میڈیکل سٹاف کو شہادت کا ترانہ نہیں، حفاظتی سامان چاہیے


سندھ حکومت کی طرف سے او پی ڈی بند کرنے کا نوٹیفکیشن اٹھارہ مارچ کو جاری کر دیا گیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد کروانا بھی اپنے آپ میں ایک بڑی جدوجہد کا کام ہے۔ اور یہ جدوجہد تبھی کارامد ہوتی ہے، جب ایک انڈسٹری یا آرگنائزیشن کی مینجمینٹ صحیح معنوں میں کام کررہی ہو۔ ہمارا ملک غریب ہے تو ہمارا آرگنائزیشنل ڈھانچہ عجیب و غریب ہے۔ ہسپتال کی او پی ڈی بند کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ڈیوٹی پر کچھ ڈاکٹرز کو چھٹکارا حاصل ہوگیا لیکن اگلے ہی دن وہ زیادہ بوجھ تلے دب گئے۔

مطلب او پی ڈی تو بند ہوگئی اب ڈاکٹر ایمرجنسی ڈیوٹی پر بیٹھیں۔ ڈاکٹرز کے پاس اسی انداز کے ساتھ مریض آتے گئے اور بات آرگنائزیشنل سے انفرادی سطح پرآپہنچی۔ اور لاک ڈاون کے دوران پولیس اسٹیشنوں کی بات کی جائے، تو وہاں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں تھی۔ کیونکہ ہر دوسرے شہری کو پکڑ کے عدالتی مقدمہ کرنا ایک سطحی سوچ ہے، اور ایک ارگنائزیشن سے اس کی استعداد اور صلاحیت سے زیادہ کام لینے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ سارا بوجھ انفرادی سطح پر منتقل کررہے ہیں۔

اگر حکومت انفرادی سطح پر زیادہ کام لے رہی ہے یہ سمجھ آتا ہے کہ چلو ایمرجنسی والے حالات میں ایسی صورت حال آ جاتی ہے، لیکن کیا یہ حکومت کی اہم ترین ذمہ داری نہیں ہے کہ جو میڈیکل اسٹاف یا پولیس اہلکار کام کر رہے ہیں، ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست بھی کرے؟ یا اگر میڈیکل اسٹاف اور پولیس اہلکار اپنی ذمہ داری سے بڑھ کرکوئی حساس کام کررہے ہیں، تو ان کے لیے risk allowance کا اعلان کرے

اس کے برعکس ہوا کچھ یوں ہے کہ میڈیکل اسٹاف اورپولیس اہلکار سمیت تمام تر حکومتی ملازمین کی تنخواہ میں سے کٹوتی کردی گئی دی گئی۔ نماز کیا بخشواتے روزے بھی گلے پڑگئے۔ حفاظتی سامان اور معاوضہ کے بغیر کسی بھی محکمہ کے ملازمین کو اکھاڑے میں اُتارنا کم سے کم الفاظ میں بھی جرم ہے۔ شہادت کے انقلابی نغمے گانا محض اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوشش ہے۔ محض کچھ سامان کے بدلے ذمہ دار میڈیکل اسٹاف کی جان کو کیسے خطرہ میں ڈالا جا سکتا ہے؟ وہ بھی صرف اس لیے کے ہم ماضی میں نا اہلی کی نیند سو رہے تھے؟ وقت آیا ہے تو اب اس حکومتی نا اہلی کی ذمہ داری ان عام ملازمین کے سر پر ڈال کر شہادت کے سرٹیفکیٹ بانٹ دیے جائیں؟ یہ جرم نہیں تو پھر کیا ہے۔

خیر، یہ تو مجموعی بات ہو گئی۔ اب دیہاتی علاقوں کے ملازمین کی بات کرلیتے ہیں۔ دیہات سے مراد ناخوش گوارعلاقے نہیں۔

دیہات کا مطلب کم ترقی یافتہ ڈھانچہ، کم پڑھے لکھے عوام، اب صرف ان دو ڈائیمینشنز کو نظر میں رکھ کر بات کی جائے، تو صورت حال بالکل مختلف معلوم ہوگی۔ اگر ہسپتال کی مثال لی جائے تو ہسپتال کے اندر اگر او پی ڈی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بیٹھا ہوا ڈاکٹر ہر مریض کو دیکھے گا۔ مطلب کوئی مخصوص حالات کے مرض نہیں، بلکہ کسی بھی قسم کے مرض میں مبتلا مریض کو دیکھنا ڈیوٹی پر بیٹھیے ہوئے ڈاکٹر کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ڈاکٹراپنی قابلیت اور استعداد سے زیادہ مریض دیکھ رہا ہے۔ اور اب دیہات کی تعلیم کو پیش نظر رکھ کر اس کے اثرات پر بات کی جائے تو بات بہت دور تک چلی جائے گی۔ اس طرح کی صورت حال میں ان ملازمین کا حق بن جاتا ہے کہ unattractive areas allowances ملے۔ یہ ان کا طے شدہ حق ہے اور ان کو یہ حق نہ دینا جرم میں شامل ہوتا ہے!

خدارا، عام ملازمین پر شہادت کے سرٹیفکیٹ اور قومی سلام جیسے حربے آزمانے کے بجائے انہیں حفاظتی سامان اور معاوضہ دیں۔ اور اگرتوفیق ہوسکے تو مستقبل میں اداروں کی مینجمنٹ کو بہتر بنانے کی بھی کچھ کوشش کرلیں۔ اور انفرادی سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے آرگنائزیشنل مینجمنٹ کو بہتر بنائیں۔ رب راکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments