حالات میں یہ وضاحت یا تردید ضروری نہ ہوتی لیکن کورونا کی وجہ سے پائے جانے والے خوف و ہراس کے علاوہ بے یقینی و بے چینی کی فضا میں یہ خبر بے حد اہمیت رکھتی ہے کہ معاشرے کے جو ذمہ دار عناصر جان بوجھ کر کورونا پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، کیا ملک کا نظام ان کے اسٹیٹس اور شہرت کی وجہ سے ان سے درگزر کرسکتا ہے یا ایسے لوگوں کو فوری اور مثالی سزا دلوا کر یہ واضح کرنا چاہئے کہ حکومت وقت کورونا جیسے مہلک وائرس کے پھیلاؤ کا حصہ بننے والے کسی شخص سے رو رعایت نہیں برتےگی۔
حکومت کی لا تعلقی اور بے عملی کا بھرپور مظاہرہ ایک طرف وزیر اعظم اپنے بیانات، بے بنیاد دلائل ، صوبائی حکومتوں کے فیصلوں سے اختلاف اور لاک ڈاؤن کی مسلسل مخالفت کرتے ہوئے کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جب ان کے حوالے سے کسی مشہور شخصیت کا یہ بیان سامنے آئے گا کہ ایک سنگین جرم پر اس کے گرفتار شوہر کو رہا کروانے میں وزیر اعظم نے مدد فراہم کی ہے یا یہ خبریں عام ہوں گی کہ وزیر اعظم مایوس ہو کر استعفیٰ دینے پر غور کررہے ہیں تو حکومت کی اتھارٹی اور نظام کی بے بسی کے بارے میں شبہات بھی تقویت پکڑتے ہیں اور اس تاثر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ملک پر دراصل ’کسی اور ‘ کی حکومت ہے۔ عمران خان صرف خانہ پری کے لئے وزیر اعظم ہیں۔ اسی انتظام کو دراصل ایک پیج کی حکمت عملی کہا جاتا رہا ہے، جس کا اعلان بار بار عمران خان خود کرتے رہے ہیں۔ اور اسی صورت حال میں اپوزیشن عمران خان کو منتخب کی بجائے سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتی رہتی ہے۔
’ سلیکٹڈوزیر اعظم ‘ کی اصطلاح سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں استعمال کی تھی۔ اس کے بعد یہ اس قدر مشہور ہوئی کہ اسے 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی انجینئرنگ کی تصویر کشی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ہی مؤقف سے رجوع کرتے ہوئے عمران خان کو ’میرا بھی وزیر اعظم‘ کہہ کر قومی یک جہتی کے لئے عملی قدم اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے لندن سے اچانک واپس آکر اور ایک ویڈیو پیغام میں حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرکے یہ واضح کیا کہ اپوزیشن اس مشکل وقت میں سیاسی اختلافات بھلا تے ہوئے حکومت کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتہ کے دوران پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس سے ویڈیو خطاب کے بعد اپوزیشن کے ساتھ مکالمہ سے انکار کے ذریعے عمران خان نے یہ بات صاف کردی ہے کہ ملک میں کورونا آئے یا کسی دوسری مشکل کا سامنا ہو، حکومت ایک ایسی اپوزیشن کے ساتھ تعاون پر تیا رنہیں ہے جس کی ساری قیادت ان کی نگاہ میں بدعنوان اور ملکی مشکلات کی اصل ذمہ دار ہے۔
اس پس منظر میں اس وقت کورونا وائرس سے پیدا شدہ بحران کا سامنا کرنے کے لئے کوئی ایک مرکزی طاقت موجود نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ فعال یا مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل ہے۔ عمران خان نے اسے اعتماد کا ووٹ لے کر وزیر اعظم بننے کے لئے ضرور استعمال کیا تھا لیکن اس کے بعد سے انہوں نے ملک کے اہم ترین منتخب ادارے کو کوئی اہمیت دینا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ عوام ہی کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے اپوزیشن لیڈروں کو ان کا جائز مقام اور احترام دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ ایک منتخب وزیر اعظم کا یہ رویہ بھی دراصل اتنا ہی غیر جمہوری ہے جتنا ملکی میڈیا کو دبانے، ہراساں کرنے اور پریشان کرکے حکومت کی تعریف و توصیف پر مامور کرنے کی کاوشیں ہیں۔ وزیر اعظم جب بھی میڈیا سے بات کرتے ہیں وہ چنیدہ ’سینئر صحافیوں‘ کو مدعو کرتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات یقینی بنائی جاتی ہے کہ صرف ان صحافیوں کو بلایا جائے جو بے ضرر سوال کریں اور اپنے اپنے میڈیا میں وزیر اعظم کی بت گری کا فریضہ سرانجام دیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا جو پیٹرن اب تک دنیا کے دیگر ممالک میں دیکھنے میں آیا ہے اس میں یہ چند لوگوں سے شروع ہو کر ہزاروں اور لاکھوں لوگوں تک پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس انسانوں سے انسانوں کے علاوہ ان اشیا کے ذریعے بھی دوسروں تک پہنچ سکتا ہے جنہیں کسی متاثرہ شخص نے چھؤا ہو۔ اسی لئے سب ممالک میں پہلے یہ وائرس کسی متاثرہ ملک کا سفر کرنے والوں کے ذریعے داخل ہؤا پھر مقامی طور پر ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے لگا۔ اسی لئے لاک ڈاؤن، سماجی فاصلہ کے علاوہ بار بار صابن سے ہاتھ دھونے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ وائرس کی منتقلی کی رفتار اور امکان کم کیا جاسکے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہ شخص میں پہلے دو ہفتے کے دوران اس کی کوئی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس لئے متعددصورتوں میں ایسے لوگ اگر قرنطینہ میں نہ رہیں تو وہ سینکڑوں لوگوں تک وائرس کی منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں ہی سختی سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے والے ملکوں مثلاً چین، جنوبی کوریایا جاپان میں اس کی روک تھام کرلی گئی ہے جبکہ اس حوالے سے شروع میں لاپرواہی کرنے والے ممالک مثلاً اٹلی، برطانیہ یا امریکہ میں اب اس کی شدت قابو سے باہر ہورہی ہے اور اس کے انسانوں کی صحت اور معیشت پر اثرات کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔
ایسے مہلک بحران کا سامنا کرنے کے لئے کسی بھی ملک میں فیصلہ کن اتھارٹی کی موجودگی اور قومی ہم آہنگی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت ’فیصلہ کن اتھارٹی‘ کے حوالے سے وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور فوج میں کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بعض سماجی طبقات جن میں دینی رہنما سر فہرست ہیں سماجی دوری کے سوال پر شکوک پیدا کرکے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی مہم کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے نماز باجماعت اور جمعہ کے اجتماعات کو قانوناً ممنوع قرار دیا تھا ۔ اس کے باوجود کراچی کی متعد د مساجد میں جمعہ کی نماز کا اہتمام کیا گیا اور متعدد علما کے یہ ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر گشت کرتے رہے کہ ’مساجد کو بند کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا اور اسے ناراض کرنے کے مترادف ہوگا‘۔ جب حکمران طبقوں میں تعاون و اعتماد کافقدان ہو اور بحران کا سامنے کرنے کے لئے کوئی ایک رائے موجود نہ ہو تو عوام میں لاتعلقی اور بے یقینی پیدا ہونا فطری ہوتا ہے۔
اس کا ایک مظاہرہ آج لاہور کی احتساب عدالت میں جنگ و جیو کے مالک میر شکیل الرحمان کو ریمانڈ میں توسیع کے لئے پیش کرنے کے دوران دیکھنے میں آیا۔ سماجی دوری کے اس زمانے میں پولیس والوں کی کثیر تعداد میر شکیل الرحمان کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے عدالت میں لائی اور جج سمیت کسی وکیل یا ہوشمند اہلکار کو اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ جس ملک کے جج اور پولیس والے ہی کورونا کے پھیلاؤ کے بارے میں بنیادی شعور سے محروم ہیں، اس کے ان پڑھ اور سماجی لحاظ سے محروم طبقات سے سوشل آئسولیشن پر عمل درآمد کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں تو اب تک اس بات کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکا کہ وائرس سے متاثر کتنے لوگ معاشرے میں بے خبر گھوم رہے ہیں اور دوسروں کو وائرس منتقل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کمزور مدافعتی نظام کے حامل لوگوں میں یہ وائرس جلد یا بدیر مہلک شکل اختیار کرلے گا۔ پاکستان کا نظام صحت کثیر آبادی میں متوقع طور سے بیمار ہونے والے لوگوں کے علاج کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ایسے میں ملک کی فیصلہ کن اتھارٹی کے بارے میں شبہات کی موجودگی کورونا وائرس کو پھلنے پھولنے کا زرخیز ماحول فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).