صارفین کے حقوق اور پاکستان


ہر وہ شخص جو روپے خرچ کر کے اشیاء خریدے اور کوئی بھی خدمات حاصل کرے وہ صارف ہے۔ مثلاً ً کسی دکان سے روپیوں کے بدلے راشن، سبزیاں، کپڑے، دوائیں، کتابیں، کمپیوٹروغیرہ حاصل کرنا خریداری ہے اور بجلی، گیس، پانی و دیگر سہولتیں اداروں سے حاصل کرنا خدمات ہیں۔

واضح رہے کہ 15، مارچ، 1962 ء کوسابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کانگریس کے اجلاس میں صارف کو چار بنیادی حقوق فراہم کیے تھے۔ بعد ازاں غیر سرکاری تنظیم ”کنزیومرز انٹرنیشنل“ کی تجویز پر مزید چار حقوق صارفین کو فراہم کیے گئے اور یوں صارفین کے حقوق کی تعداد آٹھ ہوگئی جو ”اطمینان، حفاظت، انتخاب، معلومات، صحت مند ماحول، تعلیم، شکایت کی صورت میں شنوائی اور ازالے کا حق ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ دنیا بھر میں صارفین کے گروہوں کی عالمی فیڈریشن ”کنزیومرز انٹرنیشنل“ کی بنیاد 01، اپریل، 1960 ء میں رکھی گئی تھی جس کے زیرِ اہتما م پہلی مرتبہ 15، مارچ، 1983 ء کو صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد صارفین (عوام) کو ان کے حقوق سے آگاہی پہنچا کر دو فیصد امیر طبقے کی زیادتیوں سے محفوظ رکھنا تھا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس وقت کنزیومر زانٹرنیشنل سے وابستہ پاکستان سمیت 120 ممالک اور ان میں موجود 250 ادارے شامل ہیں۔

دنیا کے مہذب معاشروں مثلاًسوئیڈن، کینیڈا، جرمنی، ناروے، آسٹریلیا، امریکا، انگلینڈ، فرانس و دیگر نے یہ حقیقت جان کر کہ ”عوام ہی ملک کی سب سے بڑی دولت ہوتے ہیں“ صارفین کو حقوق دینے کے لیے اپنے اپنے یہاں بہترین قوانین بنائے اور ان ممالک کی حکومتیں مخلصی سے ان پر عمل پیرارہتی ہیں نتیجتاً یہ معاشرے ترقی و خوشحالی کی قابلِ تقلید مثالیں ثابت ہو تے چلے آ رہے ہیں بالفرض ان ممالک میں صارفین کے حقوق کے خلاف کبھی کوئی پالیسی سامنے آئے تو عوام متحد ہو کراپنے بھر پور ردِ عمل کے ذریعے حکومت کو راہِ راست پر لے آتے ہیں جس کی ماضی قریب میں مثال فرانس میں مہنگائی کے خلاف ہونے والے مظاہرے تھے جن میں عوام نے پیلی جیکٹس پہن کر طویل عرصے تک احتجاج کیا اور بالآخر حکومت کو ان کے مطالبات ماننے ہی پڑے۔

پاکستان میں عوام کی ایک قلیل تعداد صارفین کے حقوق سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہے مگر اُن کی شنوائی نہیں ہوتی ہے حالاں کہ ملک کے کچھ حصوں میں کنزیومر کورٹس بھی قائم ہیں لیکن قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ 72 سالوں سے دو فیصد امیر طبقے کا پھیلایاقانون شکنی کا مضبوط کلچر اور نظام ہے جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اسی لیے سرکاری، پرائیوٹ محکموں اور خوانچہ فروشوں، دکان داروں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں تک سب ہی جگہ، جھوٹ، منافقت، کام چوری، بے ایمانی، رشوت، سفارش، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، خوف، جبر، ظلم، زیادتی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔

بازار سے سودا سلف، کپڑے، کتابیں، الیکٹرونکس کا سامان یا کوئی بھی شے خرید نا اور ضرورت نہ پڑنے یا معیار کم ہونے وغیرہ کی صورت میں اُس شے کو اُسی حالت میں دکان دارکو واپس کرنا صارف کا حق ہے اور دکان دار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صارف سے شے واپس لے کر اُسے پوری رقم واپس کرے لیکن دکان دار وہ شے لے کر رقم دینے سے صاف انکار کر دیتا ہے اور اگر صارف اصرار کرے تو دکان دار اُسے بے عزت کرتا اور مارتا بھی ہے اس دوران صارف سے زیادہ اُس دکان دار کی مدد کو وہاں کے دیگر دکان دار بھی آجاتے ہیں جو تاجر یونین سے وابستہ ہوتے ہیں جن کی رسائی پولیس، سیاسی جماعتوں، تاجر تنظیموں اورنام نہاد کنزیومر رائٹس تنظیموں سمیت دیگر جگہوں پر بھی ہوتی ہے اس لیے ہمیشہ صارف ہی نقصان میں رہتا ہے۔

بجلی، گیس اور پانی کے بل باقاعدگی سے جمع کرانے والے صارفین کی سہولتیں جو اُنہیں پہلے ہی درست طریقے سے فراہم نہیں کی جارہی ہوتی ہیں بل نہ جمع کرانے والوں کی وجہ سے وہ بھی منقطع کر دی جاتی ہیں، غیر ضروری ڈیڈکشن بلز لگائے جاتے ہیں اور بے مُہار مصنوعی مہنگائی کی آڑ میں وقتاً فوقتاً بلا ضرورت ان سہولیات

کی قیمتیں بڑھا اور ٹیکس لگا کر صارف کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کی داستانیں معاشرے میں عام ہیں۔ آئے دن پریس کلبوں پر عوام انصاف کی دہائیاں دیتے نظرآتے ہیں مگران کی داد رسی نہیں ہوتی ہے بل کہ اکثر پولیس اُلٹا ان مظاہرین ہی کو انصاف مانگنے کا انعام موقع پر ہی ایسا فراہم کرتی ہے کہ آئندہ وہ اس بارے میں سوچ کر ہی کانپ اُٹھیں۔

کروڑوں صارفین کا یہ بھی حق ہے کہ اُنہیں اُن کے حقوق سے آگاہی اُن کی قومی زبان سمیت مادری زبانوں میں بھی دی جائے لیکن عوام اس حق سے بھی تاحال محروم ہیں۔ یہی نہیں صارفین کو بے خبر رکھ کر اپنی دکانیں چمائے رکھنے کے لیے معیشت کا کوئی بھی رسالہ اُردو، سندھی، پنجابی اور بلوچی زبانوں کے بجائے صرف انگریزی زبان میں شائع کرایا جاتا ہے۔

اخلاقی سطح پر ہمارے اسلامی سماج کو اس قدر تباہ کیا جا چکا ہے کہ رمضان کے مقدس ایام، عید اوربقر عید پر بھی بجائے صارفین کو سہولتیں فراہم کرنے کے (جیسا کہ ترقی یافتہ معاشروں میں کرسمس و دیگر تہواروں کے موقع پر کیا جاتا ہے ) اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں جنہیں روکنے کے لیے دکھاوے کے انتباہی مراسلے اور کارروائیاں کی جاتی ہیں جن کی زد میں عموماً چھوٹے غریب دکان داراور ٹھیلے والے ودیگر آتے ہیں جب کہ بڑے امیر چور ان حکومتی نوٹس کی پرواہ کیے بنا جی بھر کر ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی اور دیگر ناجائز ذرائع سے خوب اچھی طرح لوٹ کر خود بھی کھاتے ہیں اور اپنا ساتھ دینے والوں کو بھی خوب کھلاتے اور تما م تہوا ر خوشی سے مناتے ہیں جب کہ غریب طبقے کے عوام یہ تہوار بجھے دل سے مناتے ہیں۔

جاری صورتِ حال میں جب کورونا وائرس کا عفریت دنیا بھر میں امیر اور غریب میں امتیاز کیے بنا تباہی مچا رہا ہے تب بھی ہمارے یہاں کچھ عناصر امیر سے امیر تر بننے کی اندھی دوڑ میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے ذریعے کمانے میں مصروف ہیں جس کی خبریں جب ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں تو افسردگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے صنعتکاراور تاجر جو 72 سالوں سے اس ملک اور عوام سے کما کما کر اربوں، کھربوں پتی بن چکے ہیں ان کی جانب سے بھی انسانیت کی خدمت کی فراخ دلی کا وہ مظاہرہ نظر نہیں آ رہا جونظر آنا چاہیے۔

گزشتہ 72 سالوں کی طرح اس سال 15، مارچ کو بھی ہمارے معاشرے میں حکومت، سیاسی جماعتوں، صنعتکاروں، تاجروں، تجارتی یونینوں، سماجی تنظیموں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف ہی سے نہیں بل کہ میڈیاپر بھی خاموشی طاری رہی جو اس امر کی شفاف عکاسی ہے کہ دو فیصد با اختیار سیاسی و غیر سیاسی طبقہ آج بھی انسانیت، اسلام اور قائدِ اعظم ؒ کی تعلیمات کی دانستہ بے حسی سے یکسر نفی کر کے کروڑوں عوام کا خون چوس کرملک کو مزید کھوکھلا کرنے اور اپنی، اپنی اولادوں، عزیز و اقارب اور آقاؤں کی تجوریاں بھرنے میں بے شرمی و تندہی سے شب و روز مصروفِ عمل ہے۔

عوام کے ووٹوں سے دستور ساز اسمبلیوں میں پہنچنے والے حکومت اور اپوزیشن کے تمام منتخب نمائندگان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عوامی مفاد میں اسمبلیوں اور اسمبلیوں سے باہر اپنی دکھاوے کی چیخ و پکار کو چھوڑ کر مخلصی اور سنجیدگی سے اپنے اصل کام ”قانون سازی“ کی جانب توجہ دیتے ہوئے فی الفور صارفین کے حقوق کے لیے بامقصد قانون سازی کریں اور ان قوانین پر سختی سے عمل در آمد کر اکے صارفین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں جیسا مُہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔

در حقیقت ہمارے تمام مسائل کی جڑ تعلیم سے دوری ہے اس لیے تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص مڈل کلاس طبقے کو اپنے چہروں سے منافقت کا نقاب اُتار کر پسے ہوئے کروڑوں غیر تعلیم یافتہ صارفین کے طبقے میں مسلسل شعور اُجاگرکرنا ہوگا اور ان کی مدد کے لیے علمائے کرام کو ہر مسجد کے منبر سمیت تمام مدارس میں ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری و دیگر ناجائز ذرائع سے کمانے والوں کو مسلسل بے نقاب کرتے رہنا ہوگاکیوں کہ سب کے متحد ہوکر جہدِ مسلسل کرنے ہی سے کروڑوں صارفین اپنے جائز حقوق جو اُنہیں اسلام اورآئین ِ پاکستان نے فراہم کیے ہیں غاصب قوتوں کے چنگل سے چھین کر حاصل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments