کورونا کے خلاف ”پَیسِو امیونائیزیشن“ اور رہنماؤں میں انا کا وائرس


آج جب کورونا وائرس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اور چیلینج بنا ہوا ہے اور تمام دنیا کے طبّی ماہرین اس مرض سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر چھوٹے بڑے طریقے خواہ علاج کی تلاش میں مصرُوفِ عمل ہیں اور ہر قسم کے تجربات کر رہے ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان کے نامور اور باصلاحیت فزیشن، ماہرِ امراضِ خُون (ہیماٹالاجسٹ) اور ”نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈزیزز“ (این آئی بی ڈی) کے ڈِین اور ڈائریکٹر، ڈاکٹر طاہر شمسی نے، بذریعہء میڈیا 20 مارچ 2020 ء کو پہلی مرتبہ کورونا وائرس سے لڑنے والے ”غیر فعال حفاظتی ٹیکے“ (پَیسِو ایمیُونائیزیشن) بنانے کی ممکنات کا اشارہ دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر حکومت اُنہیں آج (اُس دن) یہ ٹیکہ بنانے کی اجازت دیتی ہے، تو وہ اپنے ادارے ”این آئی بی ڈی“ کی جانب سے، اپنی ٹیم کی مدد سے دو ہفتوں کے اندر اندر مقامی سطح پر، ”پَیسِو ایمیونائیزیشن“ والے فارمولے کے تحت کورونا سے لڑنے والا (بلا واسطہ) ٹیکہ بنا سکتے ہیں اور اس طرح سے مقامی سطح پر کورونا میں مبتلا مریضوں کا علاج کامیابی سے کیا جا سکتا ہے۔

”غیر فعال حفاظتی ٹیکے“ (پَیسِو امیونائیزیشن) کا یہ طریقہ، دنیائے طب میں اُنیسویں صدی کے اواخر سے رائج ہے اور نیا نہیں ہے۔ اس طریقہ علاج کے تحت کسی بھی وبا میں مبتلا ہونے کے بعد صحتیاب ہو جانے والے مریضوں کے خُون کے کچھ اجزاء (پلازما) نکال کر، انہیں فریز کر کے اسی وبا سے بچاؤ کا ٹیکہ بنا کر، اسی مرض میں مبتلا دیگر مریضوں کو لگا کر انہیں صحتیاب کیا جاتا ہے، جو علاج اس مرض کی تباہ کاریوں سے لڑنے کے لیے مریض کے جسم کے اندر ”اینٹی باڈیز“ بناتا ہے اور اس وبا کے متحرک اجزاء کو بے اثر کر کے، اس بیماری کی وجہ سے انسانی اعضاء پر ہونے والے حملوں کو روکتا ہے۔

موجودہ صُورتحال میں پاکستان کے وہ دس پندرہ مریض، جو اس وقت تک کورونا پازیٹو آنے کے بعد صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو روانا کیے جا چکے ہیں، ان کے خون سے یہ اجزاء (پلازما) لے کر، ان مریضوں کا علاج کرنا ممکن ہے، جن کو ”کورونا“ کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور جن کی مدافعت (بیماریوں سے لڑنے کی قوّت) اتنی زیادہ نہیں ہے، کہ وہ اس وبا کی جانب سے، جسم کے مختلف اعضاء، خاص طور پھیپھڑوں پر ہونے والے حملے کو برداشت کر سکیں، اور اپنا سلسلہ حیات برقرار رکھ سکیں، ایسے مریضوں کو یہ ”پَیسِو امیونائیزیشن“ کر کے ان کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

بقول ڈاکٹر شمسی، یہ وہی طریقہ ہے، جو حال ہی میں چین اپنے مریضوں پر آزما چکا ہے اور امریکا بھی آزما رہا ہے، جس کے نتیجے میں چین نے اپنے باشندوں میں موت کی شرح کم کر کے لگ بھگ 2.5 فیصد تک پہنچائی ہے (وہاں 100 میں سے 2 تا 3 کورونا کے مریض لقمہء اجل بنے ) اور اٹلی اس ”بلا واسطہ ٹیکے“ (پَیسِو امیونائیزیشن) والے طریقے پر عمل پیرا نہ ہوا، تو نتیجتاً ان کے وہاں کورونا کے مریضوں میں موت کی شرح 11 فیصد ( 100 میں سے 11 افراد) ہے۔

امریکا کی جانب سے کورونا کے لیے ٹیکے بنانے کی کوششیں آج کل شب و روز جاری ہیں۔ اتوار 29 مارچ کو شام 6 : 00 اور 7 : 00 بجے کے درمیان، واشنگٹن ڈی سی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے ”پَیسِو امیونائیزیشن“ کا واضح طور پر ذکر کیا کہ وہ اپنے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور موت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کا گراف کم کرنے کے لیے اس طریقہ علاج پر تیزی سے کام کر رہے ہیں، کیونکہ اُن کے بقول، امریکی میڈیکل سائنس کے ماہرین کو کورونا سے مقابلہ کرنے والا ”بالواسطہ ٹیکہ“ بنانے میں کم از کم 10 مہینے لگ جائیں گے، اس لیے ”پَیسِو امیونائیزیشن“ ہی اس وبا کا فوری علاج اور لوگوں کو موت سے بچانے کا فی الحال واحد طریقہ ہے۔

امریکا کی خوراک اور صحت کے مرکزی ادارے ”فیڈرل فُوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن“ (ایف۔ ڈی۔ اے ) نے، منگل 24 مارچ 2020 ء کو بذریعہ ”پَیسِو امیونائیزیشن“ علاج کی باضابطہ منظوری دے کر، اپنے ملک کے تمام فزیشنز بالخصوص امراضِ خُون کے ماہر میڈیکل سائنسدانوں کو اپنا کام شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں، جو تیزی سے اس طریقہ علاج پر کام کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ: ”ہم نے اپنی ٹیسٹنگ کی گنجائش بڑھانے کے لیے ٹیسٹنگ کِٹس بنانے پر زور دیا ہے، تاکہ ہم ملک میں زیادہ سے زیادہ عوام کے ٹیسٹ کر سکیں اور یہ واضح طور پر پتہ چل سکے کہ امریکا کے کتنے باشندے کورونا میں مبتلا ہیں۔

” یاد رہے کہ ٹرمپ کی اس پریس کانفرنس سے چند ہی گھنٹے قبل پاکستان کے معروف سائنسدان، ڈاکٹر عطاءُ الرحمٰن بھی پاکستان کے حوالے سے اسی بات پر زور دے کر کہہ چکے تھے کہ“ ہمیں پاکستان میں کم لوگوں کو ٹیسٹ کر کے اس خوش فہمی میں ہرگز نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارے پاس کم کیسز ظاہر ہوئے ہیں اور وبا کے پھیلاؤ کی صحیح صورتحال جاننے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کرنے چاہییں۔ جس کے لیے پاکستان کو اپنی ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں فوری طور پر اضافہ کرنا ہوگا اور چین سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ٹیسٹنگ کِٹس درآمد کرنی ہوں گی، تاکہ ہم روز لاکھوں کی تعداد میں عوام کے مفت کورونا ٹیسٹ کرنے کو یقینی بنا سکیں، تاکہ کورونا میں مبتلا مریضوں کی صحیح تعداد کا پتہ چلایا جا سکے اور ظاہر ہے کہ درست تعداد میں تشخیص کے بعد ہی صحیح انداز میں علاج ممکن ہو سکے گا۔ ”

تاریخی طور پر بذریعہ ”پَیسِو امیونائیزیشن“ علاج آج کی دریافت نہیں، بلکہ آج سے تقریباً 132 سال پرانا طریقہ علاج ہے۔ 1888ء میں مشہور فرانسیسی امیُونالاجسٹ (ماہرِمناعیات) ”ایمیل راکس“ اور معروف سوئس اور فرانسیسی بیکٹریالاجسٹ (ماہرِ علمِ جراثیم) ”الیگزینڈر یرسن“ نے پہلی مرتبہ دنیا کو یہ بتایا کہ ”خُنّاق“ (ڈپتھیریا) کے کلینیکل اثرات ”ڈپتھیریا“ کے زہر کی وجہ سے مرتب ہوتے ہیں۔

بعد ازاں 1890 ء میں نوبل انعام یافتہ جرمن فزیالوجسٹ ”ایمیل ایڈولف بہرنگ“ اور معرُوف جاپانی بیکٹریالاجسٹ ”کٹی ٹاسو شیبا سابری“ نے ایک ”زہر کُش ٹیکے“ کے ذریعے ”خنّاق“ (ڈپتھیریا) اور ”تشنّج“ (ٹیٹنس) کا علاج دریافت کر لیا۔ اس طرح یہ ”اینٹی ٹوکسن“ (زہر کُش دوا) ٹیکوں (ایمیونالاجی) کے ذریعے جدید طبّی علاج کی پہلی بڑی کامیابی بن کر سامنے آئی۔ اس دور کے میڈیکل سائنس کے ماہرین، ”گنی پگ“ نامی خرگوش نما بغیر دُم والے جانور کی زندگی، خنّاق (ڈپتھیریا) سے تازہ صحتیاب ہونے والے جانور کے خُون سے بنے حفاظتی ٹیکے کے ذریعے بچانے میں کامیاب ہو گئے اور اس کامیاب تجربے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسی طریقہ علاج سے، کچھ جانوروں کے خون سے، خنّاق میں مبتلا انسانوں کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔ 1896 ء تک خنّاق کے ٹیکے کی ایجاد، اُنّیسویں صدی کی میڈیکل سائنس کی دنیا میں شدید متعدی امرض کے لحاظ سے سب سے بڑی پیش رفت اور کامیابی بن کر سامنے آئی۔ یہ ”پَیسِو امیونائیزیشن“ کا طریقہ تب ہی سے پوری دنیا میں کامیابی سے رائج ہے اور اس کا استعمال مختلف امراض کے لیے تمام دنیا میں کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کے اس مشورے اور پیشکش کے بارے میں مُلکی میڈیا پر لگ بھگ پُورا ہفتہ خاموشی رہی۔ پھر ٹھیک ایک ہفتے بعد جمعہ 27 مارچ 2020 ء کو ڈاکٹر شمسی کا تازہ نکتہء نظر نشر ہوا، جس میں انہوں نے بتایا کہ وفاق نے ان سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا، البتہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان حکُومتوں نے اس حوالے سے ان سے الگ الگ رابطے کیے ہیں اور حکومتِ سندھ نے ”پَیسِو امیونائیزیشن“ کے حوالے سے اپنے ماہرین سے مشورے کے بعد پیر 30 مارچ کو ”این آئی بی ڈی“ کو اس طریقہ علاج کی منظُوری دے دی ہے (جو ڈاکٹر شمسی کے 27 مارچ کے انٹرویُو کے دو دن بعد کی پیش رفت ہے ) ، جبکہ حکومتِ پنجاب نے اس سے پہلے ہی یہ ”ٹیکہ“ بنانے کے لیے ڈاکٹر شمسی کی اوّلین پیشکش کے اگلے روز ( 21 مارچ کو) ہی ان سے ویڈیو کانفرنس کرنے کے بعد متعلقہ ”پروپوزل“ منگوا لیا تھا، اور جمعرات 26 مارچ کو نوٹیفکیشن کے ذریعے ”این آئی بی ڈی“ کو اس ”امیونائیزیشن“ بنانے کا حکم بھی دے دیا اور اس حوالے سے ایک حکومتی کمیٹی بنا کر اس کو ڈاکٹر شمسی کی مشاورت میں کام کرنے کی ہدایات دے دی ہیں، مگر وفاق اس حوالی سے بالکل خاموش ہے۔

اسی روز، وزیرِاعظم کے مشیرِ صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے نہایت سرد مہری پر مشتمل ردِّ عمل کا اظہار کیا اور اتنے ہلکے انداز میں جواب دیا، کہ ایسا لگ رہا تھا گویا یہ کوئی ایسا معاملہ ہے، جس پر اگر 10 برس بھی مشاورت چلتی رہے، تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے! انہوں نے کہا کہ ”ہاں۔ یہ بہت پرانہ طریقہ علاج ہے۔ پُوری دنیا میں رائج ہے۔ کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔ ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔

غور کر رہے ہیں۔ ممکن ہوا تو یہ طریقہ استعمال کر لیں گے۔ ”انہوں نے یہ بھی کہا کہ:“ یہ طریقہ اگرچہ صدیوں سے رائج ہے، مگر اتنا سہل نہیں، جتنا بتایا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ بہت اُلجھا ہوا طریقہ ہے اور اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کو امیُون کرنا اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ”ڈاکٹر ظفر مرزا کی اس بے نیازی سے اس اتنی بڑی جان لیوا وبا کی جانب حکومت کی غیر سنجیدگی کا اچھی طرح سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر شمسی نے اُس روز اِس ضمن میں مزید بتایا کہ: ”اس طریقہ علاج سے ہماری کوشش ہوگی کہ آنے والے دنوں میں ملک میں کورونا کے جو ہزاروں مریض اس وائرس کے حملے کے باعث نمُونیا، اور مختلف اعضاء کی خرابی، بشمُول پھیپھڑوں کی خرابی، کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے ہیں، انہیں ہم وینٹیلیٹر تک پہنچنے سے بچا سکیں“۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر انہیں اب سے کام شروع کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ آئندہ 24 گھنٹوں میں پلازما جمع کرنے کا کام شروع کر دیں گے، اور آئندہ چند دنوں تک اندازاً 200 لوگوں کے لیے مذکورہ امیُونائیزیشن تیار کر سکتے ہیں، جو حال ہی میں صحتیاب ہونے والے مریضوں سے پلازما کے حصُول سے بنائی جائے گی، جبکہ اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ ہزاروں مریضوں کے لیے یہ امیُونئیزیشن تیار کروائے، تو اس صُورت میں اسے فوری طور پر فنڈز جاری کرنے پڑیں گے اور کچھ چیزوں کی درآمد کو فوری طور پر یقینی بنانا پڑے گا، تاکہ انہیں درکار سامان زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر اندر انہیں دستیاب ہو سکے اور وہ ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے شعبوں پر پڑنے والے بوجھ سے پہلے پہلے مریضوں کا علاج کرنا شروع کر دیں اور وہ مریضوں کو صحتیابی کی جانب جانے والے راستے کا راہی کر سکیں، اس سے پہلے کہ تشویشناک مریضوں کی تعداد ان کے ہاتھوں سے نکل جائے۔

اس ایک ہفتے کے دوران انہیں نہ صرف صحتیاب مریضوں کے خُون سے پلازما جمع کرنے کا اہم کام انجام دینا ہے، بلکہ مختلف فزیشنس کی ضروری تربیت بھی کرنی ہے کہ یہ پلازما صحتیاب مریضوں سے کیسے نکالا جائے گا، پھر خون کے ان اجزاء کے کون کون سے ٹیسٹ کرنے ہیں، ان اجزاء کو فریز کیسے کرنا ہے، امیُونائیزیشن کے تیّار ہونے کا عمل مکمّل ہو جانے کے بعد اسے مریضوں کو لگانا کس طرح ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اگر اس ایک ہفتے کے دوران مطلُوبہ سامان نہ مل سکا تو اس پورے ہفتے کے دوران کی گئی یہ تمام مشق اور تیّاریاں ضایع ہو جائیں گی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ: ”نیشنل ڈزاسٹر مینیجمینٹ اتھارٹی“ (این ڈی ایم اے ) کی جانب سے بھی حکومتِ چین کو کورونا سے صحتیاب ہونے والے چینی مریضوں کے تھوڑی مقدار میں پلازما بھیجنے کے لیے سرکاری گزارش ارسال کر دی گئی ہے۔ ”مگر ڈاکٹر شمسی نے چین سے پلازما منگوانے کی مخالفت کی ہے، کیونکہ ان کے بقول، جب تک آئندہ آٹھ دس دنوں میں یہ پلازما چین سے پہنچیں گے، اس سے پہلے تک ہم خود ہی“ امیُونائیزیشن ”تِیّار کرنے کے قابل ہو جائیں گے، اس لیے ہمیں چین سے ایسی امداد طلب نہیں کرنی چاہیے، صرف“ این آئی بی ڈی ”کو ضروری اجازت اور فنڈس جاری کرنے چاہییں۔

اس صورتحال میں جب ملک کے اندر ناقص اور سُست رفتار ٹیسٹنگ کے باوجُود گھنٹوں کے اندر اس وبا میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر مرنے والوں کی تعداد میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور یہ حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہسپتالوں سمیت ہمارے صحت کے پُورے نظام کی اتنی وقعت ہی نہیں ہے، کہ ہزاروں کی تعداد میں بیمار پڑنے والے کورونا کے مریضوں کو علاج کی سہولتیں مہیّا ہونا تو درکنار، انہیں ہسپتالوں میں رکھنے کی جگہ بھی مل سکے۔

ایسی ابتر صورتحال میں ”ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بھی غنیمت! “ کے مصداق ملک کے ایک منجھے ہوئے طبّی ماہر کے مشورے پر عمل کرنے میں آخر کیا قباحت ہے! ؟ وہ وزیرِاعظم صاحب، جنہیں یومیہ اُجرت کمانے والے مزدوروں کا تو درد کھائے جا رہا ہے، مگر اُنہیں اِس وبا کی شدّت اور ممکنہ تباہ کاریوں کا اندازہ تک نہیں۔ کیا وہ اپنی انا کے ہاتھوں مجبُور ہو کر، وفاق کی جانب سے محض اس لیے لاک ڈاؤن نہیں کر رہے، کیونکہ ان دنوں لاک ڈاؤن کا تصوّر سب سے پہلے حکومتِ سندھ نے دیا تھا؟

وہ موصوف جس قدر اس وبا کو ہلکا لے رہے ہیں اور فوری عمل درآمد کرنے والے فیصلوں کو دنوں، ہفتوں اور مہینوں پر ٹال رہے ہیں، یہ اِس ملک کو بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔ اُنہیں ہر حال میں اس حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صُوبوں کی طرح وفاق کی جانب سے بھی ”این آئی بی ڈی“ اور ڈاکٹر طاہر شمسی کو اجازت اور ضروری فنڈس جاری کر دینے چاہییں، کہ وہ پہلے مرحلے میں محدُود پیمانے پر ہی سہی، کچھ سو مریضوں کے لیے ”پَیسِو امیونائیزیشن“ کا انتظام کرلیں، جس کو کورونا کے شدید بیمار مریضوں کی صحتیابی کے لیے استعمال کیا جائے اور اس تجربے کی کامیابی کی صورت میں اس فارمولا کا اطلاق مریضوں کی بڑی تعداد پر کر کے، زیادہ سے زیادہ جانوں کو بچایا جائے۔

اگر کورونا کے مقامی سطح پر علاج کے حوالے سے یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے، اور اس کے نتائج 80 فیصد تک بھی حاصل ہو جاتے ہیں، تو یہ پاکستان کی اس مرض کے خلاف ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اگر اس کی کامیابی کے حوالے سے کسی ذہن میں شکوک و شبہات ہیں تو صرف اُس صورت میں ہی دوسرے مرحلے کے لیے حکومت کو زیادہ امیُونائیزیشن بنانے کے لیے ضروری فنڈس خواہ اجازت جاری کرنی چاہیے، جب پہلے مرحلے کا تجربہ کامیاب ہو جائے۔

لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وقت صرف سوچتے رہنے کا نہیں، بلکہ جنگی بنیادوں پر عمل درآمد کا ہے اور اگر قوم کے افراد کی جانیں بچانے کے معاملے میں بھی رہنماؤں کی انائیں آڑے آرہی ہیں اور یہاں بھی ”کریڈٹ“ لینے کی ”رَیس“ جاری ہے، تو پھر یقین جانیں کہ مرنے والے عوام کی ”پَیسِو امیونائیزیشن“ سے پہلے، ہمارے سربراہان کو انسانیت کی ”امیونائیزیشن“ کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments