پنجاب میں لاک ڈاؤن کا بوکاٹا: شادیاں اور رخصتیاں جاری ہیں


دوسرے صوبوں کے حالات سے اتنا ہی باخبر ہوں جتنے ٹی وی چینلز دیکھنے والے دوسرے لوگ باخبر ہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رہنے کے باعث لاہور اور اس کے آس پاس یعنی اس کی ناک کے نیچے کے علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات سے براہ راست باخبر رہتا ہوں، اس لیے کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ پنجاب میں شادی ہالز کی بندش کے باوجود لوگ اپنے بیٹوں کو دلہا بنا رہے ہیں ان کے سروں پر سہرے اور ”کلے“ سجا رہے ہیں، ایسا کرتے ہوئے دلہوں کے والدین باراتی بھی تھوک کے حساب سے ساتھ دلہن کے گھروں میں لے جا رہے ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ ایسا وہ سب لوگ کررہے ہیں جنہوں نے لاک ڈاؤن کی آمد سے قبل اپنے پیارے بچوں کو گھوڑی چڑھانے کے دنوں کی تاریخیں مقرر کر دی تھیں۔ کئی بھلے مانسوں نے لاک ڈاؤں کے تحت شادی ہالز کی بندش کا اعلان ہوتی ہی شادیاں ملتوی کردی تھیں اور اپنے معزز مہمانان کو بذریعہ ٹیلیفون کالز شادی کے التوا سے آگاہ کردیا تھا۔ کچھ اکھڑ قسم کے مزاج کے حامل لوگ شادیاں ملتوی کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے لخت جگروں، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کے سکون بیٹوں کو طے شدہ تاریخوں پر ہی بیاہنے اور دلہنیں گھر لانے پر بضد رہے۔

دیہاتوں کے فرضی ناموں کے ساتھ چار شادیوں کا ذکر کرتا ہوں۔ 25۔ 26 اور 27 مارچ کو شیخوپورہ ضلع کی حدود میں موضع جگاڑ ورتاں میں 2 باراتیں آئیں اور دلہے اپنی دلہنیں ساتھ لے کر اپنے گھروں کو سدھار گئے۔ ان دلہوں کی دعوت ولیمے بھی ہوئے جس میں سینکڑوں مہمانوں نے شریک ہوکر دلہوں کو مبارکباد بھی دی اور ان کے سر پر دست شفقت بھی رکھا۔ ان دلہوں اور دلہنوں کے چہرے خوشی کی تمازت سے چمک دمک رہے تھے اور ان کے دل نازیہ حسن کا گیت گنگنا رہے تھے کہ ”ہم جیسا ہو تو سامنے آئے“ کیونکہ یہ دلہے پورا پاکستان بند ہونے اور جود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی بلکہ گشت کے باوجود وہ اپنے دلوں کی ملکاؤں کو بیاہ کر لے جا رہے تھے۔

دوسری شادی شیخوپورہ شہر میں 28 اور 29 مارچ کو انجام پائی۔ فیروز والا (فرضی نام) کا گورا سائیں (فرضی نام) اپنے بمشکل 18 سالہ فرزند جگو (فرضی نام) کی بارات لے کر پہنچا اور باراتی کے ساتھ دلہن لے کر واپس گھر لوٹا۔ اگلے دن گورا سائیں نے اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ کی۔ مہمانوں کی بریانی اور دیگر لوازمات سے تواضع کی۔ اسی دعوت ولیمہ میں دلہن کے گھر والے بھی شریک ہوئے اور وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر گئے۔

یہ تو میں نے ان دو شادیوں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ میرے علم میں آ گئی تھیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی اور بھی شادیاں ہوں گی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یا ان کی مٹھی گرم کر کے بخیر انجام پا رہی ہوں گی۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ہمارے محافطوں کو اس طرف توجہ دینے اور قانون کے مکمل نفاذ اور ان پر عمل درآمد کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی عوام کو کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments